اصغر علی انجینئر
11 نومبر 2015
دارا شکوہ نے ہندوستان کی جامع ثقافت میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انہیں شاہجہاں نے اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا اور اگر وہ ہندوستان کے شہنشاہ بن گئے ہوتے، تو یقینی طور پر ہندوستان کے ثقافتی و مذہبی منظرنامے میں بڑی تبدیلی ہوتی۔ دارا شکوہ نے سنسکرت زبان سیکھی اور اصل زبان میں ہندو کتابوں کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے سنسکرت سے براہ راست فارسی میں اپنشدوں کا ترجمہ کیا اور اس کا نام سر اکبر (عظیم راز) رکھا۔ اور اپنی کتاب کے تعارف میں انہوں نے لکھا کہ ایک قرآن کے بعد اپنشدوں میں توحید (اسلام کا سب سے بنیادی نظریہ توحید) کا تصور پایا جاتا ہے، اور شاید قرآن میں کتاب المکنون سے مراد اپنشد ہی ہے۔ان کی کتاب مجمع البحرین (دو سمندروں یعنی ہندو مت اور اسلام کا اجتماع) ہندوستان کی جامع ثقافت کی تاریخ میں ایک انتہائی بنیادی کارنامہ ہے۔
اپنے سکھ مرشد کی یاد میں امرتسر میں ہر مندر کا سنگ بنیاد رکھنے والے دارا شکوہ جو ایک عظیم صوفی میاں میر بزرگ کے شاگرد کے شاگرد تھے، وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہندو مت اور اسلام جیسے ان دو عظیم مذاہب کے درمیان زبردست مماثلت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب کو عناصر، حواس، مذہبی معمولات، صفات، اور عظیم روز جزا جیسے بیس حصوں میں منقسم کی ہے۔ اور ہر حصے میں انہوں نے ہندو مت اور اسلام کے درمیان مماثلت پر گفتگو کی ہے۔
مثال کے طور پر، پہلے حصے میں "عناصر پر بحث" میں انہوں نے اسلام اور ہندو مت میں ان عناصر کے تصور کا موازنہ پیش کیا ہے۔ عناصر پانچ ہیں: اول عرش اعظم (عرش عظیم)؛ دوم ہوا، سوم آگ؛ چہارم پانی اور پنجم دھول۔ ہندوستانی زبان میں انہیں پنچ بھوت یعنی آکاش، وایو، تیجس، جل اور پرتھوی کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ان عناصر اور ان دونوں مذاہب میں پائی جانے والی ان کی مماثلت پر گفتگو کی ہے۔ مثال کے طور پر دارا شکوہ نےروح اعظم کا موازنہ جیواتما کے ساتھ کیا ہے۔
پھر صفات اللہ تعالیٰ یعنی اللہ کی صفات کے باب میں وہ لکھتے ہیں کہ اسلامی صوفی روایت میں صفت خوبصورتی دو قسم کی ہیں (جمال) اور عظمت (جلال) جبکہ ہندوستانی روایت اس کی تین قسمیں ہیں، جنہیں تری گنا کہا جاتا ہے، اور انہیں ستوا، راجاس اور تمس کہا جاتا جس کا مطلب تخلیق، دورانیہ اور تباہی ہے۔ پھر اس کے بعد انہوں نے برہما، وشنو اور مہیشورا کا موازنہ جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام کے ساتھ کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ برہما یا جبرئیل اس کائنات کے سب سے عظیم فرشتہ ہیں؛ وشنو یامیکائیل دورانیہ (یا وجود) ہیں اور مہیشورا یا اسرافیل تباہی کے فرشتہ ہیں (علیہم السلام)۔ دارا شکوہ مزید لکھتے ہیں کہ پانی، ہوا اور آگ بھی ان فرشتوں کے تابع ہیں۔ لہٰذا، پانی جبرئیل، آگ میکائیل اور ہوا اسرافیل (علیہم السلام) کے ساتھ ہے۔ اسی طرح برہما پانی ہے، وشنو آگ ہے اور مہیشورا ہوا ہے۔
مجمع البحرین کے ان تمام 20 حصوں میں دارا شکوہ نے ہندو اور اسلامی (خاص طور پر صوفی) دونوں روایات کے درمیان مماثلت کو اجاگر کیا ہے۔ ان دونوں مذاہب کے میں انتہاء پسند اور بنیاد پرست لوگ ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے اپنے مذہب کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں تمام مذہبی روایات کی حقانیت کو برقرار رکھنے والے دارا شکوہ جیسے افراد کی تحریروں کو شائع کرنا اور انہیں دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا انتہائی ضروری ہے۔ صوفی اسلام ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت سے موجود رہا ہے۔ یہ تصوف کے بنیادی نظریے صلح کل یعنی سب سے ساتھ امن کے اسول پر مبنی رہا ہے۔
صوفیوں کے یہاں الفاظ یا اصطلاحات نہیں بلکہ معنویت کا اعتبار ہوتا ہے۔ صوفیوں نے مقامی روایات کا مطالعہ کیا اور ان میں سے بہت سی روایات کو اپنایا بھی ۔ یہاں تک کہ قرآن میں بھی چند ہندو روایات اور اسلامی روایت کے درمیان غیر معمولی مماثلت تلاش جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستانی روایت میں ہمیں خدا کے لئے ستیم، شوم اور سندرم کا تصور ملتا ہے۔ قرآن میں بھی ھو الحق (وہ حق ہے)، جمیل (سندرم) اور جبار (شوم) کی شکل میں یہی تصورات پائے جاتے ہیں۔ قرآن میں یہ تینوں صفات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ، اکثر واسودھیوہ کٹمبکم (پوری کائنات ایک خاندان ہے) کے تصور کی عکاسی حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول میں پائی جاتی ہے کہ الخلق عیال اللہ یعنی ساری مخلوق اللہ کے خاندان کی طرح ہے۔ ان دونوں روایات کے درمیان غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ صوفی اور دیگر لوگوں نے ان دونوں فرقوں کے درمیان دوریوں کو انہیں مماثلتوں کی بنیاد پر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، کچھ سیاسی مفادات کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے مخصوص اور سطحی طور پر بعض روایات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، آسانی کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذاہب متحد کرتے ہیں جبکہ سیاست متفرق اور منقسم کرتی ہے۔
علماء کے حلقوں سے مولانا ابوالکلام آزاد جیسے علماء نے وحدت ادیان کا تصور پیش کیا ہے، جو کہ انتہائی تعمیری نقطہ نظر بھی ہے۔ مظہر جان جاناں جیسے ہندوستان میں بہت سے صوفی سنت بھی رہ چکے ہیں جنہوں نے رام اور کرشن کو ایک نبی کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے، اس لیے کہ قرآن میں اللہ کا بیان ہےکہ خدا نے تمام قوموں کے لیے نبیوں بھیجا ہے۔ لہٰذا، ہمیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مماثلت کو ضرور فروغ دینا چاہیے اور ہمارے صحیفوں میں ان مماثلتوں کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
ماخذ:
andromeda.rutgers.edu/~rtavakol/engineer/oceans.htm
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/hinduism-islam-mingling-two-oceans/d/105240
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/hinduism-islam-mingling-two-oceans/d/105255