اصغر
علی انجینئر
(انگریزی سےترجمہ: سمیع الرحمٰن، نیو ایج
اسلام)
1-15
اپریل، 2012
مسلمان
اکثر شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہے، اور ان کی مسخ شدہ شبیح کو کثرت سے پیش کرتی ہے۔ خاص طور پر مغربی ذرائع ابلاغ 9/11 کے خوفناک واقعے کے بعد بہت مخالف رہا ہے۔
لیکن اس سے قبل بھی یہ اسلام اور مسلمانوں
کا دشمن نہیں تھا تو بہت دوستانہ بھی نہیں
تھا۔ ہر وقت میڈیا کی مزمت کرنے کے بجائے اس کی کچھ پیچیدہ وجوہات ہیں جنہیں مناسب طریقے سے مسلمانوں
کو سمجھنا چاہئے۔ مزمت کرنا آسان ہے لیکن سمجھنا مشکل ہے۔
ہم یہاں
اس مضمون میں ان وجوہات کا تجزیہ پیش کرنے
کی تجویز کرتے ہیں اور تدبیر تدارک کا انحصار
ہماری تفہیم پر ہے۔ شروع کرنے کے ساتھ
ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ یہ دشمنی
مذہبی سے زیادہ سیاسی ہے، حالانکہ یہ مذہبی ظاہر ہوتی ہے۔ اسلام اور عیسائیت دونوں
عالمی مذاہب ہیں اور ان دونوں مذہبی طبقوں سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی آپسی دشمنی رہی ہے اور ایک دوسرے کی قیمت پر اپنی سلطنتوں کو تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسلام
اور عیسائیت مذہبی اعتبار سے حریف کبھی نہیں رہے لیکن سیاسی حکمراں ایک دوسرے کے حریف
ضرور تھے اور دونوں مذہب نے ایک دوسرے کے خلاف
لڑائیاں لڑیں اور جس نے متعلقہ مذاہب کے پیروکاروں کے ذہنوں میں زبر دست تعصبات پیدا
کئے۔ صلیبی جنگیں سب سے زیادہ جوش کے ساتھ لڑی گئیں تھیں اور ان صلیبی جنگوں نے ان
کے دماغ پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ ترکی دنیا
کی سب سے بڑی سلطنتوں میں سے ایک بن گیا اور وسطی یورپ تک داخل ہو گیا تھا۔ اس نے بھی یورپیوں کی یادوں پر زخم چھوڑ
دیا۔
مسلمانوں قرون وسطی کے زمانے سے ایک غالب طاقت تھے اور یہ یورپ تھا جو انقلاب کے بعد ایک طاقتور قوت کے طور پر
ابھر کر سامنے آیا۔ اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں زبردست پیش قدمی کی اور
جلد ہی ایشیائی اور افریقی ممالک کو اپنی کالونی
بنانا شروع کر دیا۔ ان ممالک میں اسے
مسلمان حکمرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستان میں میں برطانوی حکومت کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے زوال پزیر مغل سلطنت
کو شکست دینی پڑی۔
اسے
کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاقت اور غلبہ حاصل کرنے کی اس جدو جہد نے اسلام اور مسلمانوں
کے خلاف زبردست تعصبات پیدا کئے۔ اکثر ان حکمرانوں نے مشنریوں کو جارحانہ طور پر عیسائیت کی تبلیغ کے
لئے استعمال کیا اور مسلمانوں نے بھی اپنے اندر اتحاد قائم رکھنے کے لئے یا قبائلیوں
کو اسلام میں داخل کرانے کے لئے مخالف مبلغین کے طور پر کام کیا۔ اس طرح کے نقطہ نظر نے پورے جدوجہد کو سیاسی کے بجائے مذہبی ظاہر
ہونے دیا۔
اس طرح
اس مخالفانہ رویہ جاری رہا اور مسلمانوں اور
اسلام کے تئیں میڈیا کے رخ میں اس کی عکاسی ہوئی۔ پروفیسر ہنٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم
کو مغربی ذرائع ابلاغ میں جو دیوانوں کی طرح تجزیہ حاصل ہوا وہ بھی کچھ اور نہیں بلکہ
اسی رویہ کی عکاسی کرتا تھا۔ سو ویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکہ ایک بیرونی دشمن
کی تلاش کر رہا تھا تو یہ کتاب سب سے زیادہ
اہم بن گئی تھی اور اسلام مغربی طاقتوں کے سب سے زیادہ اور تاریخی حریف کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
دو
عالمی جنگوں جس میں بنیادی طور پر عیسائی طاقتیں
ملوث تھیں، اس سے ہوئی تباہی کے بعد ایک طرح
کی خاموشی چھائی ہوئی تھی اور کھینچا تانی دو مذہبی حریفوں کے غلبہ کے بجائے اس بار قومی تسلط کے لئے زیادہ تھی۔ ایک بار تباہ قوموں
کی تعمیر نو کا آغاز ہوا اور اقوام متحدہ کی
تنظیم (یو این او) وجود میں آئی اور انسانی
حقوق اور انسانی عظمت کو زیادہ مرکزیت حاصل ہو گئی اور مذہب و مذہبی دشمنی پیچھے رہ گئی۔
لیکن
اب ایک اور پہلو، اسرائیل کا قیام منظر عام
پر ابھر کر سامنے آیا جو کہ فلسطینی علاقہ
تھا۔ صلیبی جنگوں کے ذریعہ جو حاصل نہیں کیا
جا سکا اسے دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل
کے ذریعہ حاصل کیا گیا۔ اسرائیل کا قیام، لاکھوں
بے گناہ یہودیوں کے قتل کے معاوضے کے طور پر
اتنا نہیں کیا گیا تھا جتنا مسلم دنیا پر دوسرے زرائع سے غلبہ کو برقرار رکھنے کے لئے تھا۔ کسی بھی طرح عرب کے لوگ معصوم یہودیوں
کے قتل کے لئے ذمہ دار نہیں تھے اس کے باوجود یہ عرب اور بالخصوص فلسطینی تھے جنہیں
اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔
مغربی
طاقتوں اور خاص طور سے امریکہ جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی جگہ دوسرے سب سے بڑے طاقتور ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا
تھا، صیہونیت کو اس کی حمایت کے سبب، یہ سب سے زیادہ جارحانہ دائیں بازو کی سیاسی نظریے
کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس طرح امریکہ
نے اسرائیل کے قبضے کی حمایت کی اور آج تک ایسا کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے دائیں بازو کے نظریے اور امریکہ کی نوآموز
قدامت پسندی کو ایک دوسرے کا سیاسی اتحادی
مل گیا اور یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔
یہی
وہ عناصر ہیں جو امریکی میڈیا کے پرنٹ اور
الکٹرانک دونوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر کے ان کے مفادات
بخوبی حل ہوتے ہیں۔ ان دونوں کا اتحاد یہودیوں اور عیسائیوں کے طور پر نہیں تھا بلکہ دائیں
بازو کی سیاسی قوتوں کے طور پر تھا۔ اسی طرح فلسطین میں مسلمان عربوں اور عیسائی عرب
مضبوط اتحادیوں کے طور پر متحد ہیں کیونکہ
دونوں صیہونی جارحیت کا شکار ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر عیسائی
یایہودی حملہ نہیں ہے بلکہ اسلام اور مسلمانوں پر دائیں بازو کا سیاسی حملہ ہے۔
قابل
غور یہ ہے کہ مغربی ممالک عام طور پر سیکولر
ہیں اور سیکولر قوم پرستی پر یقین رکھتے ہیں لیکن مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت کرتا
ہے جو ایک مذہبی ملک ہے اور جہاں تمام غیر
یہودی عوام مسلمانوں کے ساتھ ہی ساتھ عیسائی بھی دویم درجے کے شہری ہیں۔ اس طرح مسلمان
اور مسیحی عربوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ لیکن چونکہ
اسرائیل مغربی ممالک کے مفادات کو پورا کرتا ہے اس لئے یہ ایک اہم اتحادی کے طور پر قابل قبول ہے، چاہے وہ مذہبی قوم پرستی کے اصول پر قائم کیا گیا
ہو ۔ کوئی بھی دوسرا ملک، اگر مذہبی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہو، تو اسے رجعت پسند
کہہ کر مذمت کی جائے گی۔
اسلام
اور مسلمانوں کے تئیں یہ دشمنی جس کی تاریخی بنیادیں ہیں، 9/11 کے واقعات
کے ساتھ اور بھی زیادہ شدید ہو گئی۔ اب یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک کھلی جنگ
تھی۔ اسے مغربی ذرائع ابلاغ میں اسی طرح پیش
کیا گیا تھا۔ یہ مسلمانوں کے لئے گہرائی سے غور کرنے کا ہے کہ اس طرح کی دہشت گردی
کی کارروائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی بجائے یہ اسلام کو بد نام کرتی
ہیں۔ اسامہ بن لادن کی قیادت میں مٹھی بھر القاعدہ کے افراد نے اسلام کو زبردست نقصان پہنچایا
ہے اور مغربی میڈیا کی بدولت اب یہ عالمی خیال ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔
اس میں
شک نہیں کہ القاعدہ کو مسلمانوں کی اکثریت
کی حمایت کبھی حاصل نہیں تھی؛ اسے ایک چھوٹی سی جارحانہ اقلیت کی حمایت حاصل تھی جیسا
کہ عام طور پر دوسرے فرقوں میں بھی ہوتا ہے۔ پی ای ڈبلیو جیسی بہت سی مختلف ایجنسیوں کی طرف سے کئے گئے سروے میں
بھی یہ واضح طور آیا ہے کہ الجیریا سے لے
کر انڈونیشیا تک صرف ایک چھوٹی جماعت 9/11جیسے واقعات کی حمایت کرتے ہیں اس کے باوجود
مرکزی دھارے کی مغربی میڈیا ایسی خبریں نمایاں
طور پرکبھی پیش نہیں کرتا ہے جبکہ کوئی بھی پرتشدد حملہ نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ہے۔
مسلمانوں
کو نہ صرف پر امن طور پر رہنے بلکہ کئی طریقوں
سے نظر آنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ میڈیا اس طرح کی بھی خبریں دکھانے کے لئے مجبور ہو۔
اگر ایسا نہیں کریں گے تو جیسا کہ ہم دیکھ
رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں کے ذریعہ کئے گئے تشدد کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے تمام
مسلمان اس کے پس پشت ہوں۔ اس کے علاوہ بھی
اسلام اور مسلمانوں کو غلط طور پر پیش کرنے کی دیگر وجوہات بھی ہیں اور ہم مسلمانوں کو اس پر گہرائی سے غور و فکر کرنی
ہوگی اور اپنے معاشرے میں تبدیلی لانی ہوگی۔
انہیں زیادہ تر مسلم ممالک میں آزادی کی کمی اور آمریت
نظر آتی ہے۔ اس کی گہری چھان بین کے بجائے وہ اسلام کو اس کی بنیادی وجہ مانتے ہیں۔ اسلام جمہوریت کی اجازت نہیں دیتا اور بادشاہت کو
فروغ دیتا ہے۔ دائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے کئی مسلم نوجوان اسلام کے ابتدائی
زمانے کے نظام خلافت کو واحد حل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد
میڈیا اس پر اپنی خبریں بناتا ہے۔
جیسے
ہی کوئی مضمون یا کارٹون، اسلام یا نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بھی دوسری مقدس شخصیت کے لئے ہتک آمیز تصویر مغربی ذرائع
ابلاغ میں آتی ہے تو پر تشدد مظاہروں یا اس
شخص کے لئے جس نے مضمون لکھا ہے یا کارٹون بنایا ہے، اس کو مارنے کے لئے بھی
دھمکی دی جانے لگتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکالا جاتا ہے کہ اسلام اور مسلم معاشروں
میں رواداری اور آزادی کی کا مکمل طور پر
فقدان ہے کیونکہ مغربی ثقافت بالکل مختلف ہے۔
وہ بھول
جاتے ہیں کہ کل تک مغربی معاشرہ میں بھی کوئی فرق نہیں تھا اور مسلم معاشرہ قدیمی اور
نیم جاگیردارانہ تھے۔ صحافیوں کی نوجوان نسل بہت ہی مختلف ثقافت اور ماحول میں پلی ہے اور دائیں
بازو کے پرو پگنڈہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو لگتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی سنگین
خلاف ورزی ہے اور اس کے خلاف سختی سے لکھتے ہیں۔ ان کا سوچنا ہے کہ صرف مغربی ثقافت آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور وہیں جمہوری معاشرہ
ہے جبکہ اسلامی معاشرے انتہائی غیر روادار اور بادشاہی نظام والے ہیں۔
صحافیوں
کی موجودہ نسل صحافت کے انتہائی تجارتی نوعیت میں پلی ہے اور پرانی نسل کے تفتیشی اقدار
کا ان میں فقدان ہے۔ یہ جلدبازی میں ادھورے ثبوت کی بنیاد پر اور واقعات کے دبائو میں
موٹی تنخواہ حاصل کرنے کے تحت فوری طور پر
نتائج اخذ کرتی ہے۔ یہ جدید دور کے صحافت کی تحقیقاتی حقیقت ہے اور یہ سچائی کی تفتیش
ہے جو کہ ایک سانحہ ہے۔
اس سے
بھی برا یہ ہے کہ مغربی پریس میں جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے یا مغرب کے الیکٹرانک میڈیا میں جو کچھ بولا یا جس پر بحث کی
جاتی ہے اسے تیسری دنیا کا میڈیا انجیل کی طرح سچ مانتا ہے اور اسے اپنے ذرائع ابلاغ
میں پیش کرتاہے۔ اس طرح یہ عالمی جہتیں حاصل کر لیتا ہے۔ ہندوستان بھی اس سے مختلف
نہیں ہے۔ اگرچہ میڈیا آزاد ہے لیکن یہ خود مغربی میڈیا کی نقل کرنے میں فخر
محسوس کرتا ہے۔ اور ہندوستان میں بھی خود اپنی دائیں بازو کی جماعتیں اور نظریات ہیں
جو علاقائی زبان کے ذرائع ابلاغ میں خاص طور پر جن کی عکاسی ہوتی ہے۔
میڈیا
جمہوری کام کاج کا ایک اہم حصہ کے طور پر تصور کیا جاتا ہے جو عوام کی رائے ہموار کرتا
ہے، لیکن تنقیدی رائے بنانے کے بجائے یہ موجود تعصبات کو مزید بڑھاتا ہے اور اس طرح جوں
کی توں حالت کو برقرار رکھتا ہے اور اکثریت کا نقطہ نظر مضبوط ہو تا ہے۔ مسلم ممالک
کے ذرائع ابلاغ کے بارے میں بھی یہی حقیقت ہے۔
یہ بھی اکثریت کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے اور اقلیت مخالف اور دائیں بازو کے نظریات کا خیال رکھتا
ہے۔ اس سے بھی برا یہ ہے کہ، سوائے چند صورتوں کو چھوڑ کر مسلم ممالک میں میڈیا شاید ہی آزاد ہے۔ اس طرح غیر جانبدار میڈیا ہر جگہ ایک سانحہ
ہے۔
اصغر
علی انجینئر اسلامی اسکالر ہیں اور سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سربراہ
ہیں۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-the-media/islam,-muslims,-media/d/6989
URL: