آصف جلیل
سورۃ لعنکبوت
(8) الا حقاف اور لقمان پڑھئے اور جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے فضیلت میں والدین کواپنے بعد کا درجہ دیا ہے ، جیسا کہ آپ الاسراء اور النساء میں دیکھتے ہیں ۔ ا س کے باوجود وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کی معصیت میں ان کی اطاعت کی جائے۔ کیا اس بات کا خیال وہ لوگ رکھتے ہیں جو حکمرانوں اور لذتوں کے طلبگاروں کی ہر وہ بات مان لیتے ہیں جو اللہ کی معصیت ہوتی ہے۔
(29:24) (فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ) پڑھئے اور ( انی مھاجر الی ربی) پھر پڑھئے تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ( حضرت ابراہیم علیہ السلام) ہجرت کرنے کی وجہ سے بچ گئے ۔ ( آگ سے) سورۃ ابرھیم کو دہرائیے تاکہ اس قصے کے بارےمیں جو کچھ آیا ہے وہ جان سکیں پھر الحدید کا آخری حصہ پڑھیں ۔
سورۃ الروم
(19:7) بتایا گیا ہے کہ جو زندگی کی ظاہری باتو ں پراکتفا کرلیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ یہ ضروری ہے کہ لوگ کائنات او راس کےنظام سے دو طرح کاک فائدہ اٹھائیں ۔ ایک تو جسمانی طور پر زیبائش اور آرائش سے اور دوسرا روحانی طور پر انسانی ذات کے لئے ان تخلیقات کی حقیقت کو سمجھ کر جو اللہ کی طرف لے جاتی ہیں اور اللہ کی وحدت اور کبریائی سےاس کی عزت بڑھاتی ہیں اور اور انہیں اس زندگی سے بڑھ کر زیادہ ترقی یافتہ زندگی کی طرف لے جاتی ہے ۔ پڑھئے اور دیکھیں ان لوگوں کا انجام جو صرف ظاہری باتوں پر ہی رک گئے اور ان سے دھوکا کھا گئے ۔ اس لئے انہوں نے اپنی قوت ظلم کرنے اور اللہ کے دین سے منہ پھیر نے میں لگادی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کردیا۔
(20:20) ( للعالمین) زبانوں ، رنگوں اور ارض و سماوات کے علم پر زور دیا گیا ہے او ردکھایا ہے کہ جو اس کائنات کا علم رکھتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ کی بہتر طریقے سے جانتے اور اس کی بنائی ہوئی اشیاء اور اس کی نشانیوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ لیکن جاہل نہ جانتے ہیں نہ اندازہ کرسکتے ہیں ۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح ہوگاکہ مذہبی عالم اس کائنات کےبارے میں کچھ نہیں جانتے تو کیا ان کے لئے ممکن ہے کہ وہ دوسری قوموں کو اپنے دین کی فضیلت واضح کرسکیں، جب کہ ان کی اپنی قوم علم کائنات میں بہت پیچھے ہو اور نہ انہوں نے ایسا کچھ کیا کہ حقیقی دین معاشرے میں ظاہر ہوسکے۔ قرآن کریم کو دنیا کے لئے فائدہ مند بنانے کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ یہ بتاتا ہے کہ جو کائنات کے نظام کا علم رکھتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنے تابع کرلیتےہیں جو نہیں جانتے اور انہیں اپنے زیر اثر لے آتے ہیں ۔ ان کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کرتے ہیں اور حقیقی صورت حال اس کی تائید کرتی ہے۔ الزمرآیت نمبر 9 تک پڑھئے ۔
(39) البقرۃ کے آخر میں الربا کو دبارہ دیکھئے ۔ یہاں سباق کے لحاظ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دولت کو محض جمع کرنے کی خاطر بڑھانا اچھی بات نہیں ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ تزکیہ نفس کرنے کے لئے دولت کو اللہ کی رضا کے لئے ان مختلف کاموں میں لگایا جائے جو امت کے لئے فائدہ مند ہوں ۔ پرھئے التکاثر ۔
سورۃ فاطر
(22) (مَّن فِي الْقُبُورِ) اس سے ان لوگوں کے لئے عبرت ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ قبروں والے انہیں سنتے ہیں جنہیں وہ پکارتے ہیں ۔ شاید لوگ اپنی عقل کا استعمال کرلیں اور اس قرآن پر تدبر کرلیں تاکہ وہ قبروں پر بھروسہ نہ کریں ۔
(28) (الْعُلَمَاءُ) یعنی اس کائنات کا علم رکھنے والے ۔ اللہ کے نظام کے بارےمیں علم رکھنے کی وجہ سے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والے بن جاتے ہیں ۔ اس طرح کا ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور اس سے ڈرنے میں شدت آجاتی ہے۔ دراصل اس آیت میں علم پر زور دیا گیا ہے اور عالموں کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔
سورۃ الصافات
(10:6) الشعراء کے آخرمیں 193 سے پڑھئے اور الحجر کے شروع سے 18 تک اور الجن 9 تک اور الملک 5 تک تاکہ آپ سمجھ لیں کہ وہ علم غیب کا دعوی کرتے تھے اور آسمانی باتوں کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں ۔ جب القرآن آیا تو اس نے اپنی آیات اور دلیلوں سے انہیں نشانہ بنایا اور اپنے براہین کے شہابوں سے ان کی گھات میں لگا رہا۔ جس قدر لوگ دین سے دور ہوتے ہیں اتنا ہی وہ دھوکے کے بازوں کےجھوٹ سے متاثر ہوجاتے ہیں۔
سورۃ غافر
(35) البقرۃ کے شروع میں پڑھیں تاکہ ‘‘ الطبع علی القلب ’’ ( دل پر مہر لگنے) کے معنی جان لیں اور سمجھ لیں کہ گمراہی کی نسبت اللہ کی طرف اس کے نظام اور سنت کی وجہ سے ہے ۔ اس کی ہدایت اسی کے لئے ہوتی ہے جو ہدایت لیناچاہتا ہے او راس کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔
سورۃ فصلت
54:53) بتایا ہے کہ کائنات میں اللہ کی سنتیں ( طریقہ کار) اجتماعی معاشرے میں یہ واضح کردیں گی کہ القرآن حق ہے۔ اور یہ اس کے صلاحیت بخش اور ضروری ہونے کی وضاحت ہے کیونکہ یہ ان کے مطابق ہے اور انہیں کی طرف دعوت دیتا ہے ۔ دیکھئے النمل کے آخر میں ۔
سورۃ الشوری
(10) اس کے معنی ہیں کہ ہر بات کا فیصلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے گا اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی کتاب میں بیان کردہ شریعت کاعلم ہونا چاہئے اور کائنات میں رائج اس کے نظام کابھی ۔ اور جوکوئی بھی اللہ کے احکام نافذ کرنے والا ہو اس کی احادیث گویا اللہ کی اطاعت ہوگی۔ دیکھئے النسا ء59۔
(21) اس آیت میں ان لوگوں کے لئے تنذیر ہے جو دین میں نئے طریقے ایجاد کرتے ہیں اور لوگوں کے لئے ایسے رسم و رواج وجود میں لاتے ہیں جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوتے ہیں ۔ اور جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ اپنے کو شریعت میں اللہ کاشریک بنا لیتا ہے ۔ دیکھئے التوبۃ 31۔
(29) یہ آیت بتاتی ہے کہ آسمانوں میں آبادی ہے ۔ دیکھئے المؤمن 16، فصلت کے شروع میں ، الرحمن 29 اور النمل 41۔
اور بتایا ہے کہ آسمان میں رہنے والوں اور زمین میں رہنے والوں کو اکٹھا کرنا ممکن ہے ۔ اس سے مواصلاتی نظام اور کائناتی سنتوں کے بارے میں جاننے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
(38) مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ امور مملکت کے بارے میں باہمی مشاورت کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جبری حکومت نہ مومنوں کاکام ہے نہ نظام ہے۔
سورۃ الدخان
(11:10) اسی زمانے میں زہریلی اور گلا گھونٹنے والی گیسیں سامنے آئی ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ وہی واضح دھواں ہہے جو لوگوں کو ڈھانپ لیتاہے اور انہیں المناک عذاب دیتا ہے ۔ دیکھئے الانعام 65۔
( رھوا) کھلا ہوا ۔ یہ معاملہ سمندر کی جو حالت اس وقت تھی اسے آپ پر واضح کردیتا ہے ۔ الشعراء اور طہ پڑھئے تاکہ معلوم ہوکہ حضرت موسی علیہ السلام کو سمندر کے درمیان میں خشک راستہ کھلا ہوا ملا جس سے وہ گزر گئے ۔ فرعون اور اس کے سپاہی غرق ہوگئے کیونکہ وہ اس کھلے راستے کا پتہ نہ لگاسکے۔
سورۃ الجاثیۃ
(37:21) اس سے یہ فیصلہ بتایا گیا ہے کہ جزا، عمل کے مقدار کےمطابق ہوتی ہے او رعمل لکھے جاتےہیں اور کہتے ہیں کہ کہ ہوا ہر بات چیت کو محفوظ کرتی ہے اور ا سں میں تصویروں او راعمال کا نقشہ بنتا ہے ۔ علم نے اس کا انکشاف کیاہے او ربھی یہ انکشاف کرنا باقی ہے کہ کس طرح آپ کے نفس پر اس کی کتابت اور تصویر بنتی ہے تاکہ آپ عمل کے بدلے سےمتعلق غرض و غایت سمجھ سکیں۔ لہٰذا اس لالچ میں نہ رہیں کہ کوئی آپ کے بوجھ میں سے کچھ اٹھالے گا یا آپ کے اعمال حسنہ کے باعث جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ الاسراء پڑھئے اور النجم اور القمر کے آخر میں پھر الاعراف 51 سے 53 تک پڑھئے۔
سورۃ محمد
(4) (فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) یعنی ہمارے پاس قیدیوں کی گرفتاری کے بعد دو ہی راستےہیں۔ انہیں مہربانی کر کے بغیر کسی معاوضہ کے چھوڑ دیا جائے یا مال کے بدلے یا اگر ہمارے قیدی ان کے پاس ہوں تو ان کے بدلے میں تبادلے کی کوئی صورت ۔ ان دوباتوں کے علاوہ ہمارے پاس قیدیوں کے لئے کوئی اختیار نہیں ۔ اگر وہ رہائی اور آزادی کے بعد ہمارے پاس رہنا چاہیں تو ان کے ساتھ اسی طرح کا عزت اور احترام اورحسن معاملہ روا رکھا جائے جیسا ہمارا آپس میں ہے۔ اور یہ جو کہا جاتاہے کہ بغیر شادی کئے ان کی عورتوں سے تمنع کیا جاسکتا ہے ، بالکل باطل ہے، الانسان اور النساء کو دہرائیے ۔
سورۃ الحدید
( 23:22) بتایا گیا ہے کہ دنیا ایک نظام کے تحت چل رہی ہے اور ہر بات کا کوئی نہ کوئی سبب ہے اور جس قدر انسان کا علم ہوتا ہے اسی قدر ان کے حالات حسن انتظام سے چلتے ہیں او ر وہ کسی بھی مشکل صورت حال میں پڑنے سےبچتے ہیں ۔ اس میں مومنین کے لئے آرام ہے۔ اگر غلطی کرتےہیں تو مزید احتیاط کرتے ہیں اور کسی محرومی پر مایوس نہیں ہوتے ۔ اسی طرح اگر حالات اچھے ہوں اور اللہ اپنی نعمتوں سے نواز ے تو مطمئن ہوتے ہیں ۔ التغابن پڑھئے۔
(13) ( فَاَ قِیْمُو االصَّلوٰۃَ) یعنی اپنی ڈیوٹی پوری کرتے رہیں اور صلاحیت بخش کام جیسے فرائض ادا کرتے رہو ۔ اس کے علاوہ آپ پرکوئی ذمہ داری نہیں۔
سورۃ الممتحنۃ
( لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْن ) اس کے سیاق سے یہ سمجھا یا گیا ہے کہ ہمیں کافروں جیسے عمل کرنے یا ان کی صفات اپنانے سے باز رہنا چاہئے تاکہ یہ ان کےلئے بری مثال نہ بن جائے کہ وہ ہماری تقلید کرلیں یا بھروسہ کرلیں ۔ آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو خود کو مسلمان کہلاتے ہیں مگر برے اعمال کرتے ہیں۔ اس طرح غیر مسلم اسے اسلامک پر حجت بنا لیتے ہیں اور اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں او راہل اسلام کی خرابیوں کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو اس کے ماننے والے بھی اچھے ہوتے۔ یہ فتنہ یعنی بری مثال ہے۔
(9:8) بتایا ہے کہ ہمارے دین کے اصولوں میں سے ہے کہ تمام غیروں سے حسن سلوک کیا جائے اور مل جل کر رہا جائے ، اگر وہ ہمارے دین کی مخالفت میں کھڑے نہ ہوں او رنہ ہمارے وطنوں پر حملہ کریں ۔ البتہ جو ہمارے دین یا وطن پر حملہ آور ہوں تو ہم اپنے حق کے دفاع کے لئے ان سے جنگ کریں نہ کہ ان کے دین سے نفرت کی بنا پر نہ اذیت پسندی کی خاطر ۔ دیکھئے التوبۃ۔
سورۃ التغابن
(2) ( فمنکم) بتاتاہے کہ پیدا ہونے کے بعد کفر اور ایمان خود اختیار کیا جاتا ہے اوراس پرعمل کیا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس طرح پیدا کیا ہہے کہ وہ ہر شے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کفر کا انتخاب کرتے ہیں اور کچھ ایمان لاتے ہیں۔ یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے انہیں آزادی اور خود مختاری کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ جو وہ چاہیں اختیار کرلیں۔ دیکھئے الانسان اور الشمش۔
سورۃ الطلاق
(14) (سبع سمٰوات) سورۃ الملک پڑھئے تاکہ اس تعداد کے معنی جان سکیں۔ ( مثلھن) بتایا ہے کہ السماء ( آسمان) اس میں رہنے والوں کےلئے أرض (زمین) ہوتا ہے اور دوسرے کرّوں کے مکینوں کے لئے سماء ۔ اس طرح جنتی تعداد زمینوں (أرض) کی ہوگی اتنی ہی آسمانوں (سمٰوات ) کی ۔ ( ینزل الامر بینھن) یہ ظاہر کرتا ہے کہ آسمانوں میں کئی جہاں آباد ہیں جو عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ الصافات کےشروع سے دوبارہ دیکھئے۔
( یہ آخری قسط ہے۔ اس کے بعد کوئی سورتوں میں زیادہ تر حوالہ جات ہیں جن کی تشریح پہلے آچکی ہے۔)
عرض مترجم:
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو کوئی بھی قرآن کریم کو روایات کے بغیر تصریف الاآیات کے ذریعہ سمجھے گا وہ تقریباً ایک ہی نتیجے پر پہنچے گا۔ اگر اختلافی بات نظر آتی ہے تو اس کی وجہ اس زمانے کے علم کے لحاظ سے جو انکشافات ابھی نہیں ہوئے ہوتے وہ ان سے متعلق ہوتی ہے ۔ اور وہ جنہیں اسلامی مملکت کی مجلس شوریٰ نے طے کرنا ہے۔
یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم ایک فلاحی مملکت کا نظام دیتا ہے جس میں کسی قسم کی طبقاتی ، لسانی یا نسلی تفریق نہ ہو۔ محض چند رسوم کو اسلام قرار دینا ظلم ہے۔
اگر اس بات کو اصولی طور پر سمجھ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قوانین میں تبدیلی نہیں کرتا ( جیسا کہ قرآن کریم میں کئی مقام پر ذکر ہے) تو پھر ان معجزات کا کوئی وجہ جواز نہیں بنتا جو انبیاء کرام علیہ السلام سے منسوب ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ جو کوئی بھی صرف قرآن کریم پیش کرتا ہے، اسےمذہبی لیڈر وں کی طرف سےمخالفت کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جو لوگ یہ کہتےہیں کہ لوگ علامہ پرویز کے نام سے چڑ جاتے ہیں ، انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مخالفت شخصیات کی نہیں قرآن کریم کی ہوتی ہے لیکن چونکہ وہ اللہ کی کتاب کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اس لئے وہ شخصیات کو نشانہ بناتے ہیں ۔ قرآن کریم میں اس طرح کی مخالفت کا متعدد مقامات پر ذکر ہے۔
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ طلوع اسلام ، لاہور
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/al-hidayah-wal-irfan-fi/d/100262