ابھے کمار
3جنوری،2023
اقلیتوں کو آپس میں لڑانے
کی خاطر ، فرقہ پرست طاقتوں نے ایک نیا کھیل تیار کرلیاہے۔ ان دنوں پوری کوشش یہ
کی جارہی ہے کہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ اس خطرناک کھیل کو
کامیاب بنانے کے لیے سکھ مذہب کی تعلیمات کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔ جو لوگ بھارت
کو ایک بنانے کی بات کرتے نہیں تھکتے ہیں وہی لوگ ہندوستانیوں کے درمیان تفرقہ
پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ سرکاری مشینری اور عوام کے پیسو ں کا بیجا استعمال
کررہے ہیں۔ صاحبان اقتدار جنہوں نے آئینی منصب پر بیٹھنے سے پہلے ملک کی سالمیت
اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔ وہی لوگ بار بار لوگوں کو مذہب
کے نام پر بانٹنے اور ان کے بیچ تلخیاں پیدا کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ 26
دسمبر کے روز قومی دارالحکومت دہلی میں منائے گئے ‘ویر بال دیوس’ پر غور کریں۔اس
تقریب میں خود وزیر اعظم نریندرمودی نے شرکت کی۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم مودی نے
سکھ گرو کے صاحبزادوں کی شہادت کو یاد کیا۔یہ سچ ہے کہ سکھو ں کے آخری گرو گوبند
سنگھ کے بیٹو ں کو بڑی بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔یہ سب کچھ سکھوں اور مغل فوج کے
درمیان رونما ہوئی سیاسی لڑائیوں کا نتیجہ تھا۔ اس لڑائی کا مذہب سے براہ راست
تعلق نہیں تھا، مگر وزیر اعظم کی تقریر اس پورے واقعہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش
کررہی تھی۔
آر ایس ایس کے نقطہ نظر
کو آگے بڑھاتے ہوئے مودی نے کہا کہ سابقہ تاریخ نگاری میں بڑی کمیاں ہیں۔ یہ
ہندوستانیوں کے اندر احساس کمتری پیدا کرتی ہے ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مغل
بادشاہ اور نگزیب کو خوب کوسا ۔مغلوں پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے مذہب بدلنے کے
لیے تلوار کا استعمال کیا۔ مغلوں کے اعمال کو انہوں نے ‘درندگی’ سے تعبیر کیا۔
علاوہ ازیں ،مودی نے کہا کہ صاحبزادوں کی شہادت کی بات کوگھر گھر تک پہنچانے کی
ضرورت ہے ۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کی تعلیمات کواپنے مفاد کے مطابق تشریح
کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ یہ ایک بھارت اور عظیم بھارت کی بات کرتی ہے۔ خیال رہے
کہ جب وہ سابقہ تاریخ نگاری کی تنقید کررہے تھے تووہ ہند وقومیت پر مبنی تاریخ
نگاری کی پیروی کررہے تھے ۔ ہندو قومیت یا ہندو توا نظریہ پر مبنی تاریخ نگاری بھارت
کو بھگوا رنگ میں رنگ کر پیش کرتی ہے۔ یہ بھارت کثیر المذاہب تاریخی حقیقت قبول
نہیں ہے۔ زعفرانی تاریخ نگاری میں ذات پات، طبقات اور جنسی عدم مساوات پر پردہ
ڈالاجاتا ہے۔ اقلیتوں کی ثقافت او رمذہب کو جگہ دینے کے بجائے ،ان کو اکثریت سماج
کادشمن بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
ویر بال دیوس منانے کے
پیچھے حکومت کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ماضی کی سیاسی
لڑائیوں کو مذہبی رنگ دینا ملک کی سالمیت کے لیے بڑاخطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مغل
بادشاہوں کا مذہبی عقیدہ اسلام تھا، اس بنیاد پر ان کو پوری طرح سے خارج کرناتاریخ
نگاری کے اصول کے ساتھ بے ایمانی ہوگی۔مغل بادشاہوں کے غیر مسلم حریفوں کو قومی
لیڈر کے طور پر پیش کرنا بھی ایک خطرناک کھیل ہے۔ مہاراناپرتاب ،گرو گوبند سنگھ،
شیواجی کو ہندو سماج کا پیشوا کہناجس طرح غلط ہے ، اسی طرح اکبر اوراورنگزیب کو
اسلام اور عام مسلمانوں سے جوڑناغیر مناسب ہے ۔ اگر عہد وسطیٰ میں نام نہاد ہندو
اورمسلم راجاؤں اور بادشاہوں کے درمیان جنگیں ہوئیں تو وہ سب اقتدار کے لیے تھا۔
اگر مذہب ہی سب کچھ ہوتا
تو پھر دارالشکوہ اور اورنگزیب آپس میں نہیں لڑتے او رنہ ہی ایک ہندو راجا دوسرے
ہندو راجا کے خلاف مسلم بادشاہوں کاساتھ دیتا۔مگر یہی غلطی وزیر اعظم نے کی اور ان
کی تقریر ان لڑائیوں کو سماجی اور اقتصادی پہلوؤں سے دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔ آج
کی سیاست کو تقویت دینے کے لیے مودی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندؤں کے خلاف
مسلمان بادشاہ ہمیشہ سے ظلم اور زیادتی کرتے رہے ہیں او رہندؤں کے دھرم کو بدلنے
کے لیے تلوار کا سہارا لیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب فرقہ پرست ہندوکو ن ہے ، کی
تشریح کرتے ہیں تووہ سب سے پہلے ہندو کو ن نہیں ہے کہ بات کرتے ہیں۔ مسلمانوں
،عیسائیوں ، پارسیوں او ریہودیوں کو سب سے پہلے غیر ہندو بتلایا جاتا ہے ۔ پھر جو
بچے وہ سب ہندو کہلائے جاتے ہیں۔ ہندو جماعت کے زمرے میں بدھ ، جین اور سکھ مذہب
کے ماننے والوں کو زبردستی شامل کرلیا جاتا ہے ۔آدی باسیوں اور دلتو ں پر بھی
ہندوہونے کی مہر لگادی جاتی ہے۔ بلکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ بدھ ،جین اورسکھ مذہب
کے مرکز میں مساوات کا نظریہ ہے، جو ذات پات پر مبنی غیر برابری کو پوری طرح خارج
کرتا ہے۔ پھر کیسے ذات پات کو ماننے والا دھرم اورذات پات کی مخالفت کرنے والا
دھرم ایک ہی خاندان کا حصہ ہوسکتا ہے ؟ ا س بات پر بھی بہت کم چرچہ ہوتی ہے کہ اس
ملک میں مسلمانوں او رعیسائیوں کے عائلی قوانین ہیں، مگر بدھ جین اور سکھ پیروکار
اور دلت اور آدی واسی سماج کے لوگوں کو ہندو پرسنل لا کے اندر ڈال دیا گیا ہے ۔
کئی بار سکھوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کے پرسنل لا کو الگ کیا جائے ،مگر ان کی
باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا۔آخر بدھ، سکھ جین مذہب کے ماننے والوں کو ہندو بناکر
رکھنے اور ان کی منفرد مذہبی شناخت سے دور رکھنے میں کن کا فائدہ ہے؟
مین اسٹریم میڈیا ان
باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتا کہ آخر کیوں سکھوں نے مودی حکومت کے زیر اہتمام ویر
بال دیوس منانے کی بھی مخالف کی ہے۔اکال تخت اور شری منی گرودواراپر بندھک کمیٹی
نے مودی حکومت پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ سکھ مذہب کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش
کررہی ہے۔ یاد رہے کہ 9 جنوری،2022 ء کو مودی نے گروگوبندسنگھ کے یوم ولادت پر یہ
علان کیا تھا کہ 26 دسمبر کو ویر بال دیوس منایا جائے گا۔ مگر سکھ تنظیموں کا کہنا
ہے کہ گرو گوبندسنگھ کے شہید صاحبزادے فتح سنگھ اور زور آور سنگھ کی شہادت کو یاد
کرنے کے لیے اس دن کو ‘ صاحبزادہ شہادت درس’ کے طور پر منایا جاناچاہئے۔مودی حکومت
نے ان کے مطالبات کو نظر اندازکیا۔ مودی حکومت کے اس فیصلہ کے پیچھے شاید دو
وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ شہادت عربی کا لفظ ہے اور ہندوتوا طاقتوں کیلئے گلے
کے نیچے اتارنامشکل تھا۔ دوسرا یہ کہ ویر بال دوس منا کر مودی حکومت کی منشاجواہر
لال نہرو کے یوم ولادت ‘بال دیوس’ کے مقابلے میں ایک ‘ویر بال دوس’ کو کھڑا کرکے
پہلے کی اہمیت کو ہم کرناتھا ہندو تواطاقتوں کو کون بتلائے کہ سکھ دھرم کے
بانی گرونانک، کی تعلیمات او رہندوتوانظریہ میں کوئی دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
گرونانک کی تعلیم کے مرکز میں صرف ایک خدا کی عبادت ہے جو اسلام کے تصور توحید کے
کافی قریب ہے۔ اسلام کی طرح ہی سکھ مذہب میں بھی بت پرستی کاسخت مخالف ہے۔ سکھ
مذہب میں بھی اسلام کی طرح برابری پر زوردیا گیا ہے اور ذات پات اور نسلی عدم
مساوات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ رسومات اور توہم پرستی کے اندھیرے میں بھٹکنے سے سکھ
مذہب اور دین اسلام منع کرتا ہے۔ سکھوں کے پہلے چار گرووں نے غور وفکر کرنے اور
علم حاصل کرنے پرزور دیا۔کبیر اورگرونانک کی تعلیمات کااثر مغل بادشاہ اکبر کی
مذہبی پالیسی پر بھی نظر آتا ہے۔گرونانک اورکبیر کی کوشش ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب
لانے کی تھی۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ مغل بادشاہو ں اور سکھ گروؤں کے درمیان وقت
وقت پر سیاسی اختلاف بھی رونما ہوئے ،مگر وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ان اختلافات کو
سیاسی، سماجی اوراقتصادی نقطہ نظر سے دیکھیں ۔ اگرمذہب ہی کچھ ہوتا تو پھر کیسے
گرو گوبند سنگھ کے خلاف ہندو راجاؤں نے مورچہ کھولا اوراپنی مدد کے لیے مغلوں سے
فوجی مدد مانگی؟
3جنوری،2023 ، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
--------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism