آصف جیلانی
10دسمبر،2017
جامعہ ملیہ اسلامیہ دلی میں جہاں میں نے آنکھ کھولی تھی ،1919ء کے جلیان والا باغ کے قتل عام کی یاد ’’ یوم آزادی‘‘ کے نام سے منائی جاتی تھی۔ اس دن پوری جامعہ کا انتظام طلبا کے سپرد کر دیا جاتا تھا، روز مرہ کی طرح درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ابتدائی اور ثانوی مدرسوں میں بڑی جماعت والے طلبا چھوٹی جماعتوں کے طلبا کو پڑھاتے تھے ۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے فرائض بھی طلبا خود سنبھالتے تھے۔ یہی نہیں پوری جامعہ کی اقامت گاہوں اور حتیٰ کہ بیت الخلا کی صفائی کابھی کام طلبا انجام دیتے تھے۔ مقصد اس کا طلبا میں خود اعتمادی پیدا کرنا ،انہیں ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان پر یہ واضح کرنا تھا کہ کوئی کام حقیر نہیں ۔ اس روز تمام اساتذہ او رملازمین کی تعطیل رہتی تھی اور رات کو تمام اساتذہ او رملازمین کی ضیافت ہوتی تھی جس کا کھانا بھی طلبا مطبخ کے باورچیوں کی مدد سے تیار کرتے تھے۔
13اپریل 1943ء کے دن ایسی ہی ایک ضیافت میں ، میں اس صدر میز پر مہمانوں کی خاطر تواضح کے لئے تعینات تھا جس پر ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد مجیب ، ڈاکٹر عابد حسین ، مولانا اسلم جے راج پوری ، ابتدائی اور ثانوی مدرسوں کے نگران بیٹھے تھے ۔ اسی میز پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے ایک سرخ و سفید معمر باریش بزرگ بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اس بلا کی چمک تھی کہ اس سے نظریں چار کرنامشکل تھا۔ ان سے نظریں ملاتے ہی ایک عجب جادو طاری ہوجاتا تھا ۔ باریش بزرگ کی چمکیلی آنکھوں سے میں اس قدر سحر زدہ تھا کہ میں ان مہمانوں کی پوری طرح سے ضیافت نہیں کر پارہا تھا ۔ پھر باتیں بھی ان کی بے حد دلچسپ تھیں ۔پوری باتیں تو یاد نہیں لیکن اب صرف اتنا یاد ہے کہ باریش بزرگ ذاکر صاحب سے بحث میں الجھے ہوئے تھے اور ذاکر صاحب سے بار بار کہہ رہے تھے کہ انہیں عملی سیاست میں آنا چاہئے ۔ ذاکر صاحب نے جب یہ کہا کہ وہ جامعہ کے تعلیمی ادارے کی ذمہ داریوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو ضحیف و کمزور باریش بزرگ نے غصہ کے عالم میں پتھر کی میز پر اس زور سے مکا مارا کہ گلاس جھنجھنا اٹھے اور میرے ہاتھ سے سالن کی قاب گرتے گرتے بچی ۔ باریش بزرگ کہہ رہے تھے کہ ایسا تعلیمی ادارہ تو او ربہت سے لوگ چلاسکتے ہیں ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو آپ جیسے لوگوں کی سیاست میں اشد ضرورت ہے۔ اب یاد نہیں کہ بحث کیسے ختم ہوئی ، لیکن ان باریش بزرگ سے یوں دبنگ انداز سے ذاکر صاحب سے بات کرنے سے میں سخت حیران تھا۔ ضیافت کے بعد میں نے اپنے بزرگ استاد پروفیسر سرور صاحب سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون تھے؟ کہنے لگے کہ یہ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی تھے ۔ جواس دور کے ایک بڑے انقلابی ہیں اور افغانستان ، روس۔ ترکی اور حجاز میں کئی سال جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد ہندوستان واپس لوٹے ہیں ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اتنے بڑے انقلابی کو اس قدر قریب سے دیکھا۔ اتنے برس گزر گئے لیکن اب بھی ان کی آنکھوں کی چمک مجھے یاد ہے۔ جامعہ ملیہ کی اس تقریب کے ایک سال بعد اگست 1944ء میں یہ خبر آئی کہ مولاناسندھی اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ اس روز جامعہ ملیہ میں ایک درد بھرا سناٹا تھا ۔ کوئی 144سال پہلے سیالکوٹ کے گاؤں چیاں والی کو کیا علم تھا کہ اس کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والابچہ بڑا ہوکر ایک دن عالم اسلام کا جید عالم اور انقلابی مجاہد کہلائے گا۔ بچپن ان کا نہایت پر آشوب حالات میں گزرا ۔ ابھی وہ صرف چار ماہ کے تھے کہ ان کے والد انتقال کرگئے۔ اس کے بعد چندبرس ان کے دادا نے ان کو پالا ۔ دادا کے گزر نے کے بعدان کے نانا نے ان کی دیکھ بھال کی پھر نانا کے انتقال کے بعد ان کے چچا نے ان کو اپنے سایۂ عاطفت میں لیا۔ اسی زمانہ میں جام پور کے اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
اسکول میں ان کے ایک آریہ سماجی ہندو دوست نے انہیں مالیر کوٹلہ کے ایک نو مسلم عبیداللہ کی کتاب ’’ تحفۃ الہند‘‘ پڑھنے کے لئے دی اس کتاب نے ان کے اندر اسلام کے بارے میں مزید جاننے کا شوق پیدا کیا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں دوسری کتابوں کے مطالعہ کے بعد خاموشی سے خود اسلام قبول کرلیا اس وقت ان کی عمر 14سال تھی۔ اسلامی نام انہوں نے’’ تحفۃ الہند‘‘کے مصنف عبیداللہ کے نام پر رکھا اور گھر سے بھاگ کر سندھ میں دین پور پہنچے جہاں انہوں نے حافظ محمد صدیق بھر چونڈی والوں کے ہاتھ بیعت کی او ران کے مدرسے میں ایک سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعدمولانا سندھی نے دیوبند کے دارالعلوم میں داخلہ لیا اور مولانا رشید گنگوہی اور شیخ الہند مولانامحمود الحسن کے شاگرد رہے۔ 1891ء میں دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدسکھر میں انہوں نے امروٹ شریف میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا او ربعد میں انہوں نے گو ٹھ پیر جھنڈے والے میں دارالشاد کے نام سے مدرسہ قائم کیا۔ سندھ کی سرزمین کو کیا علم تھا کہ اسلام کی خاطر اپنے مذہب او راپنے خاندان کو چھوڑ کر آنے والا یہ نوجوان روحانی ناتے سے اسے اپنا وطن قرار دے گا او رساری عمر سندھی کہلانے میں فخر محسوس کرے گا۔ 1901ء میں مولانا محمود الحسن نے عبیداللہ سندھی کو دیوبند بلایا اور عالم اسلام کے اتحاد اور ہندوستان کی آزادی کے لئے انقلابی جد وجہد شروع کرنے کے لئے ایک تنظیم جمعیت الانصار قائم کی۔اس مقصد کے لئے شیخ الہند نے عبیداللہ سندھی کو کابل ہجرت کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہاں ہندوستان کی آزادی کے لئے عسکری جد وجہد کے لئے امیر حبیب اللہ کی مدد او رحمایت حاصل کی جائے اور خود ترکی کے گورنر غالب پاشا ہ کی حمایت او رمدد حاصل کرنے کے لئے حجاز روانہ ہوگئے ۔
مولانا عبیداللہ سندھی 1915ء میں جہاد کے جذبے سے سرشار خفیہ پولس سے بچتے بچاتے کوئٹہ کے راستے قندھار گئے اور وہاں سے کابل پہنچے جہاں ایک ماہ بعد انہیں امیر حبیب اللہ خان سے ملاقات کا موقع ملا جو تخلیہ میں ہوئی ۔ مولانا سندھی کا بنیادی مشن ایک مسلم نجات دہندہ فوج (جنود ربانی) قائم کرنا تھا جس میں تمام مسلم سلاطین شامل ہوں۔ اس فوج کا مرکز مدینہ منورہ تجویز کیا گیا تھا ۔ اسی کے ساتھ افغانستان میں ہندوستان کی آزادی کے لئے جلاوطن حکومت کے قیام کی تجویز تھی جس کے صدر راجہ مہندر پرتاب ، اور وزیر اعظم کے لئے بھوپال کے برکت اللہ کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ اس جلاوطن حکومت کا مقصدہندوستان کی آزادی کے لئے افغانستان کی مدد سے مسلح جد وجہد کرنا تھا جس کے بعد امیر افغانستان کو ہندوستان کا فرماں روا تسلیم کیا جاتا ۔ امیر حبیب اللہ سے مولانا عبیداللہ سندھی کی تخلیہ میں بات چیت میں اس منصوبہ پر غور کیا گیا تھا ۔ امیر افغانستان مسلم نجات دہندہ فوج کے قیام کی کوششوں میں شامل ہونے کے لئے آمادہ نہیں تھے البتہ انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ ہندوستان کی آزادی کے لئے اپنامشن جاری رکھیں۔ امیر افغانستان سے ملاقات کے بعد مولانا عبیداللہ سندھی نے جو نیا منصوبہ تیار کیا اس کی اطلاع شیخ الہند محمود الحسن کو مکہ مکرمہ میں دینے کیلئے اور آئندہ کی حکمت عملی تجویز کرنے کے لئے انہوں نے پیلے رنگ کے تین ریشمی رومال پر خط تحریر کر کے اپنے معتمدوں کے ہاتھ حیدر آباد میں مولانا سندھی کے ایک ساتھی شیخ عبدالرحیم کوبھجوا ئے تھے ،جو حج پر جانے والے تھے تاکہ یہ خطوط وہاں شیخ الہند تک پہنچ جائیں۔ لیکن ملتان کے ایک زمیندار رب نواز خان کے کارندے عبدالحق کو ان خطوط کا راز مل گیا اور اس نے یہ کہہ کر وہ یہ رومال شیخ عبدالرحیم تک پہنچادے گا انہیں حیدر آباد لے جانے کے بجائے سیدھا ملتان لے گیا اور زمیندار رب نواز خان کے حوالے کردیئے ۔ جس نے یہ ریشمی رومال ملتان کے کمشنر کو ے دیئے ۔ یوں یہ سارا منصوبہ جو ریشمی رومال سازش کے نام سے مشہور ہوا فاش ہوگیا ۔ اس کے بعد ہندوستان میں بڑے پیمانے پر گرفتار یاں ہوئیں ۔ جب یہ ریشمی خطوط ہندوستان میں پکڑے گئے تو انگریز وں نے امیر حبیب اللہ خان سے سخت احتجاج کیا جس کے بعد مولاناسندھی او ران کے ساتھی نظر بند کردیئے گئے ۔ اس دوران امیر حبیب اللہ خان کو قتل کردیا گیا اور امان اللہ خان امیر افغانستان بنے جن سے مولانا سندھی کے بڑے قریبی تعلقات تھے ۔ اتنے قریبی کہ امیر امان اللہ خان نے مولانا عبیداللہ سندھی کو اپنا وزیر اعظم بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن مولانانے یہ کہہ کر معذرت ظاہر کی اس سے افغان سرداروں میں ناراضگی پھیل جائے گی۔ اس دوران انگریزوں نے امیر امان اللہ خان پر زور دیا کہ مولانا عبیداللہ سندھی او ران کے ساتھیوں کو افغانستان سے نکال دیا جائے ، اس کے عوض ان کو وہ تین کڑوڑ پونڈ ادا کردیئے جائیں گے جس کا وعدہ پہلی عالم گیر جنگ میں افغانستان کے غیر جانبدار رہنے کے عوض امیر حبیب اللہ خان سے کیا گیا تھا ۔ آخر کار امیر امان اللہ خان سے رقم کی لالچ میں آکر مولانا سندھی پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے چلے جائیں ۔ مولانا نے جب افغانستان چھوڑ کر سوویت یونین جانے کا فیصلہ کیا تو امیر امان اللہ خان نے مولانا سندھی سے درخواست کی کہ وہ سوویت رہنماؤں کو افغانستان کو ایک کڑو ڑ پونڈ کی امداد دینے پر آمادہ کریں جو افغانستان کو درکار ہے۔ مولاناعبیداللہ سندھی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نومبر 1922ء میں دریائے جیحوں عبور کیا اور ترمذکے راستے سمر قند اوربخارا ہوتے ہوئے ماسکو پہنچے ۔اس زمانہ میں لینن شدید بیمار تھے او رلوگوں کو پہچانتے بھی نہیں تھے لہٰذا مولانا سندھی کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی البتہ وزیر اعظم ٹراٹسکی اور وزیر خارجہ چچرن سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں ۔ ماسکو کی ایک تقریب میں جہاں دانشور ، پروفیسر اور ادیب شریک تھے، وزیر خارجہ چچرن بھی موجود تھے ۔ تقریب میں کارل مارکس کے نظریہ پر بات چیت ہورہی تھی ۔ مولانا سندھی سے استفسار کیا گیا کہ آیا کارل مارکس ایسا نظریہ اس سے پہلے انہوں نے کہیں دیکھا ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہمارے ہندوستان کے مفکر شاہ ولی اللہ نے کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سو سال پہلے یہی نظر یہ پیش کیا تھا ۔
مولانانے شاہ ولی اللہ کے نظریہ کے وضاحت کی او رکہا کہ کارل مارکس کے نظریہ میں دین شامل نہیں لیکن شاہ ولی اللہ کے نظریہ میں دین اسلام شامل ہے ۔ اس تقریب کے بعدچچرن مولانا سے ملنے آئے اور پوچھا کہ کیا کوئی ریاست ہے جس کانظام شاہ ولی اللہ کے نظریہ پر چل رہی ہو؟ مولانا نے کہا کہ ہمارے استاد نے ایسی ریاست بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ناکامی ہوئی ۔ چچرن نے کہا کاش کوئی اسلامی ریاست ایسی ہوتی تو ہم سب مسلمان ہوجاتے ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم آپ کو سمر قند دیتے ہیں اس میں آپ دس سال کا م کریں اور اگر آپ کامیاب ہوگئے تو اس نظام کو دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں گے۔
مگر مولانا سندھی نے یہ پیشکش اس بنا پر قبول نہیں کی کیونکہ سویت رہنما وہاں نگرانی کے لئے اپنا صدر رکھنے پر مصر تھے ۔ سوویت یونین میں دس مہینے کے قیام کے بعد مولانا سندھی نے ترکی کے نظام اور قوم کا مطالعہ کرنے کے لئے قسطنطنیہ کا عزم کیا ۔ اس وقت تک کمال اتاترک بر سر اقتدار آچکے تھے ۔ انقرہ میں مولانا سندھی کی مصطفی کمال اتاترک سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ ترکی میں تین سال کے قیام کے دوران مولانا سندھی نے بر صغیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ایک جامع پروگرام تیار کیا جو ان کی انقلابی فکر کا مظہر تھا ۔ ابتدا اس پروگرام کی یوں ہوتی ہیں ۔’’ اللہ اکبر‘‘ ،’’ مہابھارت سروراجیہ پارٹی‘‘ ۔اس پروگرام میں ہندوستان کے مسئلہ کو ایک ایسے سوشلسٹ نظام کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں مذہب اور چھوٹے پیمانہ پر ذاتی ملکیت کوبرقرار رکھا گیا تھا ۔ اصول ومقاصدمیں سب سے پہلے یہ صراحت کی گئی تھی کہ ہندوستان مختلف ممالک کا مجموعہ ہے اور اسے ایک ملک فرض کر کے نئی نئی ہندوستانی واحد قومیت پیدا کرنے کی کوشش کو اساس آزادی نہ بنایا جائے ۔ ہندوستان میں بسنے والی اقوام کو ایک وفاقی نظام میں یک جاکیا جائے ۔ پروگرام میں کہا گیا تھا کہ فوائد عوام کے تمام ذرائع قومی ملکیت میں دیئے جائیں گے ۔ انفرادی ملکیت محدود کردی جائے گی۔ اشاعت مذہب کے لئے کسی مذہب کو سرکاری امداد نہیں دی جائے گی۔
مو لانا عبیداللہ سندھی کو امید تھی کہ ترکی انہیں ہندوستان کی آزادی میں مدد دے گا لیکن انہیں لیکن انہیں سخت مایوسی ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ترکوں کے حکمران طبقے کا یہ عام تاثر تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں اور وہ مستقبل میں کچھ نہیں کرسکیں گے ۔پروفیسر محمد سرور صاحب نے مکہ معظمہ میں مولانا عبیداللہ سندھی کے طویل قیام کے دوران ملاقاتوں اور گفتگو وں پر مبنی ایک کتاب ’’ افادات و ملفوظات، امام عبیداللہ سندھی ‘‘ کے نام سے شائع کی تھی ۔ یہ کتاب اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس مولاناکے فلسفہ انقلاب او ران کی فکر پر روشنی پڑتی ہے ۔ گاندھی جی کے بارے میں مولانا کا کہنا تھا کہ ان کی نام نہاد مذہبی سیاست رجعت پسندانہ ہے جو ہندوستان کو آگے لے جانے کے بجائے پیچھے لے جائے گی ۔ مولاناسندھی کاکہنا تھا کہ جو اہر لعل نہرو کی انٹر نیشنلزم اور گاندھی جی کے اہنسا کے فلسفہ ہی نے سردار پٹیل کے ہاتھ مضبو ط کیے اور یوں ہندوازم میں جارحیت پیدا ہوئی ۔ ان کا کہناتھا کہ پاکستان درحقیقت سردار پٹیل بناناچاہتے تھے تاکہ ہندوستان کو مسلمانوں کے عمل دخل سے پاک کردیا جائے ۔مسلم لیگ اور پاکستان کی تحریک کے بارے میں مولاناسندھی کاکہنا تھا کہ مسلم لیگ کادعویٰ کہ ہندوستان میں مسلم قوم ہے جو ہندوؤں سے جدا ہے غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں اسلامی ملت ضرورت ہے لیکن اس مسلم قومیت کا نہ یہاں او رنہ باہر کی اسلامی دنیا میں کوئی وجود ہے۔ یہاں سندھی قوم،پنجابی قوم، بلوچ قوم ہے اور پشتون قوم ہے او ریہ اور ہندوستان کی دوسری بہت سے قومیں اس برصغیر میں برابر کی شریک ہیں۔ علامہ اقبال کے بارے میں مولانا سندھی کاکہنا تھا کہ میں اقبال کی شاعرانہ عظمت کا معترف ہوں لیکن میرے نزدیک سیاسی قیادت اور دین امامت ایک شاعر کے خواہ وہ کتناہی بڑا شاعر کیوں نہ ہو سپرد کردینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقبال کوبڑا شاعر مانتا ہوں لیکن انہیں قوم کا قائداور امام تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مولانا کی رائے تھی کہ غلامی کی سب سے بڑی لعنت یہ ہو تی ہے کہ محکوم اپنے قومی و جود اور شخصیت کوبھول جاتے ہیں ۔ ترکوں ،ایرانیوں اورعربوں نے اپنی جد وجہد آزادی میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا اس کے بر عکس مولانا کا کہنا تھا کہ اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ملت اسلامیہ کی ایک ایسی سیاسی شخصیت رکھی جس کا دنیا میں کہیں وجود نہیں تھا ۔ مولاناسندھی کاکہنا تھا کہ میں روس کے انقلاب کو مانتا ہوں اوراس کو بڑی چیز سمجھتا ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ روسیوں نے اپنے آپ کو لادین بناکر ہزاروں بلاؤں سے بچا لیا۔ روسی اپنی نئی دنیا اور نئی زندگی بناناچاہتے تھے اگر وہ دین کا سرے سے انکار نہ کرتے تو ظاہر ہے کہ انہیں کسی نہ کسی دین کو ضرور ماننا پڑتا اور کسی مذہب کے قائد کو اپناسردار ماننا پڑتا جس سے پیچیدگیاں پیدا ہوتیں ۔ بہر حال یہ چند نکات ہیں جو سرور صاحب نے اس کتاب میں تفصیل سے بیان کیے ہیں ۔ بلاشبہ مولانا عبیداللہ سندھی ایک عظیم انقلابی تھے ۔ آزاد او ربے خوف ذہن اور دور رس جرأت مند دل او ربلند حوصلہ رکھتے تھے ۔ اسلام او رعلوم اسلام کے وسیع او رگہرے مطالعہ، مسلمانوں کی تاریخ و سیاست کے تنقیدی جائزے اورمتعدد ملکوں کے انقلابات کے مشاہدات اورتجربات سے ان کی زندگی بھر پورتھی ۔ مولانا سندھی نے تیرہ سال حجاز میں گذارے۔ اس دوران وہ عملی سیاست سے بالکل الگ رہے ۔ ان کے تمام سیاسی منصوبے ناکام رہے ۔ چنانچہ مکہ معظمہ میں قیام کے دوران ان کا زیادہ وقت درس تدریس ،تصنیف اور غور و فکر میں صرف ہوا ۔24سال جلا وطن رہنے کے بعد مولانا کو 1939ء میں وطن واپس آنے کی اجازت ملی جہاں 22اگست 1944ء کو انہوں نے راہ عدم کا سفر اختیار کیا ۔ آخر میں یہ بات میں فخر کے ساتھ کہوں گا کہ میں نے بچپن میں اس عظیم انقلابی کو دیکھا ہے۔
10دسمبر،2017 بشکریہ : روز نامہ میرا وطن
https://newageislam.com/urdu-section/imam-revolution-maulana-obaidullah-sindhi/d/113531
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism