اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام)
حال ہی میں ملیشیاء کے شرعی
عدالت میں دو خواتین قاضیان کی تقرری ہوئی لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کی تقرری
اس شرط پر ہوئی ہے کہ یہ لوگ شادی اور طلاق سے متعلق معاملات کو نہیں دیکھیں گی۔
یہ دوسرے معاملات جیسے بچوں
کی حوالگی، نان نفقہ، جائیداد وغیرہ کو دیکھ
سکتی ہیں۔خاتون قاضیان کی تقرری خوش آئند قدم ہے لیکن اس سے جڑی شرائط عجیب لگتی ہیں
۔
سوال یہ ہے کہ: خاتون قاضیان
شادی اور طلاق کےمسا ئل سے کیوں نہیں نمٹ سکتی
ہیں؟ کیا قرآن اور سنت میں اس طرح کی کوئی ہدایت ہے؟ نہیں، بالکل بھی نہیں۔ اصل میں
امام مالک اور معروف موئرخ اور قرآنی مبصر
طبری نے کہا ہے کہ خواتین قاضی بن سکتی ہیں،امام ابو حنیفہ کی رائے تھی کہ خواتین کو
کچھ حالات میں بحیثیت قاضی تعینات کیا جا سکتا ہے،انکی تقرّری کیلۓ کسی نے کوئی شرط نہیں رکھی ۔پھر اس طرح کے شرائط
ملیشیاء کی دو خاتون ججوں کےساتھ کیوں رکھےگئے ہیں؟ کیا یہ خواتین کے تئیں مردوں کا
سراسر تعصب نہیں ہے؟ ہمارے فقہا اور علماء
نے ہمیشہ بدعت کی مخالفت کی ہے اور اسے حرام بتایا ہے، لیکن جب عورتوں سے متعلق کسی
بدعت کی بات آتی ہے اور جس کی قرآن اور سنت
میں کوئی بنیاد نہیں ہے، اسکو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔جب قرآن اور سنت خاتون قاضی
کےلئے کوئی شرط نہیں رکھتا ہے تو کسی کو بھی یہ پوچھنے کا جواز ہے کہ پھر یہ بدعت کیوں؟
کیوں خواتین قاضیان شادی اور
طلاق کے معاملات سے نہیں نمٹ سکتی ہیں؟ کیا تقرری کرنے والے مردوں کوڈر ہے کہ خاتو
ن جج اس عورت سے ہمدردی ظاہر کریں گی جو اکثر شادی اور طلاق کے معاملے میں شکار ہوتی
ہے، اور اس طرح متاثرہ خاتون کے حق میں مقدمہ کا فیصلہ ہو جائے گا؟ اس طرح کےشرائط
رکھنے کے لئے بظاہر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی
کوئی بھی صرف حالا ت کا اندازہ ہی لگا سکتا
ہے۔
شادی اور طلاق سے متعلق کئی
احادیث کی روایت پیغمبر محمد ﷺ کی ازواج مطہرات
، خاص طور پرحضرت عائشہؓ سے ہے۔اگر کسی خاتون کو اس طرح کے مسئلے کی مناسب تفہیم نہیں ہوتی تو پھر اس طرح کی احادیث
کو فقہا نے کیوں قبول کی ہیں؟اسے ردّ کیا جانا چاہیے کیونکہ ان کی راوی ایک خاتون ہیں۔اس
کے علاوہ اسلامی موئرخین کے مطابق بھی پیغمبرمحمد ﷺ مختلف معاملات میں اپنی ازواج مطہرات سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
قرآن بار بار مومنوں کوحق پر عمل کرنے اور برائی سے رکنے کی ہدایت دیتا ہے
اور مومنوں میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔لھٰذا قرآن کی یہ ہدایت مردوں پر جس قدر
لازمی ہے اتنی ہی خواتین کے لئے بھی ضروری
ہے اور اسی طرح قاضی کے معاملے میں بھی۔اسی قرآنی ہدایت کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ
خاتون قاضی کی تقرّری کے حق میں تھے۔ حق کا نفاذ کرنا اور برائی سے روکنے کے علاوہ
قاضی کی کیا ذمہ داری ہے؟
اس کے علاوہ خواتین سے زیادہ
بہتر کون سمجھ سکتا ہے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل کیا ہوتے ہیں اور کس طرح مرد غصہ
میں آکر اکثر اپنی بیویوں کوطلاق دے دیتے
ہیں؟اسلام میں شادی ایک معاہدہ ہے اور اس معاہدہ
میں مرد اور عورت دونوں کو برابر کے حقوق ہیں اور جن شرائط پر دونوں راضی ہوں
وہ لاگو ہوتا ہے۔اگر ایک خاتون کو ازدواجی معاہدہ کرنے کرنے کا حق ہے تو اسے ازدواجی
تعلقات اور باہمی تعلقات کی مکمل تفہیم ہونی چاہیے۔
نہ تو قرآن میں اور نہ ہی
کہیں حدیث میں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ خواتین اس طرح کے مسائل کی تفہیم کے معاملے
میں ذہنی طور پر کم تر ہیں۔جہاں تک خواتین
کے ناقص العقل اور ناقص الایمان ہونے کی
متنازعہ روایت کی بات ہے تو اس کے بارے میں
جتنا کہا جائے کم ہے۔پیغمبر محمد ﷺ نے متعدد معاملات میں اپنی ازواج مطہرات
سے مشورہ کیا۔ان میں سے ایک سےآپﷺ نے ہدیبیہ میں امن کے ایک اہم معاملے میں مشورہ کیا تھا اور اپنے اونٹ
کی قربانی دینے کے ان کے مشورے کو قبول کیا تھا۔آپ ﷺ نے کبھی نہیں کہا کہ خواتین عقل
کےمعاملے میں کم تر ہیں۔
یہ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ ہی تھیں جنہوں نے اپنے شوہر کو اسلام کا پیغمبر بننے پر مبارکباد
دی تھی جب آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور آپ ﷺ کو پسینہ نکل رہا تھا اور آپ
ﷺ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آپ کو کیا ہو رہا ہے۔یہ حضرت حفصہؓ تھیں جن کے پاس
سب سے پہلے مرتب کیا گیا قرآن حضرت عثمانؓ کے زمانے تک تھا۔پیغمبر محمد ﷺ نے خود فرمایا
ہے کہ جو خواتین کی عزت کرتا ہے وہ خود بھی معزز ہو جاتا ہے۔
پیغمبر محمد ﷺ کی صرف بیٹیاں
تھیں اور کوئی بیٹا نہیں تھا۔آپ ﷺ نے اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کی اور بہت پیار
سےانکی پر ورش کی۔آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جو اپنی بیٹیوں سے پیار کرتا ہے، تعلیم
دیتا ہے اور ان کی شادی کرتا ہے، جنت میں اس کا مقام یقینی ہے۔آپ ﷺ اپنی بیٹی حضرت
فاطمہؓ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے اور جب وہ ان کے گھر میں آتی تھیں تو آپ ﷺ احترام
میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ان مسائل پر فقہہ اور احادیث کے راویوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے باوجود کئی
احادیث ہیں جنہیں نقلی مانا جاتا ہے اور ان احادیث میں خواتین کو برے انداز میں پیش
کیا گیا ہے
اصل میں یہ حیرانی کی بات
نہیں ہونی چاہیے کہ قرآن میں جو بھی تبصرہ خواتین کے متعلق ہے وہ حق کی بنیاد پر ہے جبکہ مردوں کی ذمہ داری کی بنیاد
پر ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اسلامی فقہہ میں پوری گفتگو اس کے بر عکس ہے: جس میں
مردوں کے لئے یہ حقوق اور خواتین کے لۓ ذمہ
داری کی بات کی گیٔ ہے۔حد ہو گئی ہے ، مسائل
کے تعلق سےمسلم دانشوران کومکمل اسلامی فقہہ
پر نظر ثانی کے لئے آگے آنا چاہیے اور اسے انصاف، مساوات اور انسانی وقار کےقرآنی
روح کے مطابق کرنا چاہیے۔
مصنف اسلامی اسکالر اور سینٹر
فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سر براہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/why-can’t-women-judges-deal-with-marriage-and-divorce-cases?/d/3247
URL: