By Asghar Ali Engineer (Translated from English by Samiur Rahman, NewAgeIslam.com)
Also, in secular democracy like India everyone has right to live unconditionally. Perhaps Shri Singhal has never believed in secular democratic culture and hence he wants to lay down conditions for minorities to live in India. Entire Sangh Parivar has been doing this and is becoming of late shriller in this respect. No one can stipulate conditions for anyone to live in secular democratic India except that everyone will abide by the law of the land and if they violate the law they will be punished in keeping with the law of the land. Even a lawbreaker cannot be deprived of his citizenship, only can be punished.
India has always been plural and diverse and pluralism and diversity has been great strength of India. Indian people have been most tolerant except handful of extremists in modern times. It is the British rulers who divided us and created, for the first time, a political category called communalism. We had never known this phenomenon before. Now a section of Indian politicians is exploiting this category for their own political survival.
Let me once again reiterate for Shri Singhal that Muslims and other minorities have always considered India as Darul Aman and all of them have strong sense of loyalty to this great country which is their only homeland. They would never dither from this position. And this author strongly believes that all human beings, whatever their religious beliefs or cultural values, should coexist in peace and harmony. Our politics should never be based on religion, caste or language. It should be based only on our common problems. Unfortunately our politicians are using all these categories (religion, caste and language) for their petty political interests and destroying our unity. People of India should categorically reject such politics.
URL for English article:
ہندوستان دارالامن ہے
اصغر علی
انجینئر
قرون وسطیٰ کے دور میں علماء
نے پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا۔دارالسلام اور دارالحرب یعنی اسلام کامسکن
اور جنگ کا مسکن ۔ان دنوں میں جمہوریت نہیں ہوا کرتی تھی اور ہر جگہ بادشاہ اور خود
مختار حکمراں ہوا کرتے تھے۔اس وقت شہریت کا کوئی تصور نہیں تھا اور جن پر حکمرانی کی
جاتی تھی انہیں ر عایا تصور کیا جاتا تھا۔جہاں خود مختار حکمراں یا سلطان حکمرانی کرتے
تھے اس علاقے کو دارالسلام کہا جاتا تھا اور جہاں غیر مسلم حکمران حکومت کرتے تھے اور
مسلمانوں کو ستایا جاتا تھا اسے دارالحرب یعنی جنگ کا مسکن کہا جاتا تھا۔
ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ
دارالسلام اور دارالحرب کی تقسیم علماء نے کی تھی نہ کہ قرآن نے یا پیغمبر نے۔قرآن
نے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے یعنی مسلمان، اہل کتاب اور کافرو مشرک، جن
کے پاس رہنمائی کے لئے کوئی صحیفہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی مذہب پر یقین کرتے
ہیں۔قرآن یا پیغمبر نے دنیا کو دارالسلام اور دارالحرب میں تقسیم نہیں کیا۔
وی ایچ پی کے انٹر نیشنل جنرل
سکریٹری اشوک سنگھل نے ہندوستانی مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہندوستان کے دارالامن
ہونے کا اعلان کریں ،یعنی امن کا مسکن جو نہ تو دارالسلام ہے اور نہ ہی دارالحرب ہے۔شری
سنگھل کی لاعلمی پر کوئی بھی صرف افسوس کر سکتا ہے یا انہیں اپنے کچھ مخبروں سے غلط
اطلاعات حاصل ہو تی رہی ہیں۔ علماء نے برطانوی حکومت کے دوران ایک مختصرمدت کے علاوہ
کبھی بھی ہندوستان کو دارالحرب نہیں مانا۔اس وقت بھی علماء اور مسلم رہنما اس پر متفق
نہیں تھے۔
ممتاز عالم شاہ ولی اللہ کے
صاحب زادے شاہ عبد العزیز جو خود بھی بہت بڑے عالم تھے نے برطانوی حکومت کے دوران ہندوستان
کے دارالامن ہونے کا اعلان کیا تھا اور ایک فتوی جاری کیا تھا کہ ہندوستانی مسلمان
برطانوی فوج میں ملازمت کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ سر سید احمد خان اور ان کے ماننے والوں
نے کبھی بھی ہندوستان کو دارالحرب نہیں سمجھا۔اسلام میں کوئی چرچ نہیں ہے اس لئے مختلف
علماء ایک مسئلے پر متعدد رائے دے سکتے ہیں۔
اصل میں ہندوستان کو کبھی
بھی دارالحرب نہیں کہا گیا اور دیو بند کے علماء نے صرف خلافت تحریک کے دوران اسے دارالحرب
کہا تھا جب ان میں سے کئی علماء افغانستان منتقل ہو گئے تھے اور وہاں پر راجہ مہیندر
پرتاپ کی قیادت میں ایک عارضی حکومت کا قیام کیا تھا۔اس عبوری حکومت کے صدرمہیندر پرتاپ
اور وزیر اعظم مولانا عبید اللہ سندھی تھے۔اس وقت ہندوستان کو دارالحرب کہا گیا اور
تمام مسلمانوں کے لئے یہ واجب ہو گیا تھا کہ وہ دارالسلام یعنی افغانستان میں ہجرت
کر جائیں اور برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کریں کیونکہ وہاں پر ایک مسلم شہنشاہ حکومت
کر رہا تھا۔
تاہم یہ سیاسی اعتبار سے نادانی
بھرا فیصلہ تھا اور یہ بڑی آفت ثابت بھی ہوا کیونکہ افغانستان کے شاہ نے برطانوی حکومت
کے دباؤ میں ان ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے یہاں سے نکال باہر کیا اورافغانستان سے
وسطی ایشیائی خطے میں فرار ہوتے وقت ہزاروں لوگوں کو جان گنوانی پڑی۔سوائے اس مختصر
مدت کے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا اعلان کبھی بھی نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ یہ بھی سمجھنا
ضروری ہے کہ قرون وسطیٰ کے ادوار میں علماء نے یہ اقسام بنائی تھی اور یہ جدید جمہوریتوں
پر لاگو نہیں ہوتی ہے۔یہاں تک کہ بش کے دور اقتدار میں امریکہ کو بھی علماء نے دارالحرب
نہیں کہا جبکہ اس نے دو مسلم ملکوں پر حملہ کیا تھا اور اسرائیل کو مدد اور بڑھاوا
دے رہا تھا تاہم امریکہ مسلمانوں کو بھی شہری مانتا ہے اور انکے سیاسی اور مذہبی حقوق
کی پوری طرح ضمانت دیتا ہے۔
قرون وسطیٰ کے دور کی یہ قسمیں
اس وقت کے علماء نے بنائیں تھیں جو آج کی جمہوری دنیا پر نافظ نہیں ہوتی ہیں۔ہندوستان
کی تو بات ہی چھوڑیے آج کوئی بھی ملک اس زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہاں تک کہ کئی لوگوں
کے نزدیک اسرائیل بھی دارالحرب کے زمرے میں نہیں آتا ہے کیونکہ اسرائیل نے بہت سے عرب
فلسطینی شہریوں کو بھی شہری ہونے کے حقوق دئے ہیں۔سنگھل صاحب اس طرح کے خطوط لکھنے
سے قبل ان کے حقائق جانچ لیں۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا
ہے کہ ہندوؤں کو کافر نہ قرار دیا جائے۔اگر مسٹر سنگھل نے ہندوستان میں مسلمانوں کے
ادب کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں معلوم چل جاتا کہ دارا شکوہ اور مظہر جانی جنان
جیسے کئی صوفی سنتوں نے ہندوؤں کو اہل کتاب مانا ہے،جیسے عیسائی اور یہودی آسمانی کتاب
والے مانے جاتے ہیں۔مظہر جانی جنان نے کئی دلچسپ مشاہدے کئے ہیں، اس سلسلے میں اپنے
ایک طالب علم کے خط کا جواب دیا ہے جس میں اس نے جانی جنان سے پوچھا تھا کہ کیا ہندوؤں
کا کافر مانا جا سکتا ہے۔
مظہر جانی جنان نے خط کے جواب
میں لکھا تھا کہ ہندوؤں کوکافر نہیں مانا جا سکتا ہے کیونکہ کافر وہ ہوتے ہیں جو حق
سے انکار کرتے ہیں اور ہندوؤں کے پاس ویدوں کے طور پر صحیفے ہیں جو اللہ کی طرف سے
نازل ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ہندو توحید یعنی ایک خدا میں
یقین رکھتے ہیں جو ہندو روایتوں میں نرگن اور نرنکار ہے یعنی بغیر صفات اور شکل کے
جو توحید کا سب سے عظیم تصور ہے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے کہا
کہ قرآن میں اللہ نے کہا ہے کہ ہم نے تما م قوموں میں اپنے رسول بھیجے پھر اللہ ہندوستان
کو کیسے بھول سکتا ہے۔اللہ نے ضرور ہندوستان میں نبیوں کو بھیجا ہوگا ،ہو سکتا ہے کہ
قابل احترام اعلیٰ مذہبی شخصیات رام اور کرشن اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہوں ۔دوسرے صوفی
سنتوں کا بھی خیال ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو ہندوستان بھی ضرور بھیجا ہوگا کیونکہ
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو بھیجا ہے اور
حالانکہ قرآن نے ان میں سے سبھی کے نام نہیں دئے ہیں۔بہت سے مسلم علماء کے نزدیک بدھ
بھی اللہ کے رسول تھے اور ان پر ایک کتاب بزاساف(جس کا ترجمہ عربی اور فارسی میں ہے)
میرے بچپن کے دنوں تک مسلم گھروں میں کافی مقبول ہوا کرتی تھی۔علامہ اقبال نے بھی رام
کو امام ہند کہا ہے، جو کسی بھی مسلمان کے ذریعہ رام کو دیا گیا سب سے عظیم احترام
ہو سکتا ہے۔اور کسی بھی طرح سے اگر کچھ لوگ ہندوؤں کو کافر سمجھتے ہیں تو قرآن مسلمانوں
کو ہندوؤں کے ساتھ پر امن طریقے سے بقائے باہمی کی اجازت دیتا ہے۔(دیکھیں آیت 109)
قرآن صرف ان کافروں کے ساتھ
جنگ کی اجازت دیتا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور انہیں ستاتے ہیں نہ کہ
تمام کافروں کے ساتھ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو مسلمانوں یا غیر مسلمانوں میں موجود
انتہاپسندوں کے ذریعہ پھیلائی گئی ہے کہ مسلمان کافروں کے ساتھ پر امن طریقے سے نہیں
رہ سکتے ہیں۔در اصل علماء نے کافروں کو بھی دو زمروں میں تقسیم کیا ہے ، حربی اور غیر۔
یعنی حربی کافر وہ ہیں جو جنگ کو پسند کرنے والے ہیں اور دوسرے جنگ کو نہ پسند کرنے
والے کافرہیں۔جہاں تک جنگ کو ناپسند کرنے والے کافروں کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کی
ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے ساتھ پر امن طریقے سے رہیں۔
یہ حوصلہ افزا تھا کہ جمعیۃ
علماء ہند نے مسٹر سنگھل کے خط کا جواب فوراً دیا اور اعلان کیا کہ برطانوی حکومت کی
مختصر مدت کے علاوہ ہندوستان ہمیشہ دارلامن تھا۔ان لوگوں نے کافروں کے بارے میں بھی
وضاحت پیش کی۔یہ بھی قابل غور ہے کہ دیو بندی علماء نے جناح کے دو قومی نظریے کی کبھی
بھی حمایت نہیں کی اور اس کی سخت مخالفت کی اور متحدہ قومیت کے تصور کی حمایت کی ۔یہی
نہیں اس وقت جمعیۃ کے صدر مولانا حسین احمد مدنی نے ایک کتاب’متحدہ قومیت اور اسلام‘کے
عنوان سے لکھی۔تقسیم کے بعد سے تمام مسلمان متحدہ اور سیکو لر قومیت کے تصور کی حمایت
کرتے ہیں۔یہاں تک کہ تقسیم کی حمایت مسلمانوں کی ایک اقلیت نے کی تھی جو کہ مسلمانوں
کی آبادی کی5فیصد سے بھی کم تھی۔
یہ بد قسمتی ہے کہ سنگھ پریوار
اب بھی ہندو راشٹر کی بات کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہندوستانی آئین میں ترمیم ہو اور
ہندو راشٹر کی حمایت میں اس کے سیکولر کردار کو ختم کر دیا جائے۔دراصل ہندوستان کے
تمام سیکولر شہریوں ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، بدھ،پارسی اور سکھوں کو چاہیے کہ وہ
مسٹر سنگھل کو خط لکھیں اور ان سے ہندو راشٹر کے تصور کے تردید کرنے اور اس پر اپنی
وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کریں ۔
یہ لوگ مسٹر سنگھل سے تمام
مسلمانوں اور عیسائیوں کی حفاظت اور ان کی محفوظ زندگی کی ضمانت کا بھی مطالبہ کر سکتے
ہیں کیونکہ یہ ان کے پریوار کے ممبر ہیں جو اقلیتی طبقے کے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔گجرات
میں دو ہزار مسلمانوں اور اڑیسہ میں چالیس سے زائد عیسائیوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا
گیا۔اور یہ اعداد شمار صرف دو فسادات کے ہیں۔آزادی کے بعد اس طرح کے سیکڑوں فسادات
ہندوستان میں ہو چکے ہیں اور مسلمان مشکل سے ہی خود کویہاں محفوظ سمجھتا ہے اور اب
اس جماعت میں عیسائی بھی شامل ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ہندوستان جیسی
سیکولر جمہوریت میں سبھی لوگوں کو غیر مشروط زندگی جینے کا حق ہے۔شاید مسٹر سنگھل کا
کبھی سیکولر جمہوری کلچر میں یقین ہی نہیں تھا اور اسی لئے وہ ہندوستان میں اقلیتوں
کے رہنے کے لئے شرطیں لگانا چاہتیں ہیں۔پورا سنگھ پریوار اس کام میں لگا ہوا ہے اور
اس سلسلے میںیہ آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔سیکولر اور جمہوری ہندوستان میں رہنے کے لئے سوائے
قانون کے کوئی بھی شرطیں نہیں لگا سکتا ہے اور اس قانون پر سب کا عمل لازمی ہوگا ایسا
نہ کرنے والے پر قانون اپنی کارروائی کرے گا۔ قانون توڑنے والے کو صرف سزا دی جا سکتی
ہے لاسے ایک شہری ہونے کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان ہمیشہ ہی کئی ثقافتوں
کا مسکن تھا اور مجموعیت والا ملک تھا اور یہی اس کی طاقت بھی تھی۔عصر حاضر میں کچھ
انتہا پسندوں کے علاوہ تمام ہندوستانی عوام ہمیشہ روادار رہے ہیں۔ یہ برطانوی حکومت
تھی جس نے ہمیں تقسیم کیا اور پہلی بار ایک سیاسی زمرہ بنایا جسے فرقہ واریت کہتے ہیں۔ہم
اس رجحان سے اس سے قبل واقف نہیں تھے۔اب ہندوستانی سیاستدانوں کا ایک حصہ اپنے سیاسی
وجود کے لئے اس حربے کا استعمال کر رہے ہیں۔
مجھے مسٹر سنگھل کے لئے ایک
بار پھر اس بات کا اعادہ کرنے دیں کہ مسلمان اور دوسری اقلیتوں نے ہمیشہ ہندوستان کو
دارالامن مانا ہے اور انکی وفاداری اس عظیم ملک کے ساتھ ہے جو کہ ان کا وطن ہے۔ اور
اس یقین سے وہ کبھی پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔اور اس مضمون کے مصنف کو بھی پختہ یقین
ہے کہ تما م انسان ،چاہے ان کا مذہبی عقیدہ یا ثقافتی اقدار کچھ بھی ہو انہیں پر امن
طریقے اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ہماری سیاست کبھی بھی مذہب، ذات یا زبان پر
مبنی نہیں ہونی چاہیے۔یہ صرف ہمارے مشترکہ مسائل پر مبنی ہونی چاہے۔بد قسمتی سے ہمارے
سیاستداں مذہب، ذات اور زبان کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور ہمارے
اتحاد کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ہندوستان کے لوگوں کو اس طرح کی سیاست کو مسترد کر دینا
چاہیے۔
مصنف اسلامی اسکالر اور سینٹر
فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکو لرزم، ممبئی کے سر براہ ہیں۔
انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن،
نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
URL: https://newageislam.com/urdu-section/india-dar-ul-aman-/d/6179