اسلامی اسکالر اصغر علی انجینئر
کی ٹائمس نیوز نیٹورک کے نمأندہ وجیہ الدین کے ساتھ بات چیت
فرقہ واریت کے خلاف جدو جہد
کرنے والے داؤدی بوہرا اصلاحکار اور اسلامی اسکالر اصغر علی انجینئر نے مسلمانوں کے
طبقات کے اندر اوراس سے باہر بھی کئی حریف بنا لئے ہیں۔وہ 1960سے فرقہ واریت کا تجزیہ
اور مخالفت کر رہے ہیں۔اصغر علی انجینئر نے وجیہ الدین سے ان عوامل پر گفتگو کی جو
اب بھی نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔
سوال۔ آپ نے بڑے پیمانے پر
فرقہ واریت ک پرتحقیق کی ہے۔ہم اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے قابل کیوں نہیں ہو
سکے؟
جواب۔ میں نے 1961میں سب سے
پہلے جبل پور کے دنگوں کی تحقیق کی،جب میں اندور میں انجینئرنگ کا طالب علم تھا۔میں
نہیں سمجھ سکا کہ جو طبقات گھل مل کر رہ رہے ہیں وہ کیوں ایک دوسرے کو ماریں گے۔اس
کے بعد کے کئی فسادات کی میری تحقیق نے میرے اس یقین کی تصدیق کی کہ یہ مذہب نہیں بلکہ
سیاست ہے جو فرقہ وارانہ فسادات کرواتی ہے۔اسکولوں میں ہم جو مسخ کی ہوئی تواریخ پڑھاتے
ہیں وہ بھی فرقہ وارانہ نفرت کو پیدا کرنے میں مددگار عوامل میں سے ہے۔
سیمینار میں میں اپنے سامعین
سے اکثرسوال کرتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں نے اورنگ زیب کے بارے میں سنا ہے۔سبھی کا جواب
ہاں ہوتا ہے۔لیکن جب میں پوچھتا ہوں کہ کیا دارا شکوہ کے بارے میں سنا ہے،بہت کم ہی
ہاں کہتے ہیں۔ہم اورنگ زیب کو اس لئے یاد رکھتے ہیں کیونکہ اسے ایک بدمعاش کے طور پر
پیش کیا گیا ہے جبکہ ہم اس کے بھائی دارا شکوہ کو بھول گئے ہیں۔جس نے ہندو صحیفوں کو
فارسی میں ترجمہ کر ہندو مسلم اتحاد کی ترجمانی کی۔اس نے ایک کلاسیکی کتاب ’مجمع البحرین‘(دریاؤں
کا جوڑنا)لکھی ہے۔ہمیں اپنے بچوں کو صحیح تاریخ پڑھانی چاہئے۔
سوال۔ تاریخ کی بات کریں تو
نئی نسل تقسیم ملک یا فرقہ وارانہ فسادات سے نا بلد ہے۔ایسے میں آپ کو ان سے کوئی امید
نظر آتی ہے؟
جواب۔ یقینی طور پر وہ بچے
جو اونچے طبقے کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں دوسرے عقائد کے لوگوں کے خلاف تعصب
سے آزاد ہیں۔تاہم اکثریت جوسرکاری اسکولوں یا فرقہ پرست تنظیموں کے زیر انتظام اسکولوں
میں جاتے ہیں، انہیں سماجی اور تاریخی اقدار کی غلط تعلیم دی جاتی ہے۔
سوال۔ کیا حکومت فرقہ واریت
کو ختم کر سکتی ہے؟
جواب۔ ایک حکومت کافی کچھ
کر سکتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومتیں مسلسل کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرانے
اور فسادات کے بعد مجرموں کو سزا دینے کی اپنی زمہ داری نبھانے میں ناکام رہی ہیں۔میرا
یہ پختہ یقین ہے کہ اگر مخلصانہ طور پر حکومت چاہے توکوئی فساد24گھنٹے سے زیادہ تک
جاری نہیں رہ سکتا ہے۔مثال کے طور پر90کی دہائی میں بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد
یادو اور مغربی بنگال کی بائیں محاذ کی حکومت نے ایسا کامیابی کے ساتھ اس وقت کر کے
دکھایا جب ہندوستان کا بڑا حصہ اس کے حصار میں تھا۔لیکن اس کے برعکس جب2002میں گجرات
جل رہا تھا تب نریندر مودی نے دوسرا رخ اختیار کیا۔
سوال۔ مسلمانوں کے تعلق سے
مودی کا رخ کچھ نرم پڑا ہے اور وہ سیکولر موقف اختیار کر رہے ہیں کیا مسلمان انہیں
معاف کریں گے؟
جواب۔ مودی کی مفاہمت کی کوشش
حقیقی نہیں لگ رہی ہے۔ان کے سدبھاؤنا ورت کے دوران اللہ اکبر کے نعرے کو اس طرح نہ
دیکھا جائے کہ ان کو مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دوران
ایک امام کے ذریعہ دی گئی ٹوپی کو پہننے سے انکار کر دیا جو بتاتا ہے کہ وہ کٹّرہندتوا
کے اپنے حامیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے ہیں۔جب تک وہ معافی نہیں مانگتے سیکولر لوگ
اور ہندوستانی مسلمان انہیں معاف نہیں کریں گے۔
سوال۔ برآۓ مہربانی اپنے
طبقے کے ہی اندر اپنی جدّو جہد کے بارے میں بتائیں؟
جواب۔ میری جدّو جہد دو جہتی
ہے ایک میری اپنی داؤدی بوہرا طبقے کے لیۓور دوسری اصلاحات اوراسلام کے فہم میں تبدیلی
کی ہے۔داؤدی بوہرا طبقے میں اصلاح کی کوششوں کو محدود کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن ہم
نے امید نہیں چھوڑی ہے۔میں نے قرآن اور حدیث کے تنگ نظر تشریحات کے خلاف جدوجہد کی
ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اسلام کو عصر ی تناظر میں سمجھا جانا چاہئے، نہ کہ قرون
وسطیٰ کے علماء کرام کے مخصوص نظرئے سے۔
میں ان کچھ اسکالروں میں سے
ایک تھا جس نے شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔تاہم سیاسی
موقع پرستی نے ہماری کوششوں کو شکست دی اور راجیو گاندھی کی قیادت والی کانگریس حکومت
نے پارلیمنٹ میں قانون بنا کر اس تاریخی فیصلے کو مسترد کر دیا۔یہ مجموعی طور پر ناانصافی
تھی، جس سے ہندو بنیاد پرستی کو بڑھنے میں مدد ملی۔
بشکریہ۔دی ٹائمس آف انڈیا،
نئی دہلی
(انگریزی سے اردو ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
URL
for English article: http://www.newageislam.com/interview/-amongst-factors-creating-communal-hatred-is-doctored-history-/d/5645
URL: https://newageislam.com/urdu-section/communal-hatred-/d/5648