آصف ڈار
24 اگست، 2012
راچڈیل چائلڈ سیکس گرومنگ
کیس میں 8 پاکستانیوں کو 72 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد لنکا شائر کے علاقے برائر
فیلڈ میں بھی جون 2012 کے دوسرے ہفتے میں 6 پاکستانیوں کے خلاف ایک 14 سالہ لڑکی کی
ریپ کرنے اور اسے دوسروں کو سپلائی کرنے کے
الزامات میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ مقدمے کے آغاز میں برطانیہ کی انتہا پسند پارٹی
انگلش ڈیفنس لیگ کے کارکنوں نےبرنلے کراؤن
کورٹ کے باہر مظاہرہ کیا اورمسلمانوں کے خلاف نعرہ بازی کے ساتھ ساتھ ان سے برطانیہ
چھوڑ دینے کا مطالبہ ایک بار پھر دہرایا ۔ ای ڈی ایل تقریباً ایک ماہ میں ایک برطانیہ
کے مختلف شہروں میں مسلمانوں کے خلاف ایسے مظاہرے ضرور کرتی ہے اور انہیں برطانیہ سے
نکل جانے کا مشورہ دیتی ہے تاہم آج تک ایسا نہیں ہوا کہ پولیس نے انہیں کنٹرول نہ
کیا ہو یا پھر ان سیکڑوں (بعض اوقات ہزاروں) بپھرے ہوئے مظاہرین سے ڈر کر علاقے میں
رہنے والے مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے ہوں یا مظاہرین نے کسی کو مار ڈالا ہو۔
بلکہ ان مظاہروں کے جواب میں
مقامی کمیونٹی مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا
مظاہرہ کرتی ہے اور ای ڈی ایل اور بی این پی جیسی انتہا پسند پارٹیوں کی مذمت کرتی
ہے۔مگر افسوس کہ ایسا پاکستان میں نہیں ہوتا۔ وہاں پراگر ذہنی طور پر بیمار 11 سالہ
رمشا مسیح پر توہین رسالت کا الزام لگ جاتا ہے تو اسے کہیں پناہ نہیں ملتی۔ اس کے خلاف
پولیس اسٹیشن کے باہر مظاہرہ ہوتا ہے تو پولیس کو اسے گرفتار کرنا ہی پڑتا ہے ۔ پولیس
اگر ایسا نہ کرے تو امن و امان کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں اسے اپنی
جان سے ہاتھ دھونے پڑسکتے ہیں۔ رمشا مسیح کے
خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد اسلام آباد کے اس گاؤں میں رہنے والے 600 سے زیادہ
مسیحیوں کو وہاں سے اس لئے بھاگنا پڑا کہ وہ غیر محفوظ ہوگئے تھے۔ جن مذہبی انتہا پسندوں نے رمشا کے خلاف مظاہرہ کرایا تھا وہ ان افراد کو بھی نقصان پہنچا سکتے
تھے۔
چنانچہ سڑکوں کو جھاڑ ودے کر اور لوگوں کے ٹوائلٹ صاف کر کے روزی
کمانے والے ان مسیحیوں کو وہاں سے کوچ کرنا ہی پڑا۔اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولر
مغربی معاشرے میں مسیحیوں اور دوسری اقلیتوں کے لوگ کس قدر عذاب میں مبتلا ہیں۔ رمشا مسیح کا کیس اب معمولی واقعہ نہیں رہا بلکہ اس کی مذمت
امریکہ او رکئی مغربی ممالک نے کی ہے۔ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں اس کیس کی اہمیت سے
اس لئے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ٹیوٹر اور فیس بک پر خبر ایک لمحے میں ساری دنیا
میں چلی جاتی ہیں ۔ رمشا مسیح کا واقعہ سامنے آنے کے بعد مغربی ممالک میں یہ بات شدت
سے محسوس کی جارہی ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کو اقلیتوں کے خلاف استعمال
کیا جارہا ہے؟ ان مغربی ممالک کی جانب سے مسیحوں ، احمدیوں اور بعض دوسری اقلیتوں کے
خلاف ہونے والے واقعات کے بعد کئی مرتبہ اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاچکا ہے اور سابق مخالفت کے بعد یہ ارادہ ترک
کردیا تھا۔
تاہم رمشا مسیح کا کیس سامنے
آنے کے بعد ایک بار پھر اس مطالبے نے سر اٹھالیا ہے۔ خود پاکستان میں موجود اعتدال پسند قوتیں اس مسئلے کا حل اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتی ہیں۔ کیونکہ یہ بات صرف رمشا تک محدود نہیں
ہے بلکہ جس دن پولیس نے رمشا کو گرفتار کیا تھا ا س دن راولپنڈی سے گلگت جانے والی
بس میں سے 25 شیعہ مسلمانوں کو شناخت کر کے
قتل کیا گیا۔ اس سے دو ماہ قبل بہاولپور میں
ایک ذہنی معذور شخص پر توہین رسالت کا الزام
لگا کر بے لگام ہجوم نے پولیس اسٹیشن کے سامنے اسے نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کی لاش کو
بھی جلادیا ۔اس قسم کا ایک واقعہ اس سال جون میں کراچی میں بھی ہونے جارہا تھا مگر پولیس نے بروقت مداخلت
کر کے حالات کو کنٹرول کر لیا۔ بات یہاں پر نہیں رکی بلکہ قائد اعظم کے پاکستان میں اب اقلیتوں کا جینا اس
قدر مشکل کردیا گیا ہے کہ صدیوں سے سندھ میں
رہنے والے ہندوؤں نے بھی نقل مکانی کر کے بھارتی شہریت اپنا نا شروع کردی ہے۔ بھارت
نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے 764 پاکستانیوں
کو بھارتی شہریت دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی دہری شہریت مل گئی ہے بلکہ یہ ہے
کہ انہوں نے پاکستانی شہریت ترک کردی ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح نے تو کہا تھا کہ
پاکستان میں سارے شہریوں کو بلا رنگ و نسل و مذہب جینے اور رہنے کی آزادی ہوگی۔ سب
کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔
مگر اس قول پرآج کے دور میں عمل
ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ پاکستانی حکومت کا یہ استدلال رہا کہ مٹھی بھر انتہا پسند
ملک کا امن و امان خراب کررہےہیں اور یہ کہ پاکستانیوں کی اکثریت اعتدال پسند ہے۔ مگر
عملاً ایسی بات نظر نہیں آرہی۔ ایسا لگتا
ہے کہ یہ مٹھی بھر عناصر اب مٹھی سے باہر نکل آئے ہیں اور پورہے معاشرے میں سراہیت
کر گئے ہیں۔ ان کو اگر روکانہ گیا تو تباہی ہوسکتی ہے۔ان امور پر قابو پانے کے لئے
نہ صرف سول سو سائٹی کے لوگوں کو بلکہ علمائے کرام اور مشائخ عظام کو بھی آگے بڑھنا
ہوگا کیونکہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر ہورہا ہے اور کوئی ذی الشعور عالم دین یہ نہیں
چاہے گا کہ اسلام اور مسلمانوں کی ساری دنیا میں بدنامی ہو۔ اس وقت برطانیہ کے اندر بھی ایک ہزار سے زیادہ مساجد موجود ہیں جہاں پر مسلمانوں کو عبادت کرنے کی بھر
پور آزادی ہے۔ اس لئے برطانوی علمائے کرام اور پاکستانی کمیونٹی شخصیات کی بھی یہ
ذمہ داری بنتی ہے کہ رمشا مسیح جیسے واقعات کے خلاف آواز اٹھائیں اور رمشا کو
اپنی بیٹی تصور کر کے یہ محسوس کریں کہ چار پانچ سال کا ذہن رکھنے والی بچی کیا جانے بوجھے توہین رسالت کی مرتکب ہوسکتی ہے؟
اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہئے کہ اس طرح کی صورتحال خدانخواستہ برطانیہ یا
کسی دوسرے مغربی ملک میں پیدا ہوجائے تو ان ممالک کی مذہبی اقلیتوں کا کیا بنے گا۔
24 اگست ، 2012 بشکریہ : نوائے
وقت ، لاہور
URL: https://newageislam.com/urdu-section/extremists-growing-number-/d/8508