اصغر علی انجینئر (انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
آر ایس ایس سے منسلک ایک
تنظیم جن پروبودھنی کے ذریعہ مجھے پونے میں
فرقہ وارانہ تششد بل پر بولنے کے لئے مدعو
کیا گیا جسے مستقبل قریب میں پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کی تجویز ہے۔ یقینا میں اس
تنظیم کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا ہوں، چونکہ ہم نے اس بل کے خلاف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے مختلف
مقامات پر اس کے بارے میں بات کرنا شروع کیا ہے، میں نے فوری طور پر اس دعوت قبول کر
لیا۔ بعد ازاں میں نے پونے میںمیرے دوست اور
سماجی کارکن مسٹر انور راجن نے بتایا کہ یہ تنظیم آر ایس ایس سے منسلک ہے لیکن آپ
کو آنا چاہئے اور اس میں بولنا چاہئے۔ یہ اچھا مشورہ تھا۔
میں تنظیم کے بلاوے پر گیا
اور اس کے اعلی رہنماؤں اور طالب علموں سمیت 200 افراد کے ایک گروپ کے سامنے اس بل
پر خطاب کیا۔ جن پروبودھنی ایک بہت بڑی تنظیم ہے جو طالب علموں، اساتذہ، اور ان لوگوں
کو جو متعدد مقابلہ کے امتحانات کے امیدوار جیسے آئی اے ایس، آئی پی ایس یا داخلے کے امتحانات میں شرکت کرتے
ہیں تربیت دیتی ہے۔ ہزاروں طالب علم اس تربیت سے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان کے
پاس وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو بھی چھوٹے پیمانے پر اسی طرح کی کوشش کرنی
چاہئے جس کے لئے وسائل طبقے کے اندر سے ساتھ ہی ساتھ حکومت کے منصوبوں سے مدد حاصل
کر جمع کرنا چاہئے۔
میں نے بی جے پی اور آر ایس
ایس کے گروپوں کے درمیان سے اس بل کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے کھل کر
بات کی۔ ان لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ بل ہندوئوں کے مخالف ہے جو ہندوئوں کے استحصال کے
لئے ہے اور جس طرح کئی دلت اونچی ذات کے ہندوؤں کے خلاف چھوا چھوت قانون کا استعمال
کرتے ہیں اس طرح یہ بل مسلمانوں کے ذریعہ ہندوؤں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ میرے
پریزنٹیشن کے بعد کئی سوالات اور پوائنٹس اٹھائے
گئے۔ اگر گجرات کی طرح فسادات نہیں ہوئے ہوتے تو اس بل کی ضرورت نہیں ہوئی ہوتی۔
میں نے انہیں 1961 کے جبل
پور فسادات کے بعد سے ہندوستان کی آزادی کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ بیان
کی اور انہیں بتایا کہ ان فسادات میں عام طور میں قصورواروں کو سزا نہیں دی گئی اور
نہ ہی ان فسادات کو شروع کرنے والوں پر کوئی ذمہ داری عائد کی گئی۔ میں نے انہیں
بتایا کہ میں نے ذاتی طور پر ان فسادات
کی تحقیقات کی ہے جس میں 35 ہزار سے زائد معصوم افراد ہلاک ہوئے اور پایا کہ چند کو
چھوڑ کر انتظامیہ اور پولیس پورے معاملے میں جانبدار رہی ہے۔ نہ صرف یہ میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح 1987 میں
ہاشم پورہ، میرٹھ میں، پی اے سی کے کمانڈنٹ ترپاٹھی اور ان کے ساتھیوں نے 54 لوگوں
کو ان کے گھروں سے نکالا، سبھی 20 سے 25 سال کی عمر کے درمیان تھے، اور ان کو بے رحمی
سےگولی مار دی اور ان کی لاشوں کوہنڈن نہر
میں پھینک دیا جن میں سے دو اس کہانی کو بتانے کے لئے زندہ بچ گئے تھے۔ لیکن ان میں
سے ایک کو بھی ابھی تک سزا نہیں دی گئی ہے۔
لیکن ان تمام فسادات میں ریاستی
حکومتیں براہ راست ملوث نہیں تھیں اور نہ ان فسادات کو اکسانے میں کوئی کردار ادا کیاتھا۔
لیکن پہلی بار گجرات میں ہوا جہاں کی ریاستی حکومت فسادات کو اکسانے میں براہ راست
ملوث تھی۔ اور پوری انتظامیہ اور پولیس فورس،
مرضی سے یا بغیر مرضی کے ان فسادات کو بڑھانے میں اور مدد کر نے میں ملوث تھی (چند
باعزت لوگوں کو چھوڑ کر)۔ جیسا کہ کچھ وشو ہندو پریشد کے کارکنوں نے تہلکا کے ذریعہ
کئے گئے ایک اسٹنگ آپریشن میں دعوی کیا کہ مسٹر نریندر مودی نے ان کو تحفظ فراہم کیا۔
اس پس منظر میں یہ بل ضروری
ہو گیا تھا۔ اس بل کے تین مقاصد ہیں: سب سے پہلے، فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لئے
وقت پر احتیاطی اقدامات کرنا؛ دوسرے، اگر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں
تو اس میں ملوث لوگوں کی ذمہ داری طے کی جا سکے اور قانون کے تحت انہیں سزا دی جا سکے
اور تیسرے ہلاک ہوئے لوگوں اور تباہ ہوئی املاک
کے لئے مناسب معاوضہ طے کیا جا سکے۔
آج ان پر من مانے طریقے سے
کام کیا جاتا ہے۔ یہ مکمل طور پر وزیر اعلی پر منحصر ہےکہ وہ کتنی رقم منظور کرتا ہے۔
کچھ صورتوں میں ہلاک ہونے والوں کے لئے صرف ایک یا دو لاکھ روپے دئے جاتے ہیں جبکہ بعض صورتوں میں یہ 5 لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔ جو لوگ
سابر متی ٹرین میں آگ لگنے کے حادثے میں ہلاک ہوئے انہیں مسٹر مودی نے 5لاکھ روپئے دئےلیکن جو لوگ اس کے بعد ہوئے فسادات میں مارے
گئے انہیں صرف دو لاکھ روپئے دئے گئے۔ یہ صریحاً امتیاز تھا۔ اور مودی حکومت نے جن
لوگوں کے مکانات تباہ ہو گئے تھے انہیں بہت کم صرف 500 روپئے ہی معاوضے دئے۔ یہ بل ہلاک ہونے والوں کے لئے کم از
کم 15 لاکھ روپے کا معاوضہ طے کرتا ہے اور
تجویز ہے کہ پرائس انڈیکس میں اضافہ کے ساتھ اس میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اسی طرح
یہ امداد اور باز آباد کاری کے عمل کا بھی
دھیان رکھتا ہے جس کا فیصلہ مرکزی یا ریاستی اتھارٹی کے ساتھ ہی ساتھ مناسب اقلیتی
نمائندگی کے ساتھ سول سوسائٹی کرتی ہے۔
اس کے بعد ایک طویل بحث ہوئی
اور کئی سوالات اٹھائے گئے اور بل کو ہندوؤں کے خلاف اور مسلمانوں کے حق میں بتایا
گیا۔ میں نے ان کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ یہ کہنا غلط ہے
کہ یہ ہندوؤں کے خلاف ہے۔ اصل میں یہ بل ان لوگوں کے خلاف ہے جو تشدد کرتے ہیں (وہ
چاہے ہندو یا مسلمان یا کسی دوسرے گروپ کے ہوں) اور پہلی بار اس بل کے ذریعہ غیر جانب
دارانہ طریقے سے تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کی ذمہ داری مرکزی یا ریاستی اتھارٹی میں
اقلیتوں کی مناسب نمائندگی کے ذریعے کی جائے گی۔ تو اسےکس طرح ہندو مخالف کہاجا سکتا
ہے؟ یہ تشدد کے مرتکب یا جو اس کے لئے اکساتے ہیں کا مخالف ہے۔
تاہم میں یہی کہہ سکتا ہوں
کہ میں نے ان کے تمام سوالات کا جواب دیا جو کہ بہت زیادہ تھے لیکن یہ دعویٰ نہیں کر
سکتا ہوں کہ ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا کیونکہ وہ سبھی آر ایس ایس سے منسلک تنظیم سے
تعلق رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ بہت سے دیگر افراد بھی تھے - مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر
مسلمان جو اس بحث میں دلچسپی رکھتے تھے۔
تاہم دوپہر کے کھانے کے بعد
جو کچھ ہوا وہ میرے لئے زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔ منتظمین نے مجھ سے درخواست کی کہ دوپہر
کے کھانے کے بعد دو گھنٹے لوگوں کے ایک چھوٹے گروپ کے ساتھ بات چیت کے لئے دے دیں اور
میں نے اس کے لئے اجازت دے دی۔ اس گروپ میں 30 لوگ تھے اور خیال یہ تھا کہ کس طرح ہندوستان
کو فرقہ وارانہ فسادات سے آزاد کرایا جائے
اس پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ جن پروبودھنی کے ایک ممتاز رکن مسٹر اروند بال نے چند
تجاویز کے ساتھ مباحثہ کا آغاز کیا جو مجھے
غیر متنازعہ لگیں۔
ان کی تجاویز میں سے ایک یہ
تھی کہ ثقافتی سرگرمیوں ڈرامہ، موسیقی کو پیش کرنے میں ہندو اور مسلمان دونوں ایک ساتھ
مل کر حصہ لیں۔ دو، 15اگست اور 26 جنوری کے
قومی تہوار کو ایک ساتھ مل کر منایا جائے۔ سوم، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ہر ہاؤسنگ
سوسائٹی میں 5 سے 10 فیصد رہائش مسلمانوں کودی جائے تاکہ وہاں ہندوؤں اور مسلمانوں
کے درمیان بہتر رابطے قائم رہیں۔
انہوں نے یہ بھی تجویز پیش
کی ہے کہ سیکولرازم کی ضرورت ہے کہ ہم مذہب اور مذہبی رسومات کی تنقید کریں جیسا کہ
حامد دلوئی نے کیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ سیکولر ازم کے استحکام کو یقینی بنانے
کے لئے ضروری ہے۔ میں نے اس پر یہ کہہ کر جواب دیا کہ میں اپنے دوست اروند بال کی طرف
سے پیش تجاویز کو خیر مقدم کرتا ہوں سوائے قدامت پسندی کے جیسا کہ حامد دلوئی نے کیا۔
قدامت پسندی کا فرقہ واریت کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جناح آزاد خیال تھے اور
یہاں تک کہ غیر مومن تھے اور اس کے باوجود انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا جبکہ
مولانا حسین احمد مدنی، صدر جمیعیتہ علماء ہند قدامت پسند تھے اس کے باوجود انہوں نے
تقسیم ملک کی مخالفت کی اور متحد جمہوری سیکولر ہندوستان کو جواز پیش کیا۔ ہمیں جمہوریت
کی روح کے مطابق قدامت پسندگی کو تسلیم کرنا چاہئے جیسا کہ جمہوریت میں سب کو اپنے
عقیدے پر اپنے طریقے سے عمل کرنے کا حق حاصل ہے اور جمہوریت کی روح کے مطابق ہمیں دوسروں
کو اسی طرح قبول کرنا ہوگا وہ جیسا ہے اور دوسروں کو کیسا ہونا چاہئے کوئی اس کا حکم
نہیں دے سکتا ہے۔ کیونکہ یہ عدم برداشت اور تنازعات کی جانب لے جائے گا۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے
کہ قدامت پسندی اور تنگ نظری کو قبول کرنا چاہئے۔ یقینی طور پر نہیں لیکن اس کے خلاف
سمجھانے بجھانے، عقل اور مناسب حکمت عملی کے ذریعے اس کے خلاف جدوجہد کی جانی چاہئے۔
کسی کوفلسفے کی پرستش نہیں کرنی چاہئے حالانکہ فلسفہ قدرت کا بہر قیمتی تحفہ ہے۔ فلسفہ
ایک زریعہ ہے، بہت ہی اہم ذریعہ ہےلیکن مقصد نہیں ہے۔
فسادات سے آزاد ہندوستان کو
یقینی بنانے کے لئے نظام تعلیم سب سے اہم ذریعہ ہے۔ آج ہمارا تعلیمی نظام قدر کے تئیں
غیر جانبدار ہے اور مقابلہ، ذات برادی اور
فرقہ واریت پیدا کرنے والا ہے۔ یہ مبصر ذہن
نہیں پیدا کر سکتا ہے لیکن اس کے مطابق پیدا کرتا ہے۔ یہ تاریخ کو مسخ کرتا ہےاور مندر
مسجد تنازعہ کو بر قرار رکھتا ہے۔ ہم اورنگزیب کو تو پڑھاتے ہیں لیکن داراالشکوہ کو
کبھی نہیں جو اسلام اور ہندو دونوں مذہب کے بڑے عالم تھے۔
ہم اب بھی شوا جی اور افضل خان
کے درمیان جنگ کو پڑھاتے ہیں اور شوا جی کو مسلم مخالف اور اورنگ زیب کو ہندو مخالف
کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ حقیقت کو مکمل طور پرمسخ کرناہے۔ شواجی نے افضل خان کواس
لئے ہلاک نہیں کیا تھا کیونکہ وہ ایک مسلمان تھے بلکہ وہ ان کے سیاسی حریف تھے اور
جب انہوں نے محسوس کیا کہ انہون نے اس ڈر سے اسے ہلاک کر دیا ہے کہ (افضل خان) اسے
مار ڈالتا تو انہوں نے افضل خان کی مزار (مقبرہ) کی تعمیر کے لئے زمین کا ایک بڑا حصہ
دیا اور کوئی بھی حکومت کی زمین کے ریکارڈ کے ذریعے یہ ثابت کر سکتا ہے۔
ایسی مسخ شدہ تاریخ کے درس
و تدریس کو بند کیا جانا چاہئے اور تاریخ میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہندو مسلم اتحاد اور
باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کو ثابت کرتا ہے۔ یہ ایک قوم کو تعمیر کرنے کا طریقہ نہیں
ہے۔ ہمارا ملک اتنا عظیم، متنوع اور کثیر ثقافتی ہے کہ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے، دوسروں
کو ساتھ لے کر چلنے پر زور دینا قوم کی تعمیر کے لئے واحد راستہ ہے اور اگر ہندوستان ایک قوم ہے تو ہمیں ہر
ایک چیز میں بطور ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ بطور ہندوستانی شہری بولنا چاہئے۔ ہر چیز میں اگر ہم صرف ہندو اور مسلمان کے طور پر
بولتے ہیں تو، اس کا مطلب ہے کہ ہم ہندوستان کو ایک قوم کی حیثیت سے نہیں بول رہے ہیں،
ہم ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس نہیں کر رہے ہیں، ہاں، کچھ باتیں ہیں جن میں ہم ہندو
اور مسلمانوں ہیں لیکن انہیں دور رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں شریک مرکوز ہونی چاہئے
لیکن ایک دوسرے کو کاٹنے والی نہیں ہونی چاہئے۔
بہت سی چیزیں ہیں جن پر ہمیں
غور و فکر کرنی چاہئے جن میں شامل ہے، کیا اسلام اور ہندو مذہب ایک دوسرے سے متصادم
ہیں وغیرہ۔ چاہے مذاہب کے درمیان تصادم یا ہمارے اہم اور ہماری سیاست ہو صوفی سنتوں
نے ایسی بہت سی باتیں بتائیں ہیں جو دونوں مذاہب کے درمیان مشترک ہیں، لیکن ان سب پر
غور و فکر کی ضرورت ہے اور اس طرح کے مباحثے
کے لئے ہم پھر مل سکتے ہیں۔ کیونکہ مجھے ممبئی واپس جانا ہے امید ہے کہ ہم اس بات چیت کو
جاری رکھنے کے لئے دوبارہ ملیں گے۔
مصنف اسلامی اسکالر اور سینٹر
فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم، ممبئی کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/asghar-ali-engineer-on-riot-free-india/d/6161
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/india-free-riots-/d/6869