عطاء الرحمن نوری
3 اکتوبر، 2014
خطبہ حجۃ الوداع کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ خطبۂ حجۃ الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔ اُسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانت کا سب سے پہلا منشور انسانی ہونے کا اعزاز ہے۔ اس منشور میں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی ، قومی مفاد کسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ نظر تک نہیں آیا۔ ذی قعدہ 10 ہجری میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا اور آخری حج تھا ۔ اسی حوالے سے اسے ‘‘ حجۃ الوداع ’’کہا جاتا ہے ۔ یہ ابلاغ اسلام کی بنیاد پر ‘ حجۃ الاسلام ’، حجۃ التمام ’ اور حجۃ البلاغ’ کے نام سے بھی موسوم ہے۔ اس حج کے موقع پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے ‘‘ حجۃ الوداع ’’ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قصواء اونٹنی پر کجاوا کسا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصواء اونٹنی پر سوار ہوکر بطن وادی میں تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کاسمندر ٹھاٹھیں ماررہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ۔ اس خطبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کا مکمل متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کا مطالعہ کریں جس میں نوع انسانی کے جملہ حقوق کی نشاندہی کی گئی ہے اور نوح انسانی کے مختلف اصناف کے حقوق و فرائض کا جو تذکرہ کیا گیا ہے، اس کا بنظر غائر مطالعہ کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ پاک کی حمد و ثناء کرتے ہوئے خطبہ کی ابتداء یوں فرمائی ۔‘‘ اے لوگو! بے شک تمہارارب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ( آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ سن لو، کسی عربی کو کسی عجمی پر ، کسی سُرخ کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی سُرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب ہے۔ اس طرح زمانۂ جاہلیت کے خاندانی تفاخر اور رنگ و نسل کی بر تری اور قومیت میں اونچ نیچ وغیرہ تصوراتِ جاہلیت کے بُتوں کو پاش پاش کرتےہوئے مساواتِ اسلام کا عَلم بلند فرمایا ۔
فرمایا : اے لوگو! تمہاری جانیں اور تمہاری اموال تم پر عزت و حرمت والے ہیں یہاں تک کہ تم اپنے رب سےملاقات کرو، یہ اس طرح ہے جس طرح تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے۔ اور جس طرح تمہارا یہ شہر حرمت والا ہے۔ بے شک تم اپنے رب سے ملاقات کروگے وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ سنو! اللہ کا پیغام میں نے پہنچادیا اور جس شخص کے پاس کسی نے امانت رکھی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اس امانت کو اس کے مالک تک پہنچادے ۔ سارا سود معاف ہے لیکن تمہارے لئے اصل زر ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پرکوئی ظلم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ کوئی سود نہیں ۔ سب سے پہلے جس ربا ( سود، بیاج) کو میں کالعدم کرتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے ۔ یہ سب کے سب معاف ہے۔ زمانۂ جاہلیت کی ہر چیز کو میں کالعدم قرار دیتاہوں اور تمام خونوں میں سے جو خون میں معاف کررہا ہوں وہ حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حارث کے بیٹے ربیعہ کا خون ہے جو اس وقت بنو سعد کے ہاں شیر خوار بچہ تھا اور ہذیل قبیلہ نے اس کو قتل کردیا ۔ اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہوگیا ہے کہ اس زمین میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی ، لیکن اسے یہ توقع ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ اس لئے تم ان چھوٹے چھوٹے اعمال سے ہوشیار رہنا۔
پھر فرمایا کہ جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، سال کابارہ مہینوں میں تقسیم کیا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں ( ذی قعدہ، الحجہ، محرم اور رجب) ان مہینوں میں جنگ و جدال جائز نہیں ۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے زیرِ دست ہیں ، وہ اپنے بارے میں کسی اختیار کی مالک نہیں او ریہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں اور اللہ کے نام کے ساتھ وہ تم پر حلال ہوئی ہیں تمہارے ان کے ذمہ حقوق ہیں اور ان کے تم پر بھی حقوق ہیں۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر کی حرمت کو برقرار رکھیں اور ان پر یہ لازم ہے کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب نہ کریں اور اگر ان سے بے حیائی کی کوئی حرکت سرزد ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت دی ہے کہ تم ان کو اپنی خواب گاہوں سے دور کردو اور انہیں بطور سزا تم مار سکتے ہو لیکن جو ضرب شدید نہ ہو اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم ان کے خوردو نوش اور لباس کا عمدگی سے انتظام کرو۔ اے لوگو! میری بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو، بے شک میں نے اللہ کا پیغام تم کو پہنچا دیا ہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب ( قرآن کریم) اور اس کے نبی کی سنت ۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو اور اس کو سمجھو تمہیں یہ چیز معلوم ہونی چاہئے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے مال سے اس کی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز لے، پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ جان لو کہ دل ان تینوں باتوں پر حسد و عناد نہیں کرتے ۔ کسی عمل کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا۔ حاکم وقت کو ازراہ خیر خواہی نصیحت کرنا۔ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ شامل رہنا اور بے شک ان کی دعوت ان لوگو ں کو بھی گھیرے ہوئے ہے جو ان کے علاوہ ہیں ۔ جس کی نیت طلب دنیا ہو اللہ تعالیٰ اس کے فقر و افلاس کو اس کی آنکھوں کے سامنے عیاں کر دیتا ہے اور اس کے پیشہ کی آمدنی منتشر ہوجاتی ہے اور نہیں حاصل ہوتا اس کو اس سے مگر اتنا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اور جس کی نیت آخرت میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کا پیشہ اس کے لیے کافی ہوجاتاہے اور دنیا اس کے پاس آتی ہے ا س حال میں وہ اپنی ناک گھسیٹ کر آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے میری بات کو سنا اور دوسروں تک پہنچایا ۔ بسا اوقات وہ آدمی جو فقہ کے کسی مسئلے کا جاننے والا ہے وہ خود فقیہ نہیں ہوتا اور بسا اوقات حامل فقہ کسی ایسے شخص کو بات پہنچاتا ہے جو اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے ۔ تمہارے غلام، جو تم کھاتے ہو ان سے ان کو کھلاؤ ۔جو تم خود پہنتے ہو ان سے ان کو پہناؤ ، اگر ان سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس کو تم معاف کرنا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کردو۔ اے اللہ کے بندو! ان کو سزا نہ دو۔ میں پڑوسی کے بارے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں ۔ (یہ جملہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بات دہرایا کہ یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑوسی کو وارث نہ بنادیں) اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لئے کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کرے ۔ بیٹا، بستر والے کاہوتاہے یعنی خاوند کا اور بدکار کے لیے پتھر ۔ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بغیر کسی طرح منسوب کرتاہے اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔ نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کوئی بدلہ اور کوئی مال۔
جو چیز کسی سے مانگ کرلو اسے واپس کرو، عطیہ ضرور واپس ہوناچاہئے اور قرضہ لازمی طور پر اسے ادا کرنا چاہئے اور جو ضامن ہو اس پر اس کی ضمانت ضروری ہے ۔ (بخاری و مسلم و ابو داؤد) اپنا خطبہ مکمل کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تم سے میرے بارے میں دریافت کیا جائے گا، تم کیا جواب دوگے ؟ انہوں نے کہا ں ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچایا، اس کو ادا کیا اور خلوص کی حد کردی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا ، پھر لوگوں کی طرف موڑا اور فرمایا : ‘‘اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا، اے اللہ! تو بھی گواہ رہنا ’’۔
3 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/khutaba-hujjat-ul-wida-first/d/99363