اصغر علی انجینئر
(انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
مجھے کچھ دنوں سےملیشیاء میں
ان دنوں جاری تنازعہ سے متعلق سوالات موصول
ہو رہے ہیں۔ملیشیاء میں ملئے مسلمان کیتھولک
عیسائیوں کے ذریعہ اللہ لفظ کے استعمال پر
اعتراض کر رہے ہیں۔ملئے مسلمانوں کا خیال ہے کہ صرف و ہی لفظ اللہ کا استعمال کر سکتے
ہیں، عیسائی ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔مقدمہ ملیشیاء کے ہائی کورٹ میں لڑا گیا اور ہائی
کورٹ نے بھی عیسائیوں کو لفظ اللہ کے استعمال
کی اجازت دی۔ تاہم ملیشیاء کی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو وقتی طور پر معطل کر
رکھا ہے۔ایسا اس لئے نہیں کہ حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے سے انحراف کرنا چاہتی ہے بلکہ
شدید جزبات کے سبب تنازعہ سیاسی اعتبار سے قابو سے باہر ہو گیا ہے۔
رومن کیتھولک لوگوں نے اپنے
ملئے زبان کے اخبار ‘ہیرالڈ’ میں خدا کا ترجمہ اللہ کر دیا اور اس سے یہ تنازعہ کھڑا
ہو گیا۔ کافی دنوں سے تشدد جاری ہے اور کچھ
دنوں قبل تین چرچوں پر حملے کئے گئے اور ان
میں سے ایک کو شدید نقصان پہنچا۔ مذہبی انتہاپسند
دوسروں پر اپنے خیالات عائد کرنے کے لئے پر عزم ہیں۔ملیشیاء ہندوستان کی ہی
طرح کثیر مذہبوں والا معاشرہ ہے اور یہ ملک زیادہ ترپر امن رہا ہے سوائے ۶۰ کی
دہائی کے اخیر میں جب ملئے اور چینیوں کے درمیان تشدد بھڑک اٹھا تھا۔
لیکن ایک بار پھر ملئے اور عیسایئوں یا ملئے اور ہندوئوں
کے درمیان تعلقات تلخ ہو گئے ہیں۔تمام کثیر
مذہب والے معاشرے میں کم یا زیادہ درجے کے
بین فرقہ یا بین مذاہب کشیدگی کا تجربہ ہوتا
ہے۔ملیشیاء میں تمام ملئے مسلمان ہیں اور ملک کی آبادی کا ۶۰ فیصد
ہیں۔ملیشیاء میں ملئے اور مسلمانوں ایک دوسرے
کے مترادف بن چکے ہیں۔جیسا کہ معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ مساوات اور انصاف کی امید
میں اسلام قبول کرتا ہے ویسا ہی ملیشیاء میں
بھی ہوا، غریب طبقے نے اسلام قبول کیا اور
حال فی لحال تک ملئے لوگ غریب اور پسماندہ تھے۔اب ان میں سے زیادہ تر تعلیم یافتہ اور
اقتصادی طور پر بہتر ہو گئے ہیں۔
ملئے مسلمان جو عیسایئوں کے
ذریعہ اللہ لفظ کے استعمال پر احتجاج کر رہے
ہیں ان کی دلیل ہے کہ کیتھولک عیسائی مشنریوں کی
کوششوں کی وجہ سے عام ملئے مسلمان میں
الجھن پیدا ہو سکتا ہے اور وہ عیسائی مذہب
قبول کر سکتے ہیں اور وہ ملئے مسلمانوں کے اس الجھن کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ان کا اپنا
جواز ہے لیکن مسئلے کو آپسی بات چیت اور سمجھ
داری سے حل کرنا چاہیے۔ لیکن پریشانی یہ ہے کہ کچھ سیاسی لوگ اس تنازعہ کو اپنے
ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا چاہیں گے۔
اصل میں وہ لوگ جو عیسائیوں
کے ذریعہ لفظ اللہ کے استعمال پر اعتراض کر رہے ہیں انکے اعتراض کی بنیاد کمزور ہے۔جیسا کہ اللہ ایک
ہے اور ہم سب کو پیدا کرنے والا ہے اس لئے اللہ پرکسی
ایک مذہبی یا لسانی فرقہ کی اجارہ داری نہیں
