ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی
25 اپریل 2025
منگل کے روز پہلگام میں دو تین دہشت گردوں نے بے گناہ سیاحوں کو نشانہ بنایا اور تقریبا ً دوغیر ملکیوں سمیت ۲۸؍افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور یہ کئی دہائیوں بعد شہریوں اور سیاحوں پر بہت بڑا خطرناک و افسوسناک حملہ ہے اور تمام بین الاقوامی برادری نے اس کی مذمت کی ہے ۔یہ حملہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ اس کے پس پردہ عوامل و حقائق کیا ہیں ؟ کیا یہ حملہ کسی سازش کا حصہ ہے۔کیا اس کا مقصد دوقوموں کے درمیان نفرت و کراہیت کو بڑھانا ہے اور ووٹ کی سیاست ہے یا کچھ اور ہے۔ یہ سبتفتیشکا موضوع ہے ۔ فی الحال ان سب سے بحث نہیں ہے یہاں صرف اس قسم کے حملوں کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینا مقصود ہے اور اس کا شرعی حکم بیان کرنا ہے ۔ واضح کیا جاتا ہے کہ بلا شبہ یہ ایک دہشت گردانہ عمل ہے اور ہرحال میں قابل مذمت ہے ۔خواہ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ اسلام اس قسم کے عمل کا قطعی طور مخالف ہے جس میں بے گناہوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور غیروں کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہے ۔شریعت میں اس کی ذرہ برابر کہیں سے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ لہٰذا اسلام اس مجرمانہ فعل سے بری ہے یہ چند گمراہ و بھٹکے ہوئے نوجوانوں کا عمل ہے جو سراسر اسلامی تعلیم کے مخالف ہے ۔کیونکہ اسلام تو ہمیں ہرحال میں عدل و انصاف کا حکم دیتا اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ :
اے ایمان لانے والو !اللہ کی خوشنودی کے لیے حق پر جم جانے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں خلاف عدل پر نہ ابھارے ۔عدل کرو کیونکہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو بلا شبہ وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔ (مائدہ؍۸)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب کے ساتھ عدل کا حکم دیا ہے خواہ وہ دوست ہویا دشمن، اپنا ہو یا پرایا، مسلم ہو یا غیر مسلم، قریبی ہو یا بیگانہ م چھوٹا ہو یا بڑا م جاہل ہو یا عالم، بادشاہ ہو یا رعیت ، خواہ کوئی بھی ہو سب کے ساتھ انصاف کرنے کا لازمی حکم ہے بلکہ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ کسی قوم کی عداوت و دشمنی میں اندھا ہوکر اس کے ساتھ ناانصافی مت کرنا بلکہ اس کے ساتھ بھی انصاف کرنا ۔
اور ایک دوسری آیت میں ہے:
ترجمہ: اور ایک قوم جس نے تمہیں مسجد حرام جانے سے روک دیا ہے اس کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو اور حد سے گذر جاؤ۔ (مائدہ؍۲)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر چہ کفار مکہ نے تم کو مسجد حرام جانے سے روک دیا ، تمہارے اوپر ظلم و زیادتی کی ہے لیکن اس کے باوجود اس قوم کی دشمنی میں اندھے ہوکر اور اس کے بغض و عداوت میں مبتلا ہوکر تشفی و انتقام کے لیے تم قطعا ًزیادتی نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ اللہ کے حکم کی پابندی کرنا، عدل و انصاف سے کام لینا اگر چہ خود تمہارے اوپر ظلم ہوا ہے، زیادتی ہوئی ہے یا کسی جرم کا ارتکاب ہوا ہے ۔ لہٰذا کسی کے لیے بھی حلال نہیں ہے کہ اگر کسی نے اس کے ساتھ جھوٹ بولا ہے تو وہ اس کے ساتھ جھوٹ بولے یا کسی نے اس کے ساتھ خیانت کی ہے تو وہ اس کے ساتھ خیانت کرے (تفسیر سعدی)
روایات میں مذکور ہے کہ جب کفار مکہ نے نبی کریم اور آپ کے اصحاب کو مسجد حرام جانے سے روک دیا جس سے ان کو سخت تکلیف و پریشانی ہوئی اور ابھی آپ حضرات حدیبیہ میں ہی تھے کہ اسی وقت مشرق کے مشرکین کی ایک جماعت کا گذر ہوا جو عمرہ کرنے جا رہے تھے ۔ اس پر صحابہ کرام نے کہا کہ ہم ان لوگوں کو عمرہ کرنے سے روک دیتے ہیں جیسا کہ ان کے اصحاب نے ہمارے ساتھ کیا ہے ۔ تو یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو کسی قوم کی عداوت و بغض کی وجہ سے ظلم و زیادتی سے منع کردیا گیا اور ہر ایک کے ساتھ انصاف کا حکم دیا گیا ۔ (الوسیط للطنطاوی)
معلوم ہوا کہ اسلام میں ہر کسی کے ساتھ یہاں تک کہ ظالم کے ساتھ بھی اور ہرحال میں عدل و انصاف مطلوب ہے اور ظلم و جارحیت ممنوع ہے کیونکہ ظلم کا بدلہ ظلم نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ظلم کو ظلم سے دور کیا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح اسلام کا ایک دوسرا لازوال اٹل قاعدہ ہے کہ کسی غیرکو اس کے ناکردہ گناہ کی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ عدل و انصاف نہیں ہے بلکہ ظلم و ستم ، جارحیت اور زیادتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: یعنی یہ کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔(نجم؍۳۸)
مطلب ہے کہ ہر شخص خود اپنے فعل کا ذمہ دار ہے ایک شخص کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جا سکتی ۔ کوئی شخص اگر چاہے بھی تو کسی دوسرے شخص کے فعل کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لے سکتا ۔ نہ اصل مجرم کو اس بنا پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ اس کی جگہ سزا بھگتنے کے لیے کوئی اور آدمی اپنے آپ کو پیش کر رہا ہے ۔(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی ، سید ابو الاعلیٰ مودودی)
کسی کے گناہ کی وجہ سے کسی غیر کی گرفت ہو اور اس کو سزا دی جائے اور دوسرا سزا سے بچ جائے یہ غلط ہے اور انصاف کے تقاضوں کے مخالف ہےبلکہ عین ظلم و ستم ہے ۔یہی شریعت کا فیصلہ اور اس کا قانون و اصول ہے ۔
لہذا پہلگام میں سیاحوں کو نشانہ بنانا غیر اسلامی، غیر شرعی و غیر انسانی عمل ہے اور یہ مکمل طور سے دہشت گردی ہے اور ہر حال میں قابل مذمت ہے ۔یہ ایک بزدلانہ عمل ہے ۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کی شدید بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔
دنیا کی تمام مسلمان و غیر مسلم حکومتوں و حکمرانوں سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ دین و مذہب، رنگ و نسل وغیرہ کی تفریق کے بغیر ان کے ساتھ انصاف کریں اور ہر قسم کے ظلم و ستم سے باز رہیں کیونکہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ بنا کسی تفریق کے سب کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ہے اور ظلم و ستم سے دور رہنا ہے ۔
-------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/attacking-tourists-un-islamic-act/d/135318
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism