ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام
10 اکتوبر 2024
خواتین کی آزادی کی حمایت کرنے والی، مراکش کی ایک خاتون اسکالر أسماء المرابط نے، مساوات کے قرآنی نظریہ کے تناظر میں تقوی کے تصور پر جو تحقیق پیش کی ہے، اس سے انسانیت کے روحانی سفر کی نوعیت کے حوالے سے، گہری بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ قرآن، خالق کے حضور تمام انسانوں کی مساوات کا ایک واضح موقف پیش کرتا ہے، جس میں نسل، قبیلہ، ظاہری خدوخال اور جنس جیسے عوامل کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بات ان معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرتی ہے، جن میں اکثر فطری انسانی وقار پر، سطحی اختلافات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسماء المرابط کے استدلال کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تقویٰ، جس سے مراد اکثر پرہیزگاری یا خوفِ خدا لیا جاتا ہے، وہ ایک وسیع تر مفہوم کا حامل ہے، جو لوگوں کو ایک ایسی زندگی کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے، جو نیکی، محبت اور دوسروں کے احترام سے عبارت ہو ۔
المرابط کے مقالے کا مرکزی محور، یہ قرآنی فیصلہ ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ یہ اصول محض ایک نظریاتی دعویٰ نہیں ہے، بلکہ روزمرہ کی زندگی میں عملی اطلاق کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ ان کے خیال میں، مساوات پر قرآن کا زور، انسانی معاشرے کے تفرقہ انگیز رجحانات کے لیے اصلاح کا محرک ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جو تیزی سے پولرائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے، قرآنی فریم ورک اس بات کا از سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کرتا ہے، کہ ہم ایک دوسرے کو کیسے دیکھتے ہیں اور ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ معاملات کیسے ہیں۔ یہ انقلابی تصور انسانوں کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے، کہ انسانوں کی قدر و اہمیت کا تعین سماجی معیار سے نہیں ہوتا، بلکہ ان کی روحانیت اور اخلاقی طرز عمل سے ہوتا ہے۔
------
Asma Lamrabet is a Moroccan doctor, Islamic feminist and author (Photo: Asma Lamrabet).
------
روایتی تشریحات سے ہٹ کر تقویٰ کی سمجھ
روایتی طور پر، تقویٰ کو بنیادی طور پر پرہیز گاری یا خوفِ خدا کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، المرابط اس کا ایک اس سے بھی زیادہ نفیس معنی مراد لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تقویٰ کو ایک روحانی قدر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جس کی جڑیں خدا کے لیے محبت اور احترام میں ہیں، اور اس کا اظہار روزمرہ کے افعال و کردار کے ذریعے ہونا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر، روحانیت کی ایک بے لچک اور خوف پر مبنی معنی کو چیلنج کرتا ہے، جو انسانوں کو ذات باری کے ساتھ ایک حقیقی تعلق استوار کرنے سے روک سکتا ہے، اور انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کر سکتا ہے۔
تقویٰ کو محبت اور احترام کی ایک قدر کے طور پر قبول کرنے کا مطلب، زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی موجودگی کا ایک باطنی شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ اہل دنیا کے ساتھ ہمدردی، محبت اور اخلاقی محاسن کے ساتھ معاملات کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ تقوی کا یہ معنی لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، کہ وہ الہی انتقام کے خوف سے اوپر اٹھ کر، خدا کے ساتھ ایک گہرے تعلق کی طرف بڑھیں، جس کی خصوصیت محبت، شکرگزاری اور اخلاقی خوبیاں ہوں۔
المرابط اس بات پر زور دیتی ہیں، کہ تقویٰ روح کی ایک نہ ختم ہونے والی کشادگی اور نیک اعمال کے ذریعے خدا سے قربت کی خواہش سے عبارت ہے۔ روحانیت کا یہ تصور، انسان کی زندگی میں مقصد اور نصب العین کے احساس کو فروغ دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ سفرِ روحانیت میں ہر عمل، خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، عظیم روحانی تکمیل کی طرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔
تقویٰ لوگوں کو اپنے خیالات، الفاظ اور اعمال پر دھیان دینے، اور اپنے اندر صفات الہیہ پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ صفات روزمرہ کے اعمال و افعال کو روحانی ترقی کے مواقع میں بدل دیتے ہیں۔ اس روشنی میں، احسان کا ایک سادہ عمل، عقیدت کے اظہار کا ایک طریقہ بن جاتا ہے، جب کہ اخلاقی محاسن صحت مند اخلاقی اصولوں کے ساتھ وابستگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
تقویٰ اور انسانی وقار کا باہمی تعلق
اہم بات یہ ہے کہ المرابط کا یہ نظریہ، تقویٰ کو انسانی وقار کے تصور سے جوڑتا ہے۔ جب لوگ اس تعلق کو صحیح معنوں میں پہچاننے لگ جاتے ہیں، تو ان کے لیے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے، کہ وہ تقویٰ کی ایک جامع تفہیم کو اپنا لیں، جو خود غرضی سے بالاتر ہوا۔ یہ باہمی ربط اس بات پر زور دیتا ہے، کہ حقیقی روحانی ترقی کوئی تنہائی کا سفر نہیں ہے، بلکہ یہ فطری طور پر ایک معاشرتی عمل ہے۔
جب لوگ اپنے تقویٰ کے سفر میں آگے بڑھتے ہیں، تو وہ در اصل اجتماعی انسانی وقار کی سربلندی میں اپنا تعاون پیش کرتے ہیں۔ یہ متحرک رشتہ ایک ایسے معاشرے کو پروان چڑھاتا ہے، جہاں عزت، ہمدردی اور انصاف کو غلبہ حاصل ہو۔ جب لوگ تقویٰ کے اصولوں کو اپناتے ہیں، تو وہ ایسے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں جن سے دوسروں کو ترقی ملتی ہے، جس سے ایک ایسا اثر پیدا ہوتا ہے جس سے برادریوں، معاشروں اور منجملہ اس کائنات کے اخلاقی تانے بانے کو تقویت ملتی ہے۔
آج کے معاشرے میں تقویٰ کے عملی اثرات
آج کی دنیا میں، جہاں عدم مساوات اور ناانصافی کا راج ہے، تقویٰ کے اصول اس کا ایک مضبوط توڑ پیش کرتے ہیں۔ مساوات اور باہمی احترام کے احساس کو فروغ دے کر، ہم ان سماجی اصولوں کو کھل کر چیلنج کر سکتے ہیں، جو تقسیم اور امتیازی سلوک کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ تقویٰ کا یہ عملی اطلاق سماجی انصاف، ماحولیاتی ذمہ داری، اور اخلاقی قیادت اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، سماجی انصاف کے دائرے میں، تقویٰ ہمیں پسماندہ اور مظلوموں کی حمایت کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور ان کی عزت و وقار کو بھی خدا کے دوسرے بندوں کے مساوی تسلیم کرتا ہے۔ ماحولیاتی سیاق و سباق میں، تقویٰ اس کرہ زمین کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، کیونکہ تقوی میں خلق کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا، دراصل خالق سے محبت کا اظہار ہے۔
مزید برآں، ذاتی معاملات میں، تقویٰ کو اپنانے سے ہمارے تعلقات اچھے ہو سکتے ہیں۔ تقوی انسانوں کو خوف یا ذمہ داری کے احساس سے نہیں، بلکہ حقیقی محبت اور احترام کے جذبے کے ساتھ، دوسروں سے حسن سلوک کی ترغیب دیتا ہے۔ ہمارے اندر یہ ذہنی تبدیلی، اخوات اور تعلق کے احساس کو فروغ دیتے ہوئے، مزید بامعنی روابط کا باعث بن سکتی ہے۔
تقویٰ کی آبیاری
روزمرہ کی زندگی میں تقوی کو فروغ دینے کے لیے، مسلمانوں کو خود احتسابی اور توجہ سے کام لینا چاہیے۔ ہم اپنے اندر خود احتسابی کا جذبہ پیدا کر کے، اپنے محرکات اور اعمال کی گہری سمجھ حاصل کر سکتے ہیں۔ شکر گزاری، ہمدردی اور محبت سے کام لیکر، ہم اپنی زندگیوں کو محبت اور احترام کی روحانی قدروں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتے ہیں، جو کہ تقویٰ کا جوہر ہے۔
تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں اور عبادت گاہیں، ان اقدار کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ آج کے معاشرے میں تقویٰ کے مضمرات اور اس کی مطابقت پر مکالمے کو فروغ دے کر، ہم انسانوں کو دوسروں کی فلاح و بہبود کے ساتھ منسلک، اپنا روحانی سفر شروع کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب تقسیم و تفرقہ، جنگیں اور تنازعات، ہماری مشترکہ انسانی قدروں کو ختم کر سکتی ہیں، المرابط کی تقویٰ کی طرف لوٹنے کی دعوت، ہمیں بتاتی ہے کہ روحانی ترقی اور اخلاقی زندگی کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔ یہ پوری انسانیت کے لیے چیلنج ہے کہ وہ سطحی اختلافات سے بالاتر ہو کر نیک اعمال میں مشغول ہو جائے، جس سے انسانیت کے مشترکہ وقار کا احترام پیدا ہو۔ بالآخر، تقویٰ کی طرف یہ سفر صرف ایک ذاتی کوشش نہیں، بلکہ ایک ایسی دنیا کو فروغ دینے کا ایک اجتماعی مشن ہے، جہاں محبت، احترام اور مساوات کا راج ہو۔
------
English Article: Asma Lamrabet on Taqwā as Moral Integrity and Respect for Human Dignity
URL: https://newageislam.com/urdu-section/asma-lamrabet-taqwa-moral-integrity-human-dignity/d/133938
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism