New Age Islam
Sun Jul 13 2025, 05:24 PM

Urdu Section ( 18 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Assam NRC: سام این آر سی: پراتیک ہجیلا، وپرو اور انٹگریٹڈ سسٹم اینڈ سروسز کے خلاف شکایت درج

 

 ناوا ٹھاکوریا، نیو ایج اسلام

 10 مئی 2023

 آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اپڈیٹیشن گھوٹالہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے متعدد ایف آئی آر کے بعد، انڈین ایڈمنسٹریٹو  سروس (آئی اے ایس) افسر  پراتیک ہجیلا کے بارے میں بہت چرچا ہے، جنہیں اب کامروپ (میٹرو) چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت (سی آر/155/2023، 12 اپریل 2023) میں درج مقدمے کا سامنا ہے۔ این آر سی کے سابق ریاستی کوآرڈینیٹر کے ساتھ وپرو لمیٹڈ اینڈ انٹیگریٹڈ سسٹم اینڈ سروسز (آئی ایس ایس، جس کی نمائندگی پروپرائٹر اتپل ہزاریکا کرتے ہیں) پر معروف آسامی بزنس مین، فلم ساز اور سوشل میڈیا صارف لوئت کمار برمن نے این آر سی آسام اپ ڈیٹ کرنے کے عمل (مئی 2014 سے اکتوبر 2019) کے دوران 155 کروڑ کی منی لانڈرنگ میں ان کے کرداروں کے لیے مقدمہ دائر کیا ہے۔

 آسام-میگھالیہ کیڈر کے 1995 بیچ کے آئی اے ایس افسر کو حال ہی میں مدھیہ پردیش حکومت نے تفویض کردہ ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا تھا (جہاں ہجیلا سپریم کورٹ آف انڈیا کے حکم کے بعد 2019 سے تین سال بین ریاستی ڈیپوٹیشن پر تھے کیونکہ این آر سی آسام میں دھوکہ دہی کے معاملے میں ہجیلا کی جان کو خطرہ تھا) اور اب IIT گریجویٹ بیوروکریٹ کو اپنے اصل کیڈر میں واپس آنے کی امید ہے۔

 تاہم، غیر مصدقہ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہجیلا نے اپنی خدمات سے رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کے لیے پہلے ہی درخواست دے دی ہے کیونکہ بظاہر وہ واپس آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تاہم، بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے ہجیلا کی تجویز کی مخالفت کی اور اسے فرار کا ایک راستہ بتایا۔

 شکایت کنندہ، جو اپنے آپ کو بدعنوانی کے خلاف ایک فکر مند اور چوکس ہندوستانی شہری بتاتے ہیں، نے 31 مارچ 2020 کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے سماجی، اقتصادی اور عمومی شعبوں پر کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی) کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں ایسے ایک بدعنوانی کے معاملے کا ذکر کیا گیا جس میں عوام کی بڑی رقم شامل تھی۔ سی اے جی نے ہجیلا اور سسٹم انٹیگریٹر (ویپرو، جو کہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ایک ہندوستانی آئی ٹی کمپنی ہے) کے خلاف تعزیری کارروائی کی بھی سفارش کی ہے۔ خود کے علاوہ، برمن نے اپنی شکایت میں آئی اے ایس (ریٹائرڈ) اور این آر سی اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر ہجیلا کے فوری جانشین ہتیش دیوسرما اور آسام پبلک ورکس کے صدر، اور آسام میں این آر سی اپ ڈیٹ کے لیے سپریم کورٹ میں اصل درخواست گزار ابھیجیت سرما، کو بطور گواہ متعارفش کیا ہے۔

 دیوسرما اور سرما دونوں نے گزشتہ چند مہینوں میں ہجیلا کے خلاف الگ الگ ایف آئی آر درج کرائی تھی جس میں مالی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کے نام این آر سی میں جان بوجھ کر شامل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ دو شکایات میں (ایک آسام پولیس کے مجرمانہ تفتیشی محکمہ میں اور دوسرا وزیر اعلی کے چوکسی اور انسداد بدعنوانی ونگ میں)، دیوسرما نے الزام لگایا کہ ان کے پیشرو (ہجیلا) نے کچھ عہدیداروں اور ایک بیرونی شخص (جس کا نام پرلے سیل ہے) کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی تھی۔ مختلف عوامی مباحثوں میں (بشمول متعدد ٹیلی ویژن ٹاک شو کے)، دیوسرما نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ این آر سی کی ضمنی فہرست میں ہزاروں غیر قانونی تارکین کے نام شامل ہیں کیونکہ اس عمل میں فیملی ٹری میچ اسکیننگ کو روکنے کے لیے جان بوجھ کر خراب سافٹویئر استعمال کیا گیا تھا۔

  قابل ذکر بات یہ ہے کہ سی اے جی کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے سینکڑوں سافٹ ویئر یوٹیلیٹیز کو بے ترتیب طریقے سے این آر سی اپڈیٹیشن میں شامل کیا گیا تھا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس کام کے لیے انتہائی محفوظ اور بھروسے مند سافٹ ویئر ضروری تھا، لیکن قومی ٹینڈر کے بعد دکانداروں کے انتخاب جیسے کسی مناسب اقدام کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے، اہم سافٹ ویئر تیار کرتے ہوئے، پرائمری میں 200 سے زائد سافٹ ویئر یوٹیلیٹیز کا بے دریغ اضافہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ ائینی آڈٹ باڈی نے دعوی کیا کہ آسام میں غلطی سے پاک این آر سی کی تیاری کا مطلوبہ مقصد پورا نہیں ہوسکا، حالانکہ این آر سی اتھارٹی کو 1,579 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے تھے اور اس عمل میں تقریباً 50,000 سرکاری ملازمین کا استعمال کیا گیا تھا۔

 بدقسمتی سے، این آر سی کی بے ضابطگی کے معاملے میں سپریم کورٹ بھی اس وقت کے سی جے آئی رنجن گوگوئی پر مشتمل ایک بنچ کے طور پر شامل ہے جو خاص مشق کی 'نگرانی' کرتا تھا۔ الجھنیں اس وقت سامنے آئیں جب 6000 کے قریب عارضی ملازمین کو مقررہ ماہانہ تنخواہوں سے کم ادائیگی کی گئی۔ وہ کنٹریکٹ ڈیٹا انٹری آپریٹرز، جنہیں ملک کے مینمم ویجز ایکٹ کے مطابق کم از کم تنخواہ سے بھی محروم کیا گیا تھا، انہیں 2015 سے 2019 کے دوران صرف 5,500 روپے ( سے 9,100) ماہانہ (فی شخص) ہی ادا کیے گیے۔ لیکن این آر سی اتھارٹی (یعنی حکومت ہند) نے ایک ڈی ای او کے لیے ہر ماہ 14,500 روپے سے (17,500 تک) کی منظوری دی۔

 یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ہجیلا نے شفاف ٹینڈرنگ کے بغیر کسی مناسب عمل کے، وپرو کو ڈی ای او کی فراہمی کا کام سونپا اور اس نے غیر قانونی طور پر ایک ذیلی ٹھیکیدار (آئی ایس ایس، جس کی ملکیت اور انتظام ہزاریکا کے پاس ہے) کو شامل کیا۔ اس طرح سسٹم انٹیگریٹر کو 155.83 کروڑ روپے کا ناجائز فائدہ پہنچایا گیا۔ یہاں تک کہ سی اے جی کی رپورٹ، جو ریاستی قانون ساز اسمبلی کے سامنے بحث کے لیے پیش کی گئی تھی، میں بھی کہا گیا ہے کہ وپرو کو 10% معقول منافع کے مارجن کی اجازت دینے کے بعد بھی مارجن کا فرق بہت زیادہ تھا۔ غیر مطمئن ڈی ای او نے ریاستی لیبر کمشنر سے رابطہ کیا اور اپنی قانونی رقم کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑک پر آ گئے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

 اس معاملے پر چند ماہ قبل مرکزی دھارے کے میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارموں دونوں پر خوب بحث چلی جس میں مختلف شعبوں میں ہنر مند، نیم ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں کے لیے ریاستی حکومت کی اقل یومیہ اجرت کو اجاگر کیا گیا تھا، جہاں یہ ہدایت کی گئی تھی کہ ایک غیر ہنر مند مزدور بھی قانونی طور پر 240 روپے یومیہ کا دعویٰ کر سکتا ہے جو کہ ماہانہ (7,200 روپے) بنتے ہیں، جبکہ ایک ہنر مند کو کم از کم 350 روپے یومیہ (یعنی 10,500 روپے ماہانہ) ملنا چاہیے۔

 ذمہ دار افراد نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے تین ٹیلی ویژن صحافیوں کی نشاندہی کی جو این آر سی اپ ڈیٹ کے عمل میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بدنامی اور شرمندگی کے باوجود ان اینکر صحافیوں نے الزامات کا جواب نہیں دیا (اب بھی نہیں د رہے)۔

 ان آر سے اپ ڈیٹ کرنے کا عمل دسمبر 2014 میں شروع ہوا جس کی ابتدائی لاگت تقریباً 288 کروڑ روپے تھی اور اسے 14 ماہ کے اندر (فروری 2015 تک) مکمل ہونا تھا۔ لیکن اس منصوبے کی ٹائم لائن تاخیر کا شکار رہی اور حتمی مسودہ 31 اگست 2019 کو شائع ہوا۔

 وقت گزرنے کی وجہ سے، مارچ 2022 تک پروجیکٹ کی لاگت تقریباً 1600 کروڑ روپے تک بڑھ گئی۔ اگرچہ ہجیلا نے دعویٰ کیا تھا (جسے چند ٹیلی ویژن اینکرز نے بے شرمی سے سب سے بہترین قرار دیا تھا)، کہ جاری کردہ این آر سی کو ابھی تک بھارت کے رجسٹرار جنرل نے نوٹیفائی نہیں کیا ہے۔

 این آر سی میں 25 مارچ 1971 سے پہلے آسام میں رہنے والے تمام حقیقی ہندوستانی شہریوں (یا ان کے آباؤ اجداد) کے نام درج کرنے تھے، اور حتمی مسودے میں 3,30,27,661 درخواست دہندگان میں سے کل 3,11,21,004 شہریوں کے نام شامل تھے۔ (لہٰذا حتمی مسودے میں تقریباً 19 لاکھ افراد کو شامل نہیں ہو سکے کیونکہ وہ درست دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہے)۔

 آسام، جس نے اپنا پہلا این آر سی 1951 میں تیار کیا تھا، اس میں سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن بھی شامل ہو گئے تھے۔ تیزی سے آبادیاتی تبدیلیوں نے آسام کی مقامی برادریوں کو چوکنا کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں اسی کی دہائی میں غیر ملکی مخالف تحریک شروع ہوئی۔

 اس تاریخی چھ سالہ طویل کشمکش، جس کی قیادت آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) اور آسوم گنا سنگرام پریشد کر رہی تھی، 1985 میں نئی دہلی میں ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اختتام پذیر ہوئی۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس اشتعال انگیزی کی قیادت کرنے والوں نے آسام میں 25 مارچ 1971 سے پہلے کے تمام مہاجرین کو قبول کرنے پر اتفاق کیا، جب کہ مجموعی طور پر ملک میں ہندوستانی شہریت کا دعویٰ کرنے کے لیے ایک مختلف انفصالی سال (1951) موجود ہے۔ حال ہی میں آسام کے لیے خصوصی انفصالی تاریخ کو ایک سول سوسائٹی گروپ (مطیع الرحمان کی قیادت میں سنملتا مہا سنگھا) نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ سپریم کورٹ کا متوقع فیصلہ آسام NRC کی قبولیت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے (جیسا کہ اس نے 1971 کو بنیادی سال قرار دیا ہے)۔

 اے پی ڈبلیو کے صدر سرما، جنہوں نے وپرو (ہجیلا کے علاوہ) کے خلاف پولیس شکایات درج کرائی، انہوں نے بھی وپرو ٹیکنالوجیز کے چیئرپرسن عظیم پریم جی کو ایک خط بھیجا، جس میں انہیں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کے عمل میں کمپنی کے ناپاک کردار کے بارے میں مطلع کیا۔ حال ہی میں، انہوں نے وزیر اعظم نریندر پر بھی زور دیا ہے کہ مودی اس معاملے میں مداخلت کریں تاکہ قصورواروں کو قانون کے تحت سزا مل سکے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہزاروں بنگلہ دیشی خاندانوں کے ناموں کو فہرست میں شامل کرنے کے لیے اس نظام کو متاثر کرنے کے لیے بیرونی ممالک سے بڑی رقم آئی، انہوں نے یہ کہا کہ انفورسمنٹ ڈیپارٹمنٹ، سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کو الگ الگ این آر سی گھوٹالے کی جانچ کرنی چاہیے۔

  دریں اثنا، باشعور آسامی افراد، سول سوسائٹی اور سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کے ایک بڑے حصے نے اس پورے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ این آر سی کے موجودہ نتیجے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

 وہ اب بھی توقع کرتے ہیں کہ مجرموں کو ان کی سماجی حیثیت سے قطع نظر سزا دی جائے گی اور آسام میں حقیقی این آر سی کی امید ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے بے قاعدگیوں میں ملوث افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے اور حال ہی میں زعفرانی رہنما نے اعلان کیا کہ ریاستی حکومت نے پہلے ہی ہجیلا کے خلاف مقدمہ اقتصادی جرم کے ڈائریکٹوریٹ کو بھیج دیا ہے۔

 ----

English Article:  Assam NRC: Complaint Registered Against Hajela, (IAS Officer), Wipro and Integrated System and Services (Sub-Contractor)

 

URL:    https://newageislam.com/urdu-section/assam-nrc/d/129800

  

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..