ہو سکتی ہے۔مکہ میں اسلام کے ظہور سے قبل عربی زبان میں اللہ لفظ کا استعمال پہلے سے ہی تھا۔ جیسا کہ مولانا آزاد نے ترجمان
القرآن میں لکھا ہے کہ اللہ لفظ قبل از اسلام لسانی ئیل جیسے جبر ئیل یا اسرافئیل سے لیا گیا ہے۔ہیبرو زبان
میں بھی الوہ یا الٰہ لفظ ہے جس میں ال جوڑ
دینے سے عربی میں لفظ اللہ بن گیا اور جسے پروردگار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
دراصل اگر غیر مسلمان گاڈ یا ایشور کے لئے اللہ لفظ استعمال کر رہے ہیں تومسلمانوں کو اس کا استقبال
کرنا چاہیے۔کوئی کیسے دوسروں کے ذریعہ اللہ لفظ کے استعمال پر اعتراض کر سکتا ہے؟کوئی
بھی جو عربی سیکھتا ہے اور خدا کے بارے میں
باتیں کرتا ہے وہ ضرور اللہ لفظ کا استعمال کرے گا۔اردن، مصر اور لبنان وغیرہ میں رہنے والے عیسائی عرب کثرت سے اللہ لفظ کا استعمال
کرتے ہیں۔کوئی اس پر اعتراض بھی نہیں کرتا ہے۔کم از کم میں اس بات کو نہیں جانتا کہ
کسی مسلمان عرب نے کبھی اس پر اعتراض کیا ہو۔
۹۰
کی دہائی کے اخیر میں مسلمان عیسائی مکالمے کے سلسلے میں
لبنان میں تھا ہم لوگوں نے طے کیا کہ ہم لوگ جمعہ کو ایک مسجد اور اتوار کو ایک چرچ
کا دورہ کریں گے۔ہم مسلمانوں نے جمع کےدن نماز اداکی اور ہمارے عیسائی ساتھی تب تک
ایک جگہ پر بیٹھے رہے جب تک نماز مکمل نہیں ہو گئی اور ہم لوگوں نے اس مسجد کے امام
کے ساتھ بین فرقہ مسائل پر بات چیت کی۔اس طرح ہم مسلمانوں نے چرچ میں عبادت ہوتے دیکھا جبکہ ہماری عیسائی ساتھی اس میں شامل ہوئے۔
چرچ کا پادری اپنےعربی خطبہ
میں صرف لفظ اللہ کا استعمال کر رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں تسبیح تھی جیسے ایک مسجد
کے امام کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔اگر ہمارے اور پادری کے درمیان ایک پردہ ہوتا تو مجھے
محسوس ہوتا کہ مسجد میں امام صاحب خطبہ دے رہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے درمیان
مذہبی اختلافات تھے لیکن عربی زبان نے ہمیں
ایک ہونے کا احساس کرایا۔
جیسا کہ میں اکثر کہتا ہوں
کہ کوئی بھی زبان کسی بھی مذہب سے قبل ہی وجود میں رہتی ہے نہ کہ مذہب پہلے ہوتا ہے
اور زبان کا وجود بعدمیں ہوتا ہے۔مذہب اس زبان
کو استعمال کرتا ہے جو پہلے سے ہی موجود ہوتی ہے۔ایک سے زیادہ مذہبی فرقے ایک ہی زبان
کا استعمال کر سکتے ہیں اور دونوں مذہب کی اصطلاحات یکساں محسوس ہو سکتی ہیں۔دراصل
لبنان میں عیسائی اپنی مذہبی رسومات عربی میں ہی ادا کرتے ہیں اور یہ عیسائی لوگ ہی
ہیں جنہوں نے جدید عربی زبان کی لغت المنجد تیار کی اور جس سے جدید عربی زبان کے اہل علم مستفیض ہوتے ہیں۔
ہندوستان میں بھی بڑی تعداد میں ہندوئوں نے عربی اور فارسی زبان سیکھی
جو کہ عدالت کی زبان تھی اور وہ روانی سے فارسی
بولتے تھے یہاں تک کہ چندربھان برہمن جیسے لوگوں نے تو فارسی میں شاعری کی ہے۔اردو کے کئی اعلیٰ درجےکے شاعر تھے
اور آج بھی کئی ہیں جو ہندو ہیں اور اپنی شاعری میں خدا اور اللہ جیسے الفاظ استعمال
کرتے ہیں۔کوئی اس پر کس طرح اعتراض کر سکتا ہے۔
اور جہاں تک ملئے مسلمانوں
کے خدشہ کہ عیسائیوں کے ذریعہ اللہ لفظ کے استعمال سے ملئے مسلمانوں میں الجھن پیدا
ہو گی اور وہ عیسائیت کو قبول کر سکتے ہیں، ایسے خدشہ کی کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔جو
لوگ پختہ یقین کے بغیر مذہب پر عمل کرتے ہیں
وہ اس خدشے کو جائز ٹھہرا سکتے ہیں۔اور جیسا کہ مندرجہ بالا سطروں میں ذکر کیا گیا کہ ملئے مسلمانوں کی شناخت اور وجود
اسلام پر مبنی ہے اور ملئے اور مسلمان ایک دوسرے کے مترادف بن گئے ہیں۔ایسے میں کیسے
اس طرح کے خدشے کو جائز کہا جا سکتا ہے۔
اسی طرح جب ایک ملئے مسلمان
نےکچھ سال قبل عیسائی مذہب کو قبول کر لیا تھا تو
ایسا ہی واویلا مچا تھا اور شرعی عدالت نے اسے سزا دی اور اسے واپس اسلام میں
داخل ہونا پڑا، اس کے باوجود اس خدشے کو کیسے جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد
میں لوگ عیسائی مذہب کو قبول کر سکتے ہیں۔اور آج کے جمہوری معاشرے میں کسی کو قانون
کے خوف کے سبب اپنا مذہب تبدیل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔اگر کوئی اپنا مذہب چھوڑ
کر دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو یہ معاملہ اللہ اور اس شخص کے درمیان ہے۔اس طرح کے
مذہبی معاملات میں کوئی شخص اللہ کو جواب دہ
ہے نہ کہ کسی انسان کو۔
تاہم مسئلہ مذہبی نہ ہوکر
سیاسی ہے۔اکثریت آبادی یہ خدشہ محسوس کرتی ہے کہ
وہ اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی اس لئے وہ
مذہبی تبدیلی پر سخت اعتراض کرتے ہیں۔ہندوستان میں ہندوتو طاقتیں بی جے پی کی
حکومت والے صوبوں میں ایسا قانون بنا رہی ہیں
جو ہندوئوں کو عیسائیت یا اسلام میں داخل ہونے سے روکے اور کسی عیسائی یا مسلمان
کے ہندو ہونے پراستقبال کرے۔اس طرح سیاسی مفاد اصل مسئلہ ہے نہ کہ مذہبی تبدیلی۔ایک
حقیقی جمہوری معاشرے میں جمہوری اور بنیادی
حقوق معنی رکھتے ہیں نہ کہ اکثریتی فرقہ میں
یا اس سے باہر مذہبی تبدیلی معنی رکھتی ہے۔یہ کسی فرد کا اپنا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے
کہ کس مذہب کو اختیار کرے اور کس مذہب کو چھوڑ دے۔اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہمارے جمہوری
حقوق بہت خطرے میں ہوں گے۔
اور جیسا کی کہ دائیں بازو
کی طاقتیں اور انتہا پسند بغیر بات کے ایک بڑامسئلہ کھڑا کرتے ہیں تاکہ اقلیتوں کو لیکر خوف پیدا کر سکیں اور ملیشیاء کے
دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے اسی طرح کے تنازعہ کو پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔اور جیسا
ہندوستان میں جب بی جے پی نے رام جنم بھومی مندر کے تنازعہ کو اٹھایا تو نر سنگھ رائو
کی قیادت والی کانگریس حکومت نے بابری مسجد کو ڈھانے کی اجازت دی۔ملیشیائی حکومت بھی خوف زدہ ہے
اور وقتی طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے کو لاگو کرنے سے ڈر رہی ہے۔
کوئی بھی کثیر مذہبی یا کثیر
ثقافتی جمہوریت مثالی خیال میں کام نہیں کرتی
ہے۔یہاں تک کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک بھی بین مذہبی کشیدگی کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔فرانس
میں اکثر افریقی مسلمان اور گورےفرانسیسیوں کے درمیان کشیدگی رہتی ہے۔اور یہ مسئلہ
اتنا مذہبی نہیں جتنا کہ اقتصادی اور سیاسی ہے اور دائیں بازو کی طاقتیں ہی اس کے پیچھے
کار فرما ہیں۔
حال ہی میں سرکوزی کی قیادت
والی فرینچ حکومت، جو نظرئے کے اعتبار سے دائیں بازو کی حکومت ہے۔اس حکومت نے برقع پر پابندی
عائد کی ہے اور جو کوئی بھی اسے پہنے گا اس
پر ۷۵۰
یورو جرمانا لگانے کی تجویز ہے جو ایک بڑی رقم ہے۔ کس کو
کیا پہننا چاہیے اور کیا نہیں یہ طے کرنا ایک اعلیٰ جمیوریت کے لئے مضحکہ خیز ہے
۔فرانس کی دائیں بازو کی حکومت نے برقع
کی مذمت ایک جیل کے طور پر کی ہے۔اور اگر یہ ہے بھی تو یہ حکومت کا کام نہیں ہے کہ
وہ لباس کی نوعیت طے کرے۔
تاہم ،بائیں بازو کے سوشلسٹ
اس طرح کی پابندی کی مخالفت کرتے ہیں اگرچہ وہ بھی برقع کو بہت ناپسندیدہ سمجھتے ہیں لیکن اس پر پابندی
لگانے کے لائق نہیں سمجھتے ہیں۔اس طرح یہ سیکولرزم نہیں ہے جو خطرے میں ہے جیسا کی فرانس کی حکومت محسوس کرتی ہے اور اپنے
عمل کے لئے جواز پیش کرتی ہےبلکہ ان کی اپنی
سیاسی طاقت خطرے میں ہے۔جیسے کوئی مذہب کچھ انتہاپسندوں کے اعمال کی وجہ سے خطرے میں
نہیں ہو سکتا ہے اسی طرح سیکو لرزم بھی صرف
اس لئے خطرے میں نہیں ہو سکتا ہے کہ کچھ خواتین برقع پہنتی ہیں اس کے باوجود ہم دیکھتے
ہیں کہ فرانس کی حکومت کس طرح برقع کا خوف پیدا کر رہی اور کیسے اس مسئلے سے نمٹ رہی ہے۔
کثیر مذہبی ساخت والے کئی
ملکوں میں مذہبی اکثریتی طبقے کی دائیں بازو
کی طاقتیں کامیابی کے ساتھ جائز باتوں کو دبا رہی ہیں۔اعتدال پسند لوگوں کو عوامی ہیجان
سے خاموش کیا جا رہا ہے۔اس موقع پر سول سوسائٹی کو اپنا رول ادا کرنے اور روشن خیال پالیسیوں کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔زیادہ
تر اعتدال پسند دانشوروں کے پاس یا تو وقت نہیں یا اس مسئلے کا گہرائی سے مطالعہ کرنے میں دلچسپی
نہیں ہے اورپرو پگنڈہ کا شکار ہو گئے ہیں۔
ہمیں عوامی دانشوروں کی ضرورت
ہے جوحق کی آواز بلند کر سکیں اور اپنی ساکھ
اور یہاں تک کہ اپنے کیرئر کو خطرے میں رکھ
کر عوام کی حمایت کر سکیں۔ہمارے زیادہ تر معتدل
دانشوروں کی دلیل ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے
میں کیوں زیادہ پریشان ہوں اور انتہا پسند طاقتوں
کی راہیں ہموار کریں۔ہمیں بر ٹرانڈ رسیل، جین پال سارتے یا نوم چومسکی کی طرح
اپنے یقین کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقتدار کی بے خوف تنقید کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔اس یقین
کا کیا مطلب جو نتائج سے قطع نظر آپ کو بولنے کی ترغیب نہ دے؟ تنازعہ چاہے اللہ کےبارے
میں ہو یا برقع یا صیہونیت کے جرم یا تقلید
پسندی کی سختی ہو۔ وہ اکیلے جمہوریت کی دفاع کر سکتے ہیں۔
سیکولر پرس پیکٹیو، والیوم۔۱۳، نمبر۔۱، جنوری ۱۶ تا۳۱، ۲۰۱۰
سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم، ممبئی
بشکریہ۔ ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/can-allah-be-monopolised-by-any-community?/d/2388
URL: