تیستا سیتلواڑ
17 مئی ، 2013
فرقہ واریت مخالف تحریکوں میں سر گرم طور پر جدوجہد کرنےوالے قابل اعتماد مشیرڈاکٹر اصغر علی انجینئر تقریباً 3 ماہ تک صاحب فراش رہنے کے بعد آخر کار 14 مئی 2013 کی صبح اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔اپنے 74 سال کے دور حیات میں انہوں نے ایک مثالی ہمت اور قوت ارادی کے ساتھ زندگی گزاری ۔ اب وہ اپنے ترقی پسند مصنّفین کی تحریک کےہمنوا علی سردار جعفری اور دیگر اراکین کے ہمراہ مغربی سانتا کروز کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہےہیں۔
انقلابی تصورات کی اختراع کرناتو آسان ہے، لیکن ان پر عمل کرنانہایت مشکل کام ہےاورذاتی زندگی میں انقلابی نظریات کےساتھ زندگی گزارنا کچھ زیادہ ہی مشکل کام ہے، کیونکہ اس دوران سماج اور خاندان کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن معروف دانشور اصغر علی انجینئر صاحب نے یہ کام کر دکھایا۔ ان کےبیٹے عرفان نے ان کے اس عمل کو جاری و ساری رکھااور ان کی شریک حیات سندھیا نے ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھاملا کر کام کیا۔ اصغر صاحب نے سندھیا کوحتمی طور پر تحفظ فراہم کرایا اور اسے یقین دہائی کرائی کہ وہ ذاتی طور پر اپنے نظریات کےمطابق زندگی گزارے ۔اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی سیما اور ان کا شوہر ان کے لیے بہت پیارے تھے ، انہوں نے بہائی عقیدہ اختیار کرلیا تھا، ان کو بھی انہوں نے بہت تعاون دیا اور ان نیک خواہشات سے نوازا۔
ان کے سانحۂ ارتحال پر کف افسوس ملنے والے ایسے مختلف لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا تھا، جو اپنے ہر دلعزیز کو الوداع کہنے کےلیے آئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین تھیں۔ ایک اسلامی اسکالر ہونے کے ناطے انہوں نے مسلم خواتین کے حقوق کے لیے جو کام انجام دیا تھا ، شاید اسی کی وجہ سے متوسط طبقے او رکام کرنے والی خواتین کا ایک بڑا ہجوم جمع ہوگیا تھا ۔ 3 ماہ کی علالت کے دوران ان کے گھر میں ایسی ہزاروں خواتین کی بار بار ٹیلی فون کالیں آئی تھیں ۔ اصغر صاحب کی جد و جہد کے اثرات دور دور تک پھیل گئے تھے ۔ کئی دہائیوں پر محیط اپنی زندگی انہوں نے مختلف فرقوں کے درمیان امن قائم کرنے اور اصلاحات کرنے میں صرف کردی۔
مجھے 13 فروری 2000 کا وہ دن اچھی طرح یاد ہے ، جب اسلامی دانشور ، اصلاح کار، بین الاعقائد مذاکرات کے پیرو کار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علمبردار ڈاکٹر اصغر علی انجنیئر پر سانتا کروز ہوائی اڈے کے اندر اس وقت حملہ کیا گیا، جب وہ اپنے دورہ سے واپس آرہے تھے ۔ اس وقت ان کی عمر 60 سال تھی اور ذیا بیطس کے مرض میں مبتلا تھے ۔ انجینئر صاحب کو اسی وقت ناناوتی اسپتال میں داخل کرایا گیا ، جہاں ایک گھنٹہ تک ان کی ناک سےخون بہتا رہا ۔ خوش قسمتی سے ان کو کوئی اندرونی سنگین چوٹ نہیں آئی تھی ، چنانچہ ایک دن بعد ان کو اسپتال سے چھٹی دے دی گئی ۔ اس وقت سینئر پولس انسپکٹر جی پی گھوڈی وارنے پر یس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ‘‘ یہ تو اچھا ہو ا کہ اس وقت ہماری فورس چاروں طرف تھی، ورنہ ان پر حملہ اس نوعیت کا تھا کہ وہ ہلاک بھی ہوسکتے تھے ۔ ہاتھوں میں پتھر لے کر ایک ہجوم ہوائی اڈے پر باہر ان کا انتظار کررہا تھا، جو انہیں ہوائی اڈے سے باہر کھینچنے کاموقع تلاش کررہا تھا۔ یقینی طور پر وہ لوگ بری طرح سے ان کی پٹائی کرسکتے تھے۔’’ یہ کچھ گرگوں کے ذریعہ انجینئر کی زندگی پر 5 واں حملہ تھا، اس کے فوراً بعد فسادی گروہ نے ان کی رہائش گاہ اور دفتر دونوں پرحملہ کیا ۔ 20منٹ سے کم وقفہ کے بعد ہی انجینئر کا مکان اور سیکڑوں مسلمانوں کے مکانوں سےمختلف نہیں تھا، جنہیں شیو سینا نے دسمبر 1992 سے جنوری 1993 کے درمیان تباہ کیا تھا ۔ مقدس قرآن کے قیمتی نسخے جو اس اسلامی دانشور نے تیونس ، مراکش اور دیگر دور افتا دہ جزائر سے حاصل کیے تھے ، اس حملے میں تباہ ہوگئے ۔
اصغر صاحب پوری زندگی پیکر انکسار اور ہمدردی کی مثال بن کر رہے ۔ لیکن کبھی انہوں نے اس بات کا دکھاوا نہیں کیا ۔ جب وہ 1969 میں احمد آباد میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد سےدلبر داشتہ ہوگئے تو انہوں نے بامبے میونسپل کارپوریشن سے استعفیٰ دے دیا اور ہر طرح کی فرقہ واریت سے جنگ کرنے کے لیے انہوں نے اپنی زندگی وقف کردی۔ حقیقت کی تہہ تک پہنچنے پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ فرقہ وارانہ تشدد کے دوران پولیس فورس اور انتظامیہ کا بڑھتا ہوا امتیازی سلوک کار فرمارہا ہے اور اس روش کا آج بھی ہم سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے ناانصافی ، معاشرتی مقاطعہ اور تشدد کے خلاف اپنی پوری طاقت کے ساتھ جد و جہد جاری رکھی ۔
فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ تشدد دو الگ الگ پہلو ہیں، کیونکہ یہ سیدھی سی بات ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد نہ ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں فرقہ پرستی نہیں ہے۔ سیکولر طاقتوں سے اکثر اس وقت غلطی ہوجاتی ہے، جب وہ فرقہ پرستی کے نفاذ کو وہاں نظر انداز کردیتے ہیں، جہاں فساد اور تشدد کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ہے ۔ فرقہ وارانہ تشدد اسی وقت رونما ہوگا، جب ان طاقتوں کو اس بات کا اندازہ ہو جائےکہ یہ تشدد سیاسی طور پر مفید ہوگا۔ اس بات کا انکشاف انہوں نے میرے ساتھ ایک انٹرویو کےدوران کیا ۔اس وقت وہ 60 سال کےتھے ۔ جب ہم آج حکومتی نظام اور انتظامیہ کا متعصب رویہ اور امتیازی سلوک دیکھتے ہیں تو آج بھی ان کی بات میں وزن نظر آتا ہے ۔
2004 میں یو پی اے I کےکم از کم مشترکہ پروگرام کےتحت کیے گئے وعدے کے مطابق انسداد فرقہ وارانہ اور منصوبہ بند تشدد بل 2011 کی قانون سازی اور اسباق ان کےلیے بہت اہم تھے ۔ ان کے علیل ہونے کےبعد مجھ سے ٹیلی فون پر بات کرنے کے دورا ن اشک بار ہوکر انہوں نے کہا تھا کہ ان کی بیماری نے ان کو کتنا مجبور کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کتنا اہم اور حساس معاملہ ہے کہ یہ بل پا رلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور اس پر بحث کس طرح ہوگی ۔
ان کے لیے ہمارا سب سے حقیقی خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ان کی کاوشوں کو دوگنی توانائی کے ساتھ یقینی بنایا جائے۔ آمین
17 مئی ، 2013 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/asghar-ali-engineer-unparalleled-thinker/d/11626