اسفر فریدی
31 اکتوبر ، 2013
جہاد کیا ہے، اسلام میں ا س کی کیا اہمیت ہے او ریہ کب ضروری ہوتا ہے ؟ ان جیسے سوالوں پر بحث و مباحثے کاسلسلہ نیا نہیں ہے۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس کی تعریف کرنے میں وہ لوگ اکثرپیش پیش رہے جنہیں اسلامی فقہ اورروایات سے کم ہی واقفیت رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے اصلی مجاز پہلے اور آج بھی علماء دین ہی ہیں ۔ اس لیے میں بھی دانشتہ طور پر اس بحث سے خود کو الگ کرتا ہوں کہ جہاد کیا ہے اور یہ کب ضروری ہے؟ اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جہاد کے نام پر جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا جارہا ہے، اگر واقعی وہی جہاد ہے تو پھر وہ جہاد غلط ٹھہرے گا جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے کیے۔
آج جہاد کے نام پر جس طرح الگ الگ ٹولیاں بنا کر دنیا کے مختلف حصوں میں قتل و خون کا بازار گرم کیا جارہا ہے، اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ نام نہاد ‘مجاہدین’ کچھ بھی ہوں، اسلام کے سپاہی نہیں ہوسکتے ۔ بہت سے گروہوں کی حرکات اور ان کے بیانات تو صاف پتہ دیتے ہیں کہ وہ دوسروں کے زر خرید غلام ہیں اور اسلام کا نام بدنام کرنے کے لیے خون خرابہ کررہے ہیں ۔ کچھ تو ایسے معلوم ہوتےہیں کہ جنہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ آخر کرکیا رہے ہیں ؟ ابتدا اپنے گھر ہندوستان سے کرتے ہیں ۔ یہاں ہر ایک بم دھماکہ یا دہشت گرد انہ کارروائی کے بعد ‘انڈین مجاہدین’ نامی تنظیم کا نام اچھالا جاتا ہے۔ گذشتہ اتوار یعنی 27 اکتوبر کو پٹنہ میں ہوئے بم دھماکوں کے بعد بھی اسی تنظیم کا نام لیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہاہے کہ اس نے پٹنہ میں مظفر نگر فسادات کا انتقام لینے کے لیے بم دھماکے کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ تنظیم واقعی موجود