اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
سچر کمیٹی کے مطابق ہندوستانی
مسلمان اقتصادی اور تعلیمی معاملات میں دلتوں سے بھی زیادہ پستی کی جانب جا رہے ہیں
اور سچر کمیٹی نے اسے ثابت کرنے کے لئے اعداد و شمار بھی پیش کئے ہیں۔ ہندوستانی حکومت
سمیت یہ سبھی کو تسلیم بھی ہے۔ لیکن اس حالت کے لئے کون ذمہ دار ہے؟مسلمان خود یا حکومت؟
یہ مسلم طبقے کے اندر بحث کا بڑا موضوع ہے۔
اس پر مختلف رائے ہیں اور
متعدد تنازعات ہیں۔مسلم دانشوروں کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ مسلمان لیڈروں کی، ترقی
کے لئے حکمت عملی، تبدیلی اور تعلیم کے پھیلاؤ کے لئے سر گرم ہونے کے بجائے صرف شکایت
کرنے کی عادت ہے۔صرف اپنی چھاتی پیٹنے سے طویل مدت میں بھی کوئی فائدہ ہونے والا نہیں
ہے۔مسلم طبقے کو خود اپنے مفاد کے لئے کام کرنا ہوگا۔اسے اپنی ترقی کے لئے اپنے دانشورانہ
اور مادّی وسائل کو متحرک کرنا ہوگا۔
دانشوروں کا دوسرا طبقہ مانتا
ہے کہ جمہوری ملک میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اقلیت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے
میں مدد کرے۔کیونکہ زیادہ تر مسلمان کمزور طبقات جیسے او بی سی ، دلت اور قبائل (ایس
سی اور ایس ٹی)سے تعلق رکھتے ہیں ۔مسلم طبقے میں افسوسناک حد تک تعلیم کا فقدان ہے
اور بے انتہا غربت کے سبب وسائل کی بھی قلت ہے۔اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مسلمان خود
وسائل یکجا نہیں کر سکتے ۔
دونوں دلائل میں تھوڑی بہت
سچائی ہے۔ مسلمانوں کو بیچ کا راستہ نکالنا ہوگا۔حکومت کے ساتھ ہی مسلم لیڈران اور
دانشوران دونوں کو سرکارکے ساتھ ہی مسلمان طبقے کے لئے وسائل جمع کر کے کمزور طبقے
کی مدد کرنی ہوگی۔حکومت کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ 15کروڑ مسلمان ہندوستان کی اقتصادی
ترقی پر ایک بوجھ رہیں گے اور ہندوستان ان کو پیچھے چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔
مسلم لیڈران کو بھی یہ احساس
کرنا چاہیے کہ گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن کے موجودہ دور میں یہاں سے واپس جانے کی
شاید ہی کوئی گنجائش ہے۔اور حکومت پر انحصار کی ایک حد ہے۔لبرلائزیشن ذاتی کوششوں اور
قابلیت پر انحصار کرتا ہے۔ مسلمان طبقے کو ترقی اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے خود
ہی اپنے اندرونی وسائل پیدا کرنے ہوں گے۔
جب اندرونی وسائل کو متحرک
کرنے کی بات آتی ہے تو مسلمانوں اور دلتوں کے درمیان اہم فرق کو جاننا ضروری ہے۔دلتوں
کے پاس وسائل کم ہی ہوتے ہیں جنہیں وہ متحرک کر سکیں۔وہ ابتدائی تاریخ سے ہی چھپے رستم
رہے ہیں۔آزادی سے قبل ، اس وقت بھی امبیڈکر نے کچھ تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے سخت
کوشش کی ، تاکہ دلت سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کا فائدہ حاصل کر سکیں۔دوسرے لیڈران
کی عدم موجودگی میں امبیڈکر نے اکیلے دم پر اس کو انجام دیا۔
اس معاملے میں مسلمانوں کی
حالت بالکل مختلف ہے۔کوئی مسلمان کبھی چھپا رستم نہیں تھا۔مسلمانوں کے مختلف خاندانوں
نے تقریباً 800برسوں تک ہندوستان پر حکومت کی اور اس دوران جاگیر دار طبقے کی پیدائش
عمل میں آئی جس کے پاس زمین کی کافی ملکیت تھی۔ان خاندانوں کے حکمرانوں اور جاگیر دار
طبقے نے بھی اپنے وسائل میں سے عطیات دئے اور وقف جائداد قائم کی جو آج کی قیمت میں
کئی ہزار کروڑ روپئے کی مالیت رکھتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ شمالی ہندوستان
کے زمین داروں اور متوسط طبقے(جو آزادی سے قبل جاگیر دار طبقے سے وجود میں آیا) کی
بڑی تعداد پاکستان ہجرت کر گئی اور اس نے ایک خلاء پیدا کر دیا۔اس کے باوجود ایک چھوٹا
لیکن خوشحال مسلمانوں کا طبقہ یہیں رہ گیا۔آزادی کے بعد کے دور میں دست کاروں کے طبقے
سے چھوٹے صنعت کاروجود میں آئے۔اس کے علاوہ گجرات کے مسلمانوں کے کچھ تاجر طبقوں نے
متوسط درجے کی صنعتیں شروع کیں۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کے روایتی
تعلیمی ادارے ہیں جو وقف جائدادوں سے ہونے والی آمدنی یا تیل کی دولت سے مالا مال عرب
ممالک کے مالی تعاون سے چلتے ہیں۔دلتوں کے پاس ایسا کوئی وسائل نہیں ہے۔مسلمانوں کی
ترقی کے لئے حکمت عملی وضع کرتے وقت یہ وسائل کافی اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔اس کے لئے
صرف دوراندیشی اور جذبے کی ضرورت ہے۔برٹش حکومت کے دور میں مسلمانوں میں سر سید احمد
خان ایکدوراندیش پیدا ہوئے ، اس وقت زمین دار طبقے کو جدید تعلیم کی ضرورت تھی تاکہ
وہ بااثرو اعلیٰ درجے کی سرکاری ملازمت حاصل کر سکیں۔
آزاد ہندوستان میں اب مسلمانوں
کو امبیڈکر کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کے چھپے رستموں کو قیادت دے سکیں ،کیونکہ تقسیم
ملک کے سبب مسلمانوں کے خوشحال طبقے کے پاکستان منتقل ہو جانے سے وہ اس سے محروم رہ
گئے۔غریب طبقے سے ایک اور متوسط طبقے کا وجود عمل میں آیا۔ اس متوسط طبقے کی ترقی کی
رفتار سست تھی کیونکہ وسائل کی کمی کے سبب ترقی کے انکے پاس مواقع محدود تھے۔
اس طرح ہم پاتے ہیں کہ اگر
ہمارے لیڈراس طبقے کی مدد پر آمادہ ہوں تو تین طرح کے وسائل ہیں جو ہمارے معاشرے میں
پہلے سے ہی موجود ہیں۔
(1) وقف جائدایں، (2) مسلمانوں کے خوشحال طبقے کے ذریعہ زکوٰۃ فنڈ
اور (3) مدارس کے موجودہ ادارے جنکی جدید کاری
کی جا سکتی ہے اور تعلیم کے فروغ کے مراکز کے طور پر جن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔تاہم،
ان موجودہ اداروں کومسلم طبقے کی ترقی کے اوزارکے طور پر تبدیل کرنے میں بہت سی دشواریاں
ہیں۔
سب سے پہلے وقف جائدادیں،
حالانکہ تعداد اور مالیت کے اعتبار سے کافی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر یاتو کسی سرکاری
محکمے یا پھرمتولی،یا کرائے دار کے قبضے میں ہیں جو خالی کرنے سے انکارکرتے ہیں لیکن
کرایہ بڑھانے کے لئے راضی ہیں۔یہ عام مشکلات نہیں ہیں۔حکومت اکثروعدے کرتی رہتی ہے
لیکن مدد کے طورپر بہت کچھ نہیں کرتی ہے۔وقف املاک پر جن سرکاری اداروں کا قبضہ ہے
وہ ہی ان کو خالی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ وقف قانون میں ترمیم ہونا چاہیے
اور قانون میں ایسا نظم ہونا چاہیے تاکہ جائداد کو خالی کرایا جا سکے۔
وقف بورڈ میں جن لوگوں کی
تقرری ہو تی ہے وہ سیاسی ہوتی ہے اور سیاسی لوگوں سے مل کر بڑے پیمانے پر بد عنوانی
ہوتی ہے۔مثال کے طور پر، بوہرا طبقہ، تاجر برادری ہونے کے سبب ان کے پاس بڑی تعداد
میں وقف جائدادیں ہیں لیکن مذہبی لیڈر وقف بورڈممبران اور سیاست دانوں کو رشوت دے کر
باقی کی ساری آمدنی اپنے پاس رکھتے ہیں اور برادری کے محتاجوں کو کچھ بھی حاصل نہیں
ہوتا ہے۔اصلاح پسندوں کی جانب سے احتجاج کے باوجود وقف کی آمدنی پر مذہبی لیڈر پھل
پھول رہے ہیں۔ اس طرح وقف جائدادوں سے جو وسائل پیدا ہو رہے ہیں انہیں بھی ہضم کرجا
رہے ہیں۔اگر ان جائدادوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو مسلمانوں کو ترقی کے لئے سرکاری
وسائل پر انحصار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔
دوسرے، قرآن نے انسانیت کے
کمزور طبقات کے لئے زکوٰۃ کا ایک عظیم ادارہ دیا ہے۔قرآن کے مطابق زکوٰۃ خوشحال طبقے
سے لیکر کمزور طبقات جیسے یتیموں، بیواؤں، مسافروں،مسکینوں،محتاجوں، غلاموں اور قیدیوں
کو چھڑانے کے لئے دیا جانا چاہیے۔ہندوستان میں آج یا تو امیر زکوٰۃ نہیں دیتے ہیں اور
یا پھر کسی غریب کو انفرادی طورپر یا رمضان میں کسی مانگنے والے کو کھلا کر یہ سوچتے
ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کیا۔
اس طرح ذکوٰۃ کا اصل مقصد
فوت ہو جاتا ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک ادارے کا قیام کیا جائے، اسے ایک قانونی
طور پر قائم ادارے کے ذریعہ اسے جمع کیا جائے اور پھر اسے تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ایک
حصے کواعلیٰ تعلیم ، خصوصی طور پر تکنیکی تعلیم کے فروغ کے لئے مستحق طالب علموں کو
وظیفے کے طور پر دیا جائے، ایک حصے کو غیر سودی قرض کے طور پر چھوٹے تاجروں اور پھیری
والوں کو دیا جا سکتا ہے جو انکی آمدنی میں اضافہ کرے گا اور یہ نتیجے میں تعلیم کو
فروغ دیگا اور غربت کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے والوں کی تعداد میں کمی کا سبب بنے گا۔
غیرسودی قرض بھی ایک عظیم
ادارہ ہے جو معاشرے کے کمزور طبقے کی مدد کے لئے ہے۔آج بھی پھیری والے اور چھوٹے تاجرسود
خوروں سے حد سے زیادہ شرح سود پر قرض لیتے ہیں اور زندگی کی ضروریات میں کمی پوری کرنے
کے لئے جدوجہد کرتے ہیں۔امیر تاجروں کو غیرسودی قرض کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ دست
کار، پھیری والے اور چھوٹے تاجروں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔بد قسمتی سے شریعت کے مطابق
قرض اور سرمایہ کاری کے نام پر امیر پیسے بنا رہے ہیں جبکہ کوئی بھی غریبوں کی بات
نہیں کر رہا ہے۔
زکوٰۃ کے روپیوں کا ایک حصہ
اگر ممکن ہو تو ان کمزور طبقات کو غیر سودی قرض کے طور پر دیا جا سکتا ہے ۔ہر ایک ریاست
یا ضلع کی سطح پر ذکوٰۃ بورڈ کا قیام کیا جا سکتا ہے جس میں ایمان دار لوگ ہوں،اس کے
ذریعہ کروڑوں روپئے غریبوں کی مدد کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔تاہم،
مسلم لیڈران میں اسے کرنے کے لئے نہ تو ایسا نظریہ ہے، نہ ایمانداری اور نہ ہی ایسا
کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تیسرے حصہ کو ان لوگوں پر
خرچ کیا جا سکتا ہے جو انتہائی غریب اور ضرورتمند ہیں اور جن سے اسے واپس پانے کا امکان
بھی نہیں ہے۔
حال ہی میں ممبئی کے حج ہاؤس
میں ایک دو روزہ سیمینار زکوٰۃ کے ایسے ہی ادارے کے قیام کے لئے منعقد ہوا لیکن اس
کا اختتام افرا تفری میں ہوا۔ان لوگوں نے کچھ سیاسی لیڈران جیسے کانگریس کے لیڈر دگ
وجے سنگھ کو مدعو کیا اور علماء ان کی تقریر پر لڑنے لگے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کسی
سیاسی لیڈر کو آخر کیوں مدعو کیا جائے؟ یہ طے ہے کہ اس کا خاتمہ ایک تنازعہ پر ہوگا۔اس
کے علاوہ بریلوی طبقے کے لیڈران نے کہا کہ زکوٰۃ کے کسی بھی ادارے کے قیام کی ضرورت
نہیں ہے اور اس طرح سیمینار اختلاف اور انتشار میں ختم ہو گیا۔کسی کو بھی یہ تاثراخبار
کے ذریعہ ملتا ہے۔
یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ
ہر جگہ علماء کو پہل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے اور جن کو جدید معیشت کی کوئی سمجھ نہیں
ہے اور وہ صرف روایتی تشریح کو ہی مانتے ہیں۔ وہ تنگ نظرئیے میں یقین رکھنے والے ہیں
اور سب سے بد تر یہ کہ ان کے فرقہ وارانہ مفاد ہیں جو فرقہ وارانہ رکاوٹوں کو توڑ کر
اتحاد کی کوششوں میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ان مشکلات پر قابو پانا نہایت مشکل ہے۔
یہی علماء مدارس کی جدید کاری
کی بھی اجازت نہیں دے رہے ہیں ، جو مذہبی تعلیم کے ساتھ ہی جدید تعلیم کے فروغ کا اہم
ذریعہ بن سکتے ہیں۔روایتی علماء کے درمیان شاید ہی مدارس کی جدید کاری کی بات کرنے
والا کوئی ہے۔اس طرح مسلمانوں کے زیادہ تر قیمتی وسائل بیکار پڑے ہیں۔
مصنف سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی
اینڈ سیکو لرزم ، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/zakat-board-and-muslim-economic-and-educational-problems-/d/2848
URL: