اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
ایک اعلی پولیس افسر نے مجھے
لکھا اور دریافت کیا کہ اس عقیدے کی قرآنی بنیاد کیا ہے کہ جو لو گ شہید ہوں گے انہیں
جنت میں داخل کیا جائے گا اور انہیں 70 حوروں سے نوازا جائےگا۔جودہشت گردوں کے لئے
اسلام کے نام پر جان دینے کے لئے ترغیب دینے والا بن گیا ہے۔بدقسمتی سے عام مسلمانوں
کا یہ یقین ہے کہ حوریں نسوانی صنف کی ہوتی ہیں اور کچھ مرد تو یہ شیخی بھی مارتے ہیں
کہ اللہ نے مردوں کو حوروں کا وعدہ کیا ہے
جبکہ عورتوں کے لئے کچھ بھی نہیں کہا ہے۔
اس عقیدہ کی قرآن میں کوئی
بنیاد نہیں ہے۔یہ ایک مقبول یقین سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے اور ذاتی مفادات کے تحت
اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔لہٰذا یہ تلاش کرنا
نہایت ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔سب سے پہلے یہ سمجھنا
چاہیے کہ قرآن میں شہادت کا کیا مطلب ہے۔شہادت کا لفظی معنی گواہی دینے، قبول کرنے،
تصدیق کرنے، موجود رہنے اور شہادت کے بھی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ شہادت کے لئے
شہادت کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کا لفظی
معنی گواہی یا موجود رہنے کے ہیں۔اگر کوئی کسی چیز کی گواہی دیتا ہے اور جس کا وہ
مشاہدہ کرتا ہے تو یہ شہادت صرف جسمانی یعنی آنکھوں سے مشاہدہ ہی نہیں ہونی
چاہیے بلکہ یہ نفسیاتی اورروحانی اعتبار سے
بھی ہونی چاہیے۔ روحانی اعتبار سے مراد وہ نظر ہے جو مستقبل کی بصارت رکھتی ہو اور
یہ بصارت ہی ہے جس کے لئے کوئی اپنی جان قربان کرتا ہے۔
اس طرح ایک انسان تقریباً
مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ کس لئے مر رہا ہے اور اس معنی میں شہادت ، شہادت بن جاتی ہے اور
اسی معنی میں قرآن کہتا ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتے ہیں، وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں،انکی
موت نہیں ہوتی ہے۔اس طرح قرآن کے مطابق شہادت اپنی زندگی قربان کرنے کا عظیم عمل ہے
اور ایک شہید کے ساتھ صدیقین والصاالحین جوڑا جاتا ہے۔ یہ مارنے کا عمل نہیں ہے بلکہ
حق کو برقرار رکھنے کے لئے ہلاک ہونے کا نام ہے۔
اس طرح قرآن میں شہادت کے
معنی ایک انسان اس دنیا کو کس طرح بنانا چاہتا
ہے اس کو سمجھنے اور مشاہدہ کرنے کے ہیں اور بے جھجھک اس مقصد کے لئے اپنی جان کی قربانی
پیش کرنا ہے۔قرآن کسی چیز کے علم کو دو درجات میں تقسیم کرتا ہے علم الیقین اور عین
الیقین یعنی کسی چیز کا مشاہدہ صرف اپنی آنکھوں
سے نہیں بلکہ کسی چیز کے علم کے ساتھ کرنا ۔ اور دوسرے درجے میں وہ شہید آتے ہیں جو
اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے اور اس لئے شاہد ہے۔
شہادت کے اس عمل میں قربانی
کے سوا مارنا کبھی شامل نہیں ہوگا اور اگر مارنے کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بھی دفاع میں،
اور بے تہاشہ قتل کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے جیسا کہ دہشت گرد اکثر کرتے ہیں۔دہشت
گردی تباہی کے لئے مار کاٹ ہے جبکہ شہادت حق اور انصاف کو قائم کرنے کئے لئے دی گئی
قربانی ہے اور پیغمبر محمدﷺ کے کئی صحابہ نے اسی حق اور انصاف کو قائم کرنے کے لئے
اپنی جانوں کی قربانی پیش کی۔
اب حوروں کے سوال پر آتے
ہیں جس کے بارے میں مقبول یقین کے مطابق قرآن میں شہیدوں کے لئے جنت کاوعدہ کیا گیا
ہے۔جنت (کے معنی ایک ایسے مقام سے ہے جو درختوں
اور ہریالی سے گھری ہوئی اورپوشیدہ ہے) کا وعدہ ان تمام لوگوں کے لئے ہے جو لوگ صالح
ہیں اورعمل صالح کرتے ہیں۔
حوروں سے متعلق قرآن کی آیت
درج ذیل ہے: ‘ہمیشہ ایک ہی حال میں رہنے والے نوجوان خدمت گار ان کے اردگرد گھومتے
ہوں گے، کوزے، آفتاب اور چشموں سے بہتی ہوئی (شفاف) شرابِ (قربت) کے جام لے کر (حاضرِ
خدمت رہیں گے، انہیں نہ تو اُس (کے پینے) سے دردِ سر کی شکایت ہوگی اور نہ ہی عقل میں
فتور (اور بدمستی) آئے گی، اور (جنّتی خدمت گزار) پھل (اور میوے) لے کر (بھی پھر رہے
ہوں گے) جنہیں وہ (مقرّبین) پسند کریں گے، اور پرندوں کا گوشت بھی (دستیاب ہوگا) جِس
کی وہ (اہلِ قربت) خواہش کریں گے، اور خوبصورت کشادہ آنکھوں والی حوریں بھی (اُن کی
رفاقت میں ہوں گی جیسے محفوظ چھپائے ہوئے موتی ہوں یہ اُن (نیک) اعمال کی جزا ہوگی
جو وہ کرتے رہے تھے، وہ اِس میں نہ کوئی بیہودگی سنیں گے اور نہ کوئی گناہ کی بات،
مگر ایک ہی بات (کہ یہ سلام والے ہر طرف سے) سلام ہی سلام سنیں گے،(56:17-26)’
یہ جنت کی سب سے شاندار وضاحت
ہے اور جو عمل صالح کرنے والوں کو حاصل ہوگی اور حور جن کے بارے میں عام خیال یہی ہے
کہ یہ نسوانی صنف کی ہوتی ہیں لیکن ان میں
دونوں شامل ہیں۔حور کا لفظی معنی آنکھوں کے بہت زیادہ سفید اور پتلی کے بہت زیادہ
چمکیلے کالے سے ہے۔حوار پاکیزگی یا اخلاقی پاکیزگی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اسی معنی
کے سبب حضرت عیسیٰؑ کے ساتھیوں کو حّواریون
یعنی اخلاقی طور پر پاک کہا جاتا ہے۔
حور پر اس تبصرے میں سیکس
یا ہوس کا کہیں کوئی ذکر نہیں آیا بلکہ روح
اور اخلاق کی پاکیزگی کا ذکر آیا ہے۔دراصل حور ، احوار(مذکر)
اور حاورہ (مونث) دونوں کی جمع ہے۔اس طرح قرآن میں حور کے معنی اخلاقی طور
پر پاک مرد اور عورتوں سے ہے جو جنت میں داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھی ہوں گے۔اور
قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ، وہ اِس میں نہ کوئی بیہودگی سنیں گے اور نہ کوئی گناہ کی
بات، مگر ایک ہی بات (کہ یہ سلام والے ہر طرف سے) سلام ہی سلام سنیں گے۔اس طرح حوریں
نہ تو خواتین ہیں اور نہ ہی انکی تعداد 70ہوگی۔جنت
کی یہ شاندار وضاحت روحانی نوعیت کی ہے اور جو لوگ تمام فتنوں کے خلاف مزاحمت کریں
گے اور عمل صالح کے علاوہ کچھ اور نہیں کریں گے
وہی لوگ سچے اور انصاف پسند ہیں اور یہ اس دنیا اور آخرت میں بھی ان کے لئے
ہمیشہ کے سکون کا باعث بنے گا۔
مصنف سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی
کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/martyrdom-and-houris/d/3176
URL: