اصغر علی انجینئر
16-31جولائی 2012
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ہر موسم گرما میں فرانس اور
دوسرے (زیادہ تر فرانسیسی بولے جانے والے ممالک)کے ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں، اور کارکنوں کا ایک
غیر رسمی گروپ ، ہر سال جولائی کے پہلے ہفتے میں
، جمعہ سے اتوار تک تین دن کے لئے لیون
میں انسانیت کو درپیش مختلف مسائل پر بات چیت
کر نے کے لئے جمع ہوتا ہے ۔ میں
گزشتہ دو سالوں سے مدعو کیا جا رہا تھا لیکن دیگر مصروفیات کی بنا پر میں نہیں جا سکا ۔ لیکن اس سال میں نے جا نے کا فیصلہ کیا اس لئے کہ اس کے لئے مجھے بہت پہلے ہی درخواست دی گئی تھی ۔
واقعی یہ فرانس اور فرانسیسی زبان
بولے جانے والے ممالک کے معروف دانشوروں، محرروں اور شاعروں کے ساتھ بات چیت کے لئے ایک دانشورانہ دعوت تھی۔ اس مباحثے میں شمالی افریقہ یعنی الجزائر، تیونس، مراکش، مالی،
مصر اور کئی دوسرے ممالک اور ان ممالک کے نمائندے
موجود تھے جو فرانس میں رہتے ہیں ۔
ان میں سے زیادہ تر فرانس اور فرانسیسی بولے جا نے والے ممالک کے ضمیر کی قیادت کر رہے تھے۔ وہاں چند مندوبین برازیل سے بھی تھے۔ اس قسم کے عظیم با اثر افراد کے ساتھ
وہاں ہونے کا یہ واقعی ایک اہم تجربہ
تھا۔
لیون درمیانے سائز کا شہر ہے اور
اسے اس کے پاس سے دو دریاؤں کے بہنے کا امتیاز حاصل
ہے اور اس طرح وہ ایک نیم جزیرہ ہے۔
یہ رومیوں کا ایک جائے قیام تھا اور وہاں اب بھی اس زمانے کے کھنڈرات موجود ہیں۔ یہ ایک بڑا ہی خوبصورت شہر ہے
اور شہر کے قلب میں تقریباً 700 ایکڑ کا ایک بہت بڑا پارک ہے ۔ یہ اس ہوٹل سے صرف چند منٹ
کے فاصلے پر تھا جہاں میں بہت سے دوسرے نمائندوں کے ساتھ قیام پذیر
تھا ۔ اور وہ بالکل ہی غیر رسمی مباحثہ تھا جو بہت سارے پرانے درختوں کے نیچے اس پارک میں منعقد
کیا گیا تھا۔ یہ ٹیگورکے شانتی نکتن کی طرح
تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بحث کا موضوع ٹیگور
اور Pablo
Neruda اور ان کی ہمہ گیریت تھا ۔ اس بحث
کے ایک سیشن میں ٹیگور اور Neruda دونوں پر
توجہ مرکوز تھی ۔
دلچسپ بات یہ ہے اس پوری بھیڑ میں
میں غیر فرانسیسی زبان بولنے والا واحد شخص
تھا۔ باقی سب فرانسیسی زبان میں روانی کے ساتھ
گفتگو کر رہے تھے ۔ لیکن اس میں بالکل ہی
کوئی پریشانی نہیں تھی ۔ لوگ ترجمہ
کے ذریعہ میری مدد کے لئے انتہائی شوقین تھے۔ میں 5 جولائی کی صبح لیون پہنچ گیا تھا
اور Simone Kunegel نامی ایک خاتون نے میر استقبال
کیا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ صرف رضاکاروں میں سے ایک ہے اور مجھے ہوٹل تک چھوڑ دے گی اور چلی جائے گی ۔
لیکن میں غلطی پر تھا اور اس اس
پر مجھے خوشی ہے ۔ وہ انگریزی میں روانی کے ساتھ
بات کر رہی تھی کیونکہ وہ کئی سال ممبئی میں فرانسیسی سفارتی مشن کے ایک کارکن
کے طور پر گذار چکی تھی اور کولابا میں رہتی
تھی ۔ وہ
ہندوستانی کھانا پکانا جانتی تھی ۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میں ان کے گھر جاؤں
اور وہ ہندوستانی کھانا تیار کرے گی
اسی لئے میں نے گھر کی طرح
محسوس کیا ۔ انہوں نے مجھے پہلے دن
ہی پرانی لیون سمیت شہر میں گھمایا ۔ میں رومیوں
کے زمانے کے شہر کی خوبصورتی محسوس کر سکتا
ہوں۔
ان کے گھر میں اور تعجب خیز چیزیں میرا
انتظار کر رہی تھیں ۔ دو مہمان ایک
مصری نژاد محمد اور ایک موسیقی داں جن کے
پاس مختلف قسم کی بانسریاں تھی ۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ وہ ہمارے ملک ہندوستان کے بانسری نواز ہیں اور مجھے
مزید مولانا روم کے بارے مین بتایا
، جنکی عظیم مثنوی (رزمیہ نظم ) مثنوی
مولانا روم کے نام سے جانی جاتی ہے اور جسے فایرانی
لوگ قرآن کی طرح مقدس سمجھتے ہیں ، اور جس کی ابتداء ایک بانسری کے
ذکر سے ہے ، جس کے دل پر زخم ہے اور اس سے خدا سے جدائی کی کربناک آ واز نکلتی
ہے ۔ میں نے اسی طرح کی ایک بانسری ’
کے بارے میں محمد کو بتا یا جسے بھگوان
کرشن بجاتے تھے جو ہندوستان میں صوفی سنتوں
کے انتہائی محبوب تھے ۔
وہاں اس کی بیوی زینب (ایک
جرمن خاتون) بھی تھی اور اس کے شوہر کی طرح
ایک اور موسیقی داں بیٹھا تھا۔ اس نے میرے لئے بانسری بجایا تو میں بہت محظوظ ہو ا۔ اس دن ہم نے دوپہر کا کھانا
اور رات کا کھانا ایک ساتھ کھایا اسی لئے
سائمن نے اصرار کیا کہ مجھے ان کے ساتھ رات
کا کھانا کھانا ہے اور اس نے ہندوستانی ذائقہ میں
لذیذ دال پکایا ۔ میں نے سائمن اور اس کے شوہر کو دیکھا کہ وہ اپنے پرانے دوستوں کا گرم جوشی کے ساتھ استقبال کر رہےتھے اگر چہ ہم نے ان سے صرف ایک دن پہلے ہی ملاقات کی تھی۔ در حقیقت یہ میرے لئے حقیقی مباحثے کا آغاز تھا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد وہ مجھے
شہر میں ڈرائیونگ کے لئے لے گئی
اور میں نے لیون کی جھلک دیکھی اس لئے کہ شہر دیکھنے کے لئے وہی دن دستیاب تھا۔ اگلے تین
دن مختلف موضوعات پر مکالموں میں بہت مصروف
تھے۔ اگرچہ بر ملا طور پر ہم ہر قابل دید جگہ
پر نہیں جا سکے ،خاص طور پر اس پہاڑی پر جہاں محنت کش طبقے نے کبھی قیام کیا
، اور اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تھا ، اور یہ کہا جاتا ہے کہ مارکس ان کی جدوجہد کے لئے اسی سے متاثر ہوا
تھا ۔ لیکن میں نے ان ہی چیزوں کو دیکھا جن
کا دیکھنا ایک دن میں ممکن تھا۔ لیکن میں نے باہر سے سنیما کے میوزیم کو بھی دیکھا اس لئے کہ اس کے بانی Lumier برادران
کا تعلق لیون سے ہی تھا اور ان کے گھر کو میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے
مباحثے کی نشست کا آغاز 6جولائی کی صبح سے ہوا ۔ یہ مباحثہ بالکل ہی غیر رسمی تھا اس لئے کہ مخصوص مضامین میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کا ایک
گروپ بینچوں پر یا درختوں کے نیچے زمین پر بیٹھ کر بحث شروع کرتا ، ہر شخص شروع کرنے کے لئے درخواست پیش کر رہا تھا ۔ یہ نشست جدید دنیا میں
انسانیت اور اس کی حالت زار کے بارے میں تھی ۔ اس مخصوص گروپ میں جس میں میں
6 کی صبح شامل ہوا تھا اس میں
حال ہی میں ریو ، عرب ممالک میں بہاریہ
انقلاب اور اقتصادی نا انصافیوں پر مباحثہ ہو رہا تھا ۔
مجھ سے عرب انقلاب پر چند الفاظ کہنے
کے لئے کہا گيا۔ میں نے فائر فائلس
آشرم، بنگلور کے سدھارتھ کی طرف دیکھا ، وہ
فرانسیسی زبان روانی کے ساتھ بولتا ہے کیونکہ
کہ پیرس میں اس نے تعلیم حاصل کی تھی اور اس نے
اپنے آشرم میں بھی اسی طرح کے مباحثے کا انعقاد کیا ہے۔ میں نے تاخیر کرنے کے بجائے
اس کی طرف دیکھا اس لئے کہ میں مباحثے
میں شمولیت اختیار کر چکا تھا اور جاری
مباحثے سے لا علم تھا ۔ اس نے مجھے مختصر طور
پر سمجھایا اور اور مجھ سے کہا کہ میں
عرب جمہوری انقلاب اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچتا ہوں ۔
میں نے کہا کہ انقلاب سماجی اور
ثقافتی سے کہیں زیادہ بنیادی طور پر سیاسی تھا ، اور اس کے مستقبل کی پیشن گوئی کوئی
نہیں کر سکتا اس لئے کہ ہمیشہ سیاست کا انحصار حالات
پر بہت زیادہ ہو تا ہے اور نظریہ پر
بہت کم ۔ یہ انقلاب بنیادی طور پر سیاسی ہے اور اس میں سماجی، ثقافتی اور مذہبی مسئلہ کا کوئی دخل نہیں
ہے۔ اس وقت مصر اور تیونس میں مذہبی قوتیں ظفریاب ہو ئی ہیں ، اور سیکولر فورسز کوصرف
چند سیٹوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا ہے۔ لیکن
کسی کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے
کہ مذہبی قوتوں کو شاہ زین العابدین اور حسنی مبارک کے نیچے دبا دیا گیا تھا اور دونوں کو
امریکی چمچہ سمجھا جاتا تھا ۔
لیکن جو چیز ہمیں پر امید کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اخوان المسلمین اور النہضہ دونوں کو مذہبی اعتدال
پسندی اور انتہاپسندی سے بچنے کا لوگوں کو
یقین دلانا ہو گا ۔ لیبیا میں بھی حیرت انگیز طور پر ، قبائلی اور خاندان کی وفاداری مذہبی انتہا پسندی
سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئی۔ سیکولر ازم اور جدیدیت میں عرب عوام کی امید کافی قوی نہیں ہےاور اسے بنیاد بنانے میں کچھ
وقت لگے گا۔ موجودہ حالات میں اعتدال پسند اسلام وقوع پذیر چیزوں میں سب سے بہترین بات ہے۔ شہر کے ٹی وی چینل نے بھی اسی سوال پر میرا انٹرویو لیا میں نے انٹرویو میں زیادہ سے زیادہ
کہا ہے۔
دوپہر کے سیشن میں ، میں انسانیت
اور آفاقی اقدار پر خطاب کرنے والوں میں تھا۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ وہ کوئی رسمی پرگرام نہیں تھا
بلکہ راؤنڈ ٹیبل کے بغیر ایک قسم کا راؤنڈ ٹیبل کانفرنس تھا
۔ اس سیشن میں ٹیگور پر توجہ مرکوز تھی
اور ان کے بارے میں کچھ کہنے کی امید تھی اگرچہ بات کو ان تک ہی محدود کرنا ضروری نہیں تھا ۔ بلاشبہ ٹیگور ایک عظیم شاعر، مختصر کہانی نویس،
مصور، موسیقار اور ایک ممتاز دانشور تھے ۔ ان کی موسیقی کو ربندر موسیقی کے طور پر جانا جاتا ہے اور بنگلہ دیش میں
بھی اس کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور ان کی
موسیقی بنگلہ دیش ریڈیو سے روزانہ چلائی جاتی ہے
۔
آفاقی اقدار میں ان کا یقین تھا اور انہوں نے اپنے تخلیقی کارناموں کے ذریعے ان اقدار کی حمایت کی۔وہ مذہب کے تنگ نقطہ نظر سے دور تھے اور ان کی مشہور کتاب گیتانجلی
جس کے لئے انہیں نوبلانعام ملا میں انہوں
نے کہا ہے کہ آپ خدا کو مندروں میں کیوں تلاش کرتے ہیں ۔ میں ان مزدوروںمیں خدا کو
دیکھتا ہوں ، جو مئی کی سخت گرمی میں سڑک پر پتھر توڑ تے ہیں۔ آپ ان میں خدا کی کمی محسوس نہیں کر سکتے ۔ یہ ان
غریبوں اور معاشرے میں پسماندہ لوگوں کے لئے
ان کی ہمدردی اور انسانی عظمت کے متعلق ان کے
خیالات تھے ۔ جن کے بارے میں ہم آج
بات کر رہے ہیں ۔
وہ ٹیگور ہی ہیں جنہوں نے
گاندھی کو 'مہاتما' کہا اور سنسکرت میں مہاتما کا مطلب عظیم روح ہے
۔ اور کیا ٹیگور کی اسی بات نے گاندھی کو ایک
عظیم روح بنایا؟ اس لئے کہ انہوں نے خود سے زیادہ گاندھی میں
اپنے (ٹیگور) کےنظریات کی عکاسی دیکھی
۔ گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد اور محبت نے ہمارے ہم
عصر وں کو متاثر کیا مارٹن لوتھر کنگ
جونیئر ‘نے.جو گاندھی جی سے متاثر تھا
، افریقی نژاد امریکیوں کے حقوق کے لئے لڑائی کی ۔
گاندھی نے اپنے ہند سوراج (ہندوستان کی آزادی) میں کہا کہ میں نے برطانوی استعماریت
کے خلاف جنگ کی ہے لیکن مجھے
انگریزوں سے نفرت نہیں ہے۔ اپنے دشمن کے خلاف لڑیں لیکن انسان ہونے کی بنیاد پر ان سے نفرت نہ کریں
۔ تم اپنے دشمن سے مقابلہ جو اس میں
غلط ہے اس کے خلاف کرتے ہو نہ کہ اس کی انسانیت کے خلاف ۔ وہ برطانوی
محنت کش طبقات کے عظیم دوست تھے۔ گاندھی کے
فلسفہ کی بنیاد گہرے اندرونی اعتماد پر تھی ۔ اس طرح کے اعتماد کے بغیر آپ ان الفاظ کو ادا نہیں
کر سکتے۔
آج ہم میں سب سے زیادہ اسی طرح
کے اعتماد کی کمی ہے اور اس کے بغیر ہم اس
دنیا کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ گاندھی نے اپنی پوری
زندگی تنگ مذہبی فرقہ واریت کے خلاف جنگ کی اور دیگر مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے
تئیں اپنے خلوص کے لئے وقف کر دی ۔ان کے اس
نظریہ نے ایک متعصب ہندو کو
غضب ناک کر دیا جس نے انہیں گولی مار کرشہید کردیا۔ تقسیم کے فسادات کی وجہ سے جب ان سے
ہر چہار جانب نفرت کی جا رہی تھی ، مسلمانوں کے حقوق کی خاطر لڑنے کے لئے اعتماد کے غیر معمولی جرات کی ضرورت
تھی ۔ وہ یقینا بہت عظیم تھے ۔
میں نے گجرات کے نریندر مودی کی بھی بات کی ، جہاں گاندھی
کی زمین پر دو ہزار سے زائد بے گناہ مسلمانوں
کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ انسانیت سے نفرت اور
ان کا قتل آسان ہے اور محبت کرنا اور ان کو
بچانا بہت مشکل ہے ۔ ہر کوئی اس بات کی گہرائی کو محسوس کر رہا تھا جو میں نے کہا ۔جنوبی افریقہ کی ایک خاتون نے متاثر ہو کر کہا کہ یقینا گاندھی عظیم تھے ، اور ٹیگور نے ان کو مہاتما کہا لہٰذا وہ خود بھی ایک عظیم انسان تھے ۔
ہم اس جدید دنیا میں تمام لوگوں کے تئیں خلوص اور کشادگی چاہتے ہیں ، خاص طور پر اقلیتوں کے لئے
اس لئے کہ اس گلوبلائزڈ دنیا میں اقتصادی منتقلی اور سیاسی
ظلم و ستم نے مزید اقلیتی گروہوں کو جنم دیا
ہے ۔ گاندھی کے بغیر ہماری دنیا کبھی بہتر نہیں ہو سکتی ۔ دوسرے مختلف گروپوں میں
بہت سے دوسرے مسائل خاص طور پر مثلاً بے گھر
بچوں، انسانیت کے پسماندہ طبقوں ، تعلیم کا نظام، میڈیا، اور اقتصادی تفاوت کے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا ۔
در اصل ، دنیا کے مختلف حصوں میں زیادہ سے زیادہ ایسے مکالموں کی ضرورت
ہے۔ فرانس میں ایک رضاکار تنظیم نے اس طرح کا
اقدام کیا ہے اور دیگر مقامات میں بھی
ایسا ہی کیا جانا چاہئے۔ اس این جی او کے کارکنان انتہائی حوصلہ افزا تھے
اور انہوں نے بہترین کام کیا ۔ ساری کوششوں کا سب سے بہترین حصہ یہ تھا کہ یہ افتتاحی یا اختتامی
سیشن کے بغیر مکمل طور پر غیر رسمی تھا اور سیاسی دگگجوں سے خالی تھا ۔ ہر شخص
کسی کی وقعت کو ہوا دئے بغیر اپنی
بات کر سکتا تھا ۔سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ تھی کہ بڑی تعداد میں خواتین کی موجودگی
تھی جنہوں نے دانشورانہ حوصلہ کے ساتھ حصہ لیا ۔
مرکز برائے اسٹڈی آف سوسائٹی
اینڈ سیکولرازم ، ممبئی
URL
for English article: http://newageislam.com/interfaith-dialogue/by-asghar-ali-engineer/dialogue-of-humanities-in-lyon-france/d/7972
URL: