اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
ہندوستان اور دوسرے کئی اور
ممالک میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں نے یہ تاثر پیدا کیا کہ جہاد قرآنی تعلیمات کا مرکزی
حصہ ہے۔سب سے پہلے جیسا کہ ہم لوگوں نے بار بار زور دیا ہے کہ قرآن میں جہاد کے معنی
جنگ کے نہیں ہیں کونکہ اس کے لئے قتال اور حرب جیسے دوسرے الفاظ ہیں۔قرآن میں جہاد
لفظ کا استعمال اس کے بنیادی معنی میں کیا گیا ہے یعنی جدو جہد کرنا، معاشرے کی بہتری
کے لئے جدو جہد کرنا،اچھائی کو پھیلانے(معروف) اور برائی (منکر) کو روکنے کے لئے جدو
جہد کرنا۔
لیکن جہاد کا مطلب جنگ تصور
کرنا ،جیسا کہ کچھ مسلمان کرتے ہیں، قرآن کی مرکزی تعلیم قطعی نہیں ہے۔قرآن میں لفظ
جہاد 41بار استعمال ہوا ہے لیکن جنگ کے مفہوم میں کسی بھی آیت میں اس کا استعمال نہیں
کیا گیا ہے۔قرآن میں چار بنیادی اقدار کا ذکر ہے۔یہ انصاف(عدل)خیر خواہی(احسان)،رحم(رحمت)اور
دور اندیشی(حکمت) ہیں۔اس طرح قرآن ان اقدار کا عملی اظہار ہے اور تمام مسلمان ان پر
عمل درآمد کے لئے پابند ہیں۔جو بھی ان اقدار پر عمل نہیں کرتا وہ خود کے سچا مسلمان
ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔اسلامی فقہہ میں بھی جہاد واجب نہیں ہے ،جبکہ یہ اقدار
ایک مسلمان کے کردار کی جانب اشارہ کرتی ہیں اور اس لئے کافی اہم ہیں۔ اسلامی تعلیمات
میں رحم سب سے مرکزی درجہ رکھتا ہے۔قرآن میں لفظ ’رحم دلی‘اور ’رحمت‘ اپنے متعدد شکلوں
میں جہاد کے صرف 41مرتبہ کے مقابلے335بار آیا ہے۔
قرآن میں تمام سماجی اور سیاسی
معاملات میں انصاف پر زور دیا گیا ہے اور انصاف کے لئے تین الفاظ-عدل، قسط اورحکام
244 بار آیا ہے۔انتقام لینا انسانی کمزوری ہے نہ کی قوت۔اللہ سے سچی توبہ کرنے والے
کو اللہ معاف کر دیتا ہے اسی طرح ایک متقی مسلمان بھی معاف کرنے والا ہوتا ہے۔جو لوگ
دہشت گردانہ حملے کی شکل میں جہاد کر رہے ہیں اصل میں وہ انتقام لینے پر تلے ہوئے ہیں
، جس طرح اللہ معاف کر دیتا ہے ایک سچا مسلمان بھی معاف کرتا ہے۔
شرعی قانون کے مطابق جہاد
کا اعلان کرنے کا فیصلہ صرف ریاست یا جسے با اختیار بنایا گیا ہو لے سکتا ہے۔دوسری
جانب دہشت گردانہ حملوں کے منصوبے اور اور ان پر عمل کچھ افراد کرتے ہیں جو نہ تو ریاست
اورنہ ہی اس کے کسی ادارے کے نمائندے ہوتے ہیں۔اس لئے ان کے کسی بھی حملے کو اسلامی
یا شرعی قانون کے مطابق جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔یہ کچھ اور نہیں بلکہ معصوم
لوگوں کا قتل کرنا ہے۔اسلامی قانون کے مطابق جہاد کے تحت کسی غیر جنگجو پر حملہ نہیں
کیا جا سکتا ہے اور خواتین ،بچوں اور بزرگوں پر تو بالکل بھی نہیں اور نہ ہی کسی عوامی
عمارت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں جب تک کہ اس عمارت کا استعمال فوجی یا حملے کے مقصد
سے نہ کیا گیا ہو۔
اسے بڑی آسانی سے سمجھا جا
سکتا ہے کہ اسلامی قانون نے جنگ کے جو قاعدے مقرر کئے ہیں وہ جدید قوانین یا جینیوا
کنونشن سے الگ بالکل بھی نہیں ہیں۔لیکن دہشت گردانہ حملے ان اسلامی قوانین کی کھلی
خلاف ورزی ہے اور کوئی طریقہ نہیں ہے جو ان حملوں کو جہاد قرار دیا جا سکے۔میڈیا ان
دہشت گردوں کو جہادی کے طور پر پیش کرتی ہے۔یہ مجموعی طور پر اس لفظ کا غلط استعمال
ہے اور عربی میں جہادی جیسا کوئی لفظ بھی نہیں۔اصل میں یہ مجاہد ہے اور اس کا استعمال
مداحی معنی میں کیا جاتا ہے ۔مجاہد وہ ہوتا ہے جو ایک مثبت کاز یا سماجی برائی کے خلاف
خود کااستعمال کرتا ہے۔
قرآن مسلمانوں کو مشورہ دیتا
ہے: ’اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو تباہی کے کام میں مت ڈالو اور نیک عمل(دوسروں کے ساتھ)کرتے
رہو۔ بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو تباہی
میں مت ڈالو ،قرآن کا یہ مشورہ اہم ہے اور آج بھی اس کی معنویت ہے۔9/11حملے کا کیا
نتیجہ نکلا؟کیا القاعدہ نے پورے اسلامی دنیا خاص طور سے افغانستان اور عراق پر بڑی
تباہی کو دعوت نہیں دی؟کیا ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے خود کو عذاب میں مبتلا نہیں
کر لیا؟اس حملے نے کس کا بھلا کیا؟کیا اس غیر محتاط اور بے رحم حملے میں کوئی حکمت
تھی؟
انتقام صرف ہماری انا کو مطمئن
کرتا ہے اور دشمن کی عنا کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس طرح پچھتاوے کی جنگ جاری رہتی
ہے۔دہشت گرد کیا کر رہے ہیں وہ انتقام لینا چاہتے ہیں اور وہ بھی ایک کمزور پوزیشن
سے۔ہر ایک حملہ کچھ اور نہیں بلکہ حملہ آوروں اور دوسروں کے لئے صرف تباہی لے کر آتا
ہے۔جہاد کے لفظی معنی کے جواز کے طور پر کئی آیتوں کو پیش کیا جاتا ہے جبکہ یہ لوگ
قرآنی اقداروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ چاہے القاعدہ ہو یا
کوئی اور دہشت گرد تنظیم وہ کسی حکومت یا کسی وسیع تر مسلم ادارے کی نمائندگی نہیں
کرتے ہیں۔ یہ لوگ کچھ ناراض نوجوانوں کو اسلامی بیان بازی سے اپنے ساتھ کر لیتے ہیں
اور جو دہشت گردانہ حملے کر کے معصوموں کی جانیں لیتے ہیں۔یہ حملے تمام قرآنی اقدار
کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
ساتویں صدی کے عرب کا موازنہ
عصر حاضر کی دنیا کے حالات سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔آج کی دنیا اس وقت سے یکسر مختلف
ہے اور ہمیں جنگ سے متعلق قرآنی اخلاقیات اورہدایات پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔آج ثالثی،مصالحت
اور تنازعات کو حل کرنے کے کئی ادارے موجود ہیں اور کسی کو بھی مسائل حل کرنے کے لئے
تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔
ہندوستانی تناظر میں ،کوئی
بھی فرقہ وارانہ تشدد کا انتقام بازاروں میں معصوم ہندو اور مسلمانوں پر دہشت گردانہ
حملے کر کے نہیں لے سکتا ہے۔یہ ویسا ہی جرم ہے جو فرقہ وارانہ طاقتیں معصوم مسلمانوں
کے ساتھ کرتی ہیں۔حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کو بھی بڑے صبر و تحمل کے ساتھ جمہوری
طریقے کی مدد سے رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے اور عام لوگوں کا دل جیت کر فرقہ وارانہ
اور فاشسٹ طاقتوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔
امید ہے کہ گمراہ مسلم نوجوان
جو تشدد کا سہارا لیتے ہیں وہ دہشت گردانہ حملوں کے بے اثرہونے کا احساس کریں گے اور
گناہ اور مجرمانہ کاروائی سے گریز کریں گے اور اس کے بجائے تعلیم حاصل کرنے اور ایک
اعلی اخلاقی کردار بنانے پر اپنی توجہہ مرکوز کریں گے۔کیا پیغمبر محمد ﷺ نے نہیں کہا
ہے کہ’ایک عالم کی روشنائی ایک شہید کے خون سے افضل ہے‘؟
مصنف اسلامی اسکالر اور سینٹر
فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/making-a-mockery-of-jihad/d/858
URL: