اصغر علی انجینئر (انگریزی سے اردو
ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
مسلمانوں
کا روائیتی نظام خواتین پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کرتا ہے۔یہاں تک کہ وہ اپنے گھروں
سے باہر تک نہیں نکل سکتی ہیں اور زیادہ تر کو اپنے گھر کے کام کاج تک محدود رہنا پڑتا
ہے۔چند خواتین ہی عوامی زمہ داری کو قبول کرتی ہیں اور بہت کم خواتین گھر سے باہر ہونے
والی تقریبات میں حصہ لیتی ہیں۔
یہ سب
کچھ اسلام کے نام پر نام نہاد سماجی معیار کے سرپرستوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔تاہم اگر ہم
اسلام کی ابتدائی تاریخ پر نظر ڈالیں توہم پاتے ہیں کہ مختلف مواقع پر خواتین مردوں
کے شانہ بشانہ شرکت کرتی تھیں۔پیغمبر محمدﷺ کو حضرت خدیجہ الکبریٰؓ سے چار بیٹیاں تھیں۔آپ
ﷺ نے انکی پرورش مثالی خواتین کے طور پر کی اور ان لوگوں نے آپﷺ کے انقلاب میں شرکت
کی۔
اسلام
صرف روحانی ہی نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب تھا۔اس نے خواتین کو اختیارات دئے اور انہیں
مساوی حقوق دئے جو اس زمانے میں ناممکن تھے۔ساتویں صدی عیسوی میں خواتین کسی بھی تہذیب
میں زیادہ سے زیادہ دوئم درجہ کی زمہ داریوں کو نبھاتی تھیں۔تاہم اسلام نے انکے درجے
کو بلند کیا اور تمام دنیاوی معاملات میں مردوں کے مساوی حقوق عطا کیا۔امّ عمارہ جیسی
کئی خواتین نے تو مختلف جنگوں میں شرکت کی جو نبی کریم ﷺ کو لڑنی پڑیں۔جنگ احد میں
تلوار کے ایک وار کو امّ عمارہ نے اپنے بازو پر لیا اور نبی کریم ﷺ کی جان بچائی۔
اس بات
پر سبھی مسلمانوں کا اتفاق ہے کی حضرت فاطمہؓ اپنے والد کی سب سے زیادہ قریب تھیں،
اور اسی لئے مسلمان ان کا بہت احترام کرتے ہیں۔انکی پرورش بھی پیغمبر محمدﷺ نے کیا
اوراسلام کے اعلیٰ اقدار سکھایا۔ان کے صاحبزادوں اما م حسنؓ اورامام حسینؓ سے بھی لوگ
بہت محبت کرتے ہیں۔انکی بیٹی حضرت زینبؓ نے کربلا کی جنگ کے بعد کے حالات میں بہت اہم
کردار ادا کیا۔فارس کے شہنشاہ کسریٰ کو مسلمانوں نے شکشت دی تھی اور انکی بیٹی بی بی
شہر بانو سے حضرت علیؓ نے اپنے بیٹے امام حسینؓکا نکاح کرایا تھا۔
شہر
بانونے بھی کربلا کے المناک واقعے کا بڑی بہادری کے ساتھ سامنا کیا تھا اور اللہ کی
راہ میں اپنے دو بیٹوں علی اکبر اور علی اصغر کی قربانی دی۔قابل غور ہے کہ امام حسینؓ
مکہ سے کوفہ (عراق ) اس موصولہ خط کے جواب
میں جا رہے تھے جسے کوفہ کے معزز لوگوں نے روانہ کیا تھا جس میں ان لوگوں نے یزید
(جس نے خلافت پر اس شرط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا جس سے حضرت امام حسینؓنے
ا میر معاویہ کی حمایت میں دست بردار ہوگئے تھے) کے خلاف ان کی جنگ میں قیادت کی درخواست
کی تھی۔امام حسینؓ کو ان کے خیر خواہوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو کوفہ
اپنے ساتھ نہ لے جائیں۔ان لوگوں کو خدشہ تھا کہ کہیں کوفہ والے انہیں دھوکہ نہ دے دیں۔
تاہم،
ان خطرات کے باوجود امام حسین نے ان کے اس مشورے کو نظر انداز کر دیا اور اپنے ہمراہ
خواتین اور بچوں سمیت اپنے تمام اہل خانہ کو ساتھ لے گئے۔وہ جانتے تھے کہ اگر ان کو
یزید کی فوج کے خلاف کوفہ میں یا اس کے آس پاس جنگ لڑنی پڑی تو خواتین بہت اہم کردار
نبھا سکتی ہیں ان خواتین میں ان کی اہلیہ، بہنیں اور بیٹیاں شامل تھیں۔کوفہ کے لوگوں
نے ان کے ساتھ دغا بازی کی اگرچہ ان لوگوں نے ہی امام حسینؓ کو یزید کے ظلم کے خلاف
اپنی لڑائی کی قیادت کرنے کے لئے مدعو کیا تھا۔
یزید
اس کی نمائندگی کر رہا تھا جو اسلامی معیار کے خلاف تھا۔نہ صرف اس کی طرز زندگی نبی
کریم ﷺ اور انکے صحابہؓ کے خلاف تھی بلکہ اس نے خلافت کے نظم کو تباہ کرنے کی کوشش
کی اور شہنشایت کو متعارف کرایا۔یہ مکمل طور پر اس سیاسی نظام کی انقلابی روح کے خلاف
تھاجسے اسلام نے متعارف کرایا تھا۔امام حسینؓ کو کوفہ روانہ ہونے سے پہلے شاید اس بات
کا علم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے اور اسی لئے انہوں نے جان بوجھ کر خواتین کو اپنے
ہمراہ لیا تھا تاکہ دنیا کو بتا سکیں کہ اسلامی طریق زندگی کی حفاظت میں خواتین بھی
اہم کردار نبھا سکتی ہیں۔
سانحہ
کربلا میں خواتین نے جو کردار ادا کیا وہ امام حسین کے مرد ساتھیوں سے کم اہم نہیں
تھا۔
امامؓ
حق بجانب تھے، ان کے خاندان کی خواتین نے اہم زمہ داری نبھائی خاص طور سے ان کی بہن
حضرت زینبؓ نے ۔امام حسینؓ اور ان کے ساتھی امام زین العابدین کی شہادت کے بعد تمام
خواتین اور بچوں کو گرفتار کرلیا گیا اوراونٹ پر بٹھا کر کوفہ کے راستے دمشق لے جایا
گیا۔بہادر اور جرّت مند خاتون بی بی زینبؓ پورے راستے مسلمانوں کو خطاب کرتی رہیں اور
یزید کے غیر اسلامی اور فعل بد کو بے نقاب کرتی رہیں۔
بی بی
زینب اور اما م حسینؓ کے اہل خانہ کو دمشق میں قید کر کے رکھا گیا۔جب ان لوگوں کو یزید
کی عدالت میں پیش کیا گیا تو بی بی زینبؓ نے یزید کے درباریوں کے سامنے فصاحت و بلاغت
کے ساتھ انہیں بے نقاب کیا۔وہ اپنے مشن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں اور اس طرح انہیں اور
امام8 حسینؓ کے اہل خانہ کو رہا کیا گیا۔ ان لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنا کر واپس مدینہ
روانہ کیا گیا۔
سیدہ
زینبؓ کا کردار مثالی تھا۔یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم خواتین کس قدر جرات مند تھیں اور
کس طرح انہوں نے اسلامی تعلیمات کو تقویت پہنچانے کے لئے اہم کردار نبھایا۔آج اتنی
ترقی اور تعلیم کے پھیلاؤ کے باوجود بہت سی مسلمان خواتین کو دبایا جا رہا ہے۔مثال
کے طور پر سعودی عرب میں خواتین کی آواز کو ’آورہ‘تصور کیا جاتا ہے یعنی ان کی آواز
عوام میں نہ سنائی دے اور یہاں امام حسینؓ کے خاندان کی بی بی زینبؓ جو اسلامی اقدار
کی حفاظت کے لئے عوامی مقرر بن گئیں تھیں۔
امام
حسنؓ کے خاندان کی عورتوں بشمول امام زین العابدین جو اس وقت کافی بیمار تھے ،میں سب
سے بڑی تھیں۔
اس لئے
خاندان کی قیادت حضرت زینبؓ کے حصے میں آئی اور انہوں نے اس سے بھی زیادہ کر کے ثابت
کیا جو ان سے توقع کی جاتی تھی۔آج خواتین کو ان کی مثال اور ان کی قیادت کی صلاحیت
سے بہت کچھ سیکھنا چاہئیے۔کربلا کے سانحہ میں ان کا کردار ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔
یہ سوچنا
غلط ہوگا، جیسا کہ بہت سے مسلمان مردوں کا تصور ہوتا ہے کہ خواتین کمزور ہوتی ہیں اور
عوامی معاملات میں بہت کچھ خاص نہیں کر سکتی ہیں۔حضرت زینبؓ کا کردار ان تمام لوگوں
کے لئے ایک شاندار مثال ہے جو یہ سوچتے ہیں کہ عورتیں صرف گھریلو کام کاج کر سکتی ہیں
اور گھر کی چہار دیواری کے باہر ان کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
مصنف
اسلامیات کے اسکالر ہیں اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ
ہیں۔
بشکریہ۔
ڈان، کراچی
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/the-women-of-karbala/d/6046
URL: