New Age Islam
Sat Oct 12 2024, 12:37 AM

Urdu Section ( 11 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

If There Is No Pakistan, There Is Nothing !پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں

 

عطا ء الحق قاسمی

میں نے گزشتہ کالم میں سویڈن میں مقیم اپنے فیس بک فرینڈ امجد شیخ کا ایک خط شائع کیا تھا، جس میں انہوں نے پاکستان کی بجائے  سویڈن کو اپنا وطن بنانے کی بہت سی وجوہات بیان کی تھیں ۔ ان وجوہات کا تعلق جن امور سے تھا ان میں کچھ  نے اپنی طرف سےبھی شامل کردی ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ جب انہوں نے پاکستان میں ہوش سنبھالا تو یہاں  ضیاء الحق  کا مارشل لاءلگا ہوا تھا اور جعلی ریفرنڈم کے ذریعے عوام کے بنیادی   حق، حق راے دہی سے انہیں محروم  کیا جا رہا تھا،  دوسری وجہ  یہ بتائی کہ پاکستانی معاشرے میں شدید گھٹن کا احساس ہوتا تھا، یہاں ہر شخص  کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ مختلف بات کرنا پڑتی ہے۔ شخصی  آزادیا ں مفقود ہیں، لوگ ایک دوسرے کے معاملات کی کرید میں رہتے ہیں ، مذہبی ریاکاری  اپنی انتہا کو پہنچ  چکی ہے اور ہر شخص کے پاس اپنی حرام خوری  کا جواز موجود ہے، حکمرانوں کے علاوہ عوام کی اکثریت بھی کرپٹ تھی، چنانچہ انہوں نے ترکِ وطن کا ارادہ کیا اور سویڈن میں جا بسے ۔ان کے خط کی آخری سطوریہ  تھیں: ‘‘ میں یہاں خوش ہوں، سب لوگ ٹیکس دیتےہیں ، وقت پر آتے ہیں، کوئی جھوٹ نہیں بولتا،  کوئی کسی کو دھوکا نہیں دیتا ، میاں بیوی میں تلخی ہوجائے تو شرافت سے الگ ہوجاتے ہیں۔ سرکاری  کاموں  میں رشوت کا چلن بھی نہیں ہے، شراب پی کر لوگ گاڑی ڈرائیو نہیں کرتے اوراگر گاڑی چلانی ہوتو شراب نہیں پیتے ۔ قانون کا احترام مذہب کی عبادت کی طرح کرتے ہیں ۔ قاسمی صاحب! آپ ہمیں پاکستان بلاتے ہیں،  آپ چاہتے ہیں  ہم اپنی جنت چھوڑ کر واپس آجائیں ‘ کچھ عرصہ پیشتر ہمیں بہت شوق تھا کہ بچے اردو بولیں،  اردو پڑھیں، چھت پر شوق سے سٹیلائٹ لگوائی، درجنوں ٹی وی چینل  بھی آنے لگے ، یقین جانیں  دھماکوں  اور بری خبروں  کے سوا کچھ نہ تھا ۔ آج میرے بچے  آزاد فضا میں پل رہے ہیں ، نہ انہیں اردو زبان کی وسعت کاپتہ ہے اور نہ اسلام کی عالمگیریت  کا، وہ سویڈش بولتے ہوئے بچے ایک اچھا انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر میرے  بارے میں  پوچھیں تو میرے لئے آج  بھی  ‘‘ چھ ...... چھیکا ........ چھتی ’’ ہی ہے ۔ قاسمی صاحب میں نے اپنی قربانی دے کر اپنی  آنے والی نسلوں کو ‘‘ بندے کاپتر’’ بنانے کا سامان کردیا ہے ! ’’

میں نے امجد شیخ کے خط کا نچوڑ ان صفحات میں بیان کردیا ہے تاکہ جن قارئین کی نظروں سے ان کا خط نہیں گزرا تھا، وہ اس کے مندرجات سے آگاہ ہوسکیں ۔ میں اگر چاہوں تو پاکستان میں پائی جانے والی خرابیوں  اور مغرب میں پائی جانے والی خوبیوں کے جواب میں ان دونوں  خطوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے  پاکستانی معاشرے کی مزید خرابیوں  اور اس کے ساتھ مغرب کی بھی بے شمار خرابیوں  کا ذکر بہت تفصیل سے کرسکتا ہوں کیونکہ میں نے ان دونوں  معاشروں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے عہد شباب  کے دو بہترین سال امریکہ  میں گزارے  ہیں مگر ہزاروں ڈالر ماہوار تنخواہ ، ایئر کنڈیشنڈ اپارٹمنٹ اور جہاز نما گاڑیاں  چھوڑ کر واپس وطن لوٹ آیا تھا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میری آئندہ  نسل میں کوئی  ‘‘ پیر زادہ پیٹر قاسمی ’’ جنم نہ لے بیٹھے ،واپسی  پر وہی  کرائے کا گھر تھا، اخبار کی سب ایڈیٹری ، تنخواہ  مبلغ 323 روپے ماہوار اور بسوں کے دھکے تھے ۔میرا چھوٹا بیٹا علی اور اس کی بیگم بھی حصولِ تعلیم کے لئے چھ سال دیار مغرب میں  گزار کر لمز اور پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں اور اپنے طور پر ایسا ذہن تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ آنے  والی نسل پاکستان کو ان برائیوں  سے پاک کردے جو اسے اندر سے کھوکھلا کرتی چلی جارہی ہیں۔ان کے علاوہ بھی بے شمار پاکستانی ایسے ہیں جو کئی برس  اپنی ‘‘ جنت ’’ میں گزارنے کےبعد واپس اپنے وطن لوٹ آئے ۔ ان میں چکوال  کے ناصر شیخ کومیں ذاتی طور پر جانتاہوں ۔  انہیں پاکستان واپسی  پر بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن  انہوں نے یہ قربانی اپنے بچوں کے مستقبل  ہی کی خاطر دی ۔ ‘‘ بہتر مستقبل ’’کیا ہے اس کی تعریف ہر کسی کی الگ الگ ہے۔

اور میرا نقطۂ نظر بہر حال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے گردوپیش سےبیزار  ہوں تو کیا گردو پیش  میں رہنے والے لوگوں کو جو ہمارے اپنے  لوگ ہیں تنہا چھوڑ کر وہاں سے راہِ فرار اختیار  کرلینا چاہئے  یا ان میں رہ کر وہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرناچاہئے کہ اگر وہ نہیں، تو ان کے بچے ایک خوبصورت پاکستان میں زندگی گزار سکیں گے ۔ میرے پیارے امجد شیخ، تم نے صرف اپنے بچوں کا سوچا،  ان کروڑوں بچوں کانہیں جو کسی مسیحا کے انتظار  میں ہیں جو ان کے نیم مردہ جذبوں کو زندگی  رمق  عطا کرے ۔ پاکستان کی دھرتی  ہماری بیمار ماں ہے،  بیمار ماں کو اکیلے نہیں چھوڑا کرتے ، اہل مغرب نے  ایسا نہیں  کیا تھا،  وہ  کبھی  زیادہ برے حال  میں تھے،  وہاں  سے بھی  کچھ لوگوں نے ترک ِ وطن کیا مگر جو لوگ معاشرے کو تبدیل کرناچاہتے تھے انہوں نے  اس کے لئے اپنی جانیں  قربان کردیں اور پھرکئی  صدیوں تک قعر مذلت میں رہنے کے بعد وہ آج  کے دور میں پہنچے ۔ یہ وحشی  اقوام تھیں، ان کے درمیان خانہ جنگیاں  ہوئیں انہوں  نے  دوعظیم جنگوں میں کروڑوں لوگ مار دیئے ، ایٹم بم پھینکے ، پھر انہوں نے حالات کی بہتری کے لئے تحریریکیں  چلائیں، بادشاہتوں  اور آمریتوں  کا خاتمہ  کیا، قوانین کی پابندی  کے لئے سخت ترین قوانین بنائے اور ان پر عملدار آمد کو یقینی بنایا لیکن آج بھی  ان کے حکمرانوں کے اندر کا وحشی  پسماندہ  ملکوں کو مزید پسماندگی کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے سائنسی حربے  استعمال کرتا ہے۔ ساری دنیا کو تباہ کن ہتھیار یہی مذہب قومیں  فراہم کررہیں ہیں، عورت کو مردوں کی تفریح کا ذریعہ بنا کر اس کے تقدس کو پامال کردیا ہے  ، امریکہ میں ایک گھنٹے  کے لئے بجلی گئی تھی اور سینکڑوں عورتوں کو لفٹوں میں ریپ کردیا گیا تھا، فیملی  سسٹم تتر بتر ہوگیا ہے ، لوگ اولاد پیدا نہیں کررہے اور یوں پورا مغرب ا س وقت قلتِ آبادی کاشکار ہورہا ہے۔

معافی چاہتاہوں ہمارے امجد شیخ ! میں موضوع سے قدرے ہٹ گیا ہوں،  میں کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے بارے میں تمہاری بین السطور درد مندی قابل تحسین  ہے، میں تمہاری اندرونی تکلیف کو اچھی طرح سمجھتا ہوں، تم محبّ وطن ہو مگر  وہ لوگ تم سے اور مجھ سے زیادہ محبّ وطن ہیں جنہوں نے اپنی دھرتی ماں  کے دکھوں کاعلاج  کرنے کے لئے  اپنی عمرجیلوں  میں گزاردیں ۔ بدترین قسم کا تشددبرداشت کیا ، کوڑے کھائے، پھانسیوں  پر چڑھے ، انہیں  ‘‘ ماما جی ’’  کی عدالتوں میں پانجولاں لایا گیا ، آج  بھی حامد میر چھ گولیاں  کھانے کےبعد کراچی کے ہسپتال میں تکلیف کی شدت سے کراہ رہا ہے ۔ یہاں لوگوں نے  عدلیہ کی آزادی  کی تحریکیں  چلائیں، میڈیا کی آزادی کے لئے جانوں کی قربانیاں  دیں، جمہوری طاقتوں کومضبوط کرنے کی کوشش کی اور الحمد اللہ آج بھی اچھے اشارے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ حالات آہستہ آہستہ بہتر ہورہے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ ہم لوگ جلد از جلد پاکستان کو قائد اعظم اور اقبال  کے نظریات کے مطابق ایک اسلامی فلاحی مملکت  بنانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ یاد رکھو یہاں  سب برے لوگ نہیں ہیں، یہاں سیاست، کاروبار، بیورو کریسی  ‘ فوج ’ دانش ’ تعلیم اور دیگر تمام شعبوں  میں بہت اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے اپنے دائرہ  کار میں رہتے ہوئے قائد اور اقبال کے خواب کو عملی شکل دینے کےلئے کوشاں  ہیں ۔ یہاں ڈاکٹر  امجد ثاقب ہیں، یہاں ڈاکٹر ادیب رضوی ہیں  اور یہاں سب سے بڑھ کر عبدالستار ایدھی  ہیں ’ جو بہت  بڑے بڑے فلاحی منصوبوں  پر کام کررہے ہیں ۔ پاکستان نے بدلنا  ہے ۔ تمہارے بچوں نےاپنے  وطن پاکستان آنا ہے، تم نےبھی آنا ہے، ہم سب  کی پہچان  پاکستان ہی ہے ۔ پاکستان ہماری جان ہے’ ہمارا ایمان ہے’  پاکستان ہمارے بغیر بھی سب کچھ  ہے مگر ہم اس کےبغیر کچھ بھی نہیں ہیں ۔

جون 2014  بشکریہ  : ماہنامہ طلوع اسلام 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/if-there-no-pakistan,-there/d/87465

 

Loading..

Loading..