اصغر علی انجینیر
2 نومبر 2012
( انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
پاکستان کے پختونخواہ (Pakhtunkhwa) صوبہ سے تعلق رکھنے
والی چودہ سالہ قبائلی لڑکی
ملالہ یوسف زئی پر حالیہ حملے نے صرف
پاکستان کو ہی نہیں پوری دنیا کو دہلا دیا
ہے ۔ پاکستان کے عوام میں اس بات پر تقریبا
اتفاق رائے تھاکہ حملہ حق بجانب نہیں تھا،اور اس حملے کے خلاف مظاہرے کئے گئے ، اور
اس کی صحت یابی کے لئے اجتماعی دعاء خوانی کا اہتمام کیاگیا
۔ اس کے قبیلے کے لیڈر نے بھی اس ظلم و زیادتی کی مذمت
کی۔عالمی میڈیا کے ذریعے اس خبر کی تشہیر نمایا ں طور پر کی گئی ۔خوش قسمتی سے وہ زندہ بچ گئی اور خبر کے مطابق برمنگھم اسپتال (Birmingham
hospital) میں اس کی حالت
مستحکم ہے جہاں اسے دبئی گورنمنٹ کے
ذریعہ مہیأ کرائے گئے ہوائی ایمبولینس کے ذریعہ لایا گیا تھا ۔
پاکستانی طالبان نے دعویٰ
کیا ہے کہ یہ حملہ ان کے اور ان لیڈر مولانا فضل اللہ کے ذریعہ کیا گیا تھا
جو کہ افغانستان میں چھپا ہوا ہے ۔پاکستانی حکومت نے افغانستان کی حکومت سے
مولانا اور ان کے ساتھیوں کو ان حوالے کر نے کی
درخواست کی ہے ۔ایک مذہبی لیڈر کا ایک نوعمر لڑکی کے قتل کی کوشش میں ملوث ہونا شرم کی بات ہے۔ اس کا جرم یہ تھا
کہ وہ تعلیم نسواں کے لئے مہم چلا ری تھی
۔
تحریک طالبان پاکستان نے مذہبی
سطح پر ملالہ پر حملے کو حق بجانب قرار دیا اور اسے‘‘ مغرب کا ایک جاسوس ’’بتایا ۔طالبان
نے حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘ اس جاسوسی کے’ لئے کافروں نے اسے انعامات و اکرامات
سے نوازا ہے ۔اور اسلام نے ان لوگوگوں کے مارنے کا حکم دیا ہے جو دشمنوں کی جا سوسی
کر تے ہیں۔دوسری وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ
‘‘وہ طالبان کو بد نام کرنے کے لئے
مجاہدین کے خلاف افواہ پھیلا تی تھی ۔ قرآن
کا کہنا ہے کہ جو لوگ اسلام اور اسلامی افوج کے خلاف افواہ پھیلاتے ہیں انہیں
مار دیا جانا چاہئے ۔’’
جیسا کہ یہ واضح ہے کہ یہ
اس لڑکی پر حملے کا انتہائی کمزور دفاع ہے
۔ سب سے پہلے ، اگر طالبان کو اسلام کا
علم ہے ، کسی بچے یا بچی کو اس وقت تک سزا
نہیں دی جا سکتی جب تک وہ سن بلوغت کو نہ پہونچ
جائیں ۔اسلام میں صرف وہ لوگ کسی بھی طرح کی
سزا کے ذمہ دار ہیں جو ان کے نتائج سمجھتے
(ذی شعور لوگ ) ہوں جو وہ کر رہے ہیں ،نماز ، روزہ یا حج بچوں پر فرض نہیں ہے
۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام میں کسی بھی کام کی تکمیل کے لئے نیت ضروری ہے ، یہا ں تک کہ
نماز یا روزہ بھی نیت کے بغیر قابل قبول نہیں ہے ۔
دلیل کا ضعف ظاہر ہے ،در حقیقت
طالبان نے تعلیم نسواں کی مہم کو جاسوسی کے
مترادف قرار دیا ہے ۔یہ بالکل ہی مضحکہ خیز اور نا معقول ہے ۔کسی کو بھی ختم کرنے کی
کوشش کرنے سے پہلے قانونی عدالت میں جرم ثابت
ہونا چاہئے ۔اور اسلامی سزا کسی ایک کے ذریعہ نہیں دی جا سکتی بلکہ مقدمہ کو قاضی کی
عدالت میں لے جایا جائے گا جو مقدمہ کی سماعت
کرے گا اور ثبوت اور گواہوں کا مطالبہ کرے گا
۔ بڑے سے بڑے جرم مثلاً زنا (غیر قانونی
جنسی مباشرت یا فحش جنسی تعلق ) پر بھی سو درے لگا نے کی اسلامی سزا کے لئے (یا موت تک
سنگ ساری کی سزا کے لئے اگر چہ اس سزا میں
اختلاف ہے ) چار ایسے گو اہوں کی ضرورت ہے
جنہوں نے زنا کے اس عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو ۔
کوئی بھی شخص قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا اور
نہ ہی خود کسی مجرم کو سزا دے سکتا ہے ۔اگر ایسا ہوا تو ملک میں ہر سو انارکی پھیل
جائے گی ۔صرف ایک با قاعدہ طور پر قائم حکومت ہی اسلامی
قانون میں ایک اچھی طرح تعلیم یافتہ قاضی کو
مقرر کرسکتی ہے جو الزام ثابت کرنے کی کوشش اور مناسب سزا کا اعلان کر سکتا ہے ۔اس میں تخفیف کی بھی کچھ صورتیں ہو سکتی ہیں جس کا خیال قاضی کو رکھنا چاہئے ۔
صرف یہی نہیں کہ طالبان کوئی
حکومت نہیں ہے ، بلکہ وہ تو مجاہدین کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں ۔ایک مجاہد صرف اللہ
کے لئے (فی سبیل اللہ ) لڑتا ہے ، جو کہ خود
ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں نفس پرست خواہش اور
مطلق العنانیت کا بالکل ہی کوئی دخل نہ ہو
۔ طالبان کی سر گرمیاں اسلامی معمولات یا اللہ
کے راستے (فی سبیل اللہ )سے بہت دور
ہیں ،
بلکہ بسا اوقات ان کے معمولات غیر انسانی
ہونے کے علاوہ ظالمانہ ، استحصالی اور مطلق العنان ہیں ۔
بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ
طالبان تعلیم کی مہم کو ‘‘ جاسوسی ’’ کا ایک عمل قرار دے رہے ہیں ۔ کیا کوئی فیصلہ اس سے بھی زیادہ غیر ذمہ دارانہ اور مطلق العنانیت
پر مبنی ہو سکتا ہے ۔ کیا مجاہدین اس قسم کا
غیر ذمہ دارانہ عمل انجام دے سکتے ہیں یا چونکہ انہوں نے ایک نو عمر معصوم لڑکی کے
قتل کا فیصلہ کیا تھا اور ناقص عذر تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس پر‘‘ اسلامی’’ ہونے کا لیبل چسپاں کرر
ہے ہیں ؟وہ خود کو فریب دے سکتے ہیں ، اسلامی قانون کے ماہرین اور اسلامی قانون کے
نفاذ کے طریقۂ کا ر کو نہیں ۔
طالبان کو یہ جاننا چاہئے
کہ کوئی قاضی یا مفتی ، اگر کسی چیز کو‘‘ اسلامی’’ کہہ رہا ہے تو اسے قرآن یا حدیث یا دونوں کا حوالہ دینا ہوگا ، اور اگر جہاں کوئی
ابہام ہو تو وہاں کسی امام کی رائے یا کسی مکتبہ قانون کے بانی کی رائے کو بھی نقل
کرنا پڑے گا ، صرف کوئی ایسی چیز بیان کرنا
کافی نہیں ہو گا کہ کو ئی شخص اسے اسلامی لبادہ میں انجام دینا چاہتا ہے ۔ایسا کرنا ، اور اس طرح کی اور بھی دوسری چیزیں جو جان بوجھ کر کی جائیں ، ایک بڑی غلطی ہے اور وہی ہے جو طالبان نے اس معاملے
میں کیا
۔کسی چیز کو صرف اسلامی کہہ دینے سے
وہ چیز اسلامی نہیں ہوجاتی۔
تمام اسلامی علماء کے درمیان اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ علم حاصل
کرنا تمام مردوں اور عورتوں پر فرض ہے ۔پیغمبر
اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مسلم کا لفظ نہیں فرمایا کہ اس میں مسلم مرد
اور عورتوں کو شامل کیا جائے بلکہ مسلم مرد اور عورت کو الگ الگ ذکر کیا ، لہذا مسلم عورتیں علم حاصل کرنے کے معاملے میں نظر
انداز نہیں کی گئیں ہیں ۔ پیغمبر اسلام( صلی
اللہ علیہ وسلم )نے علم کا حصول مسلم مرد اور عورت دونو ں کے لئے فرض قرار
دیا ہے ۔ کیا طالبان اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ؟
کیا علم کا حصول جاسوسی کرنے
کے مترادف ہو سکتا ہے ؟ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا کہ جس کے پاس بیٹی ہو اور وہ اسے تعلیم
دے اور اس کی شادی ایک تعلیم یافتہ مرد سے کر دے تو وہ جنت میں جائے گا ۔ پیغمبر نے یہاں تک فرمایا
کہ میں اس کے جنت میں جانے کی ضمانت لیتا ہوں ۔ قرآن ہمیں یہ دعا (یا رب زدنی علماً ) کرنا سکھا تا ہے کہ ائے رب ہمارے علم میں برکت عطا فرما۔ تمام مفسرین
اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا انطباق مرد اور عورت دونوں پر ہوتا ہے ۔قرآن علم کو روشی
اور جہالت کو تاریکی قرار دیتا ہے اور ایک بار پھر یہ دعا سکھاتا ہے ‘‘ ائے اللہ ہمیں ظلمت سے روشنی میں پہونچا دے
’’۔
اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے
کہ طالبان نے جو کا رنامہ انجام دیا ہے وہ واضح طور پر غیر اسلامی ہے اور سختی کے ساتھ
اس کی مذمت ضروری ہے ۔ ان تمام لوگوں کو جو اس بزدلانہ عمل
کے لئے ذمہ دار ہیں ان کو قانونی عدالت میں ضرور
مجرم ثابت کیا جا نا چاہئے اور اگر وہ مجرم پائے جاتے ہیں تو انہیں سخت سزا دی جانی چاہئے
URL
for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/attack-malala-islamic-un-islamic/d/9174
URL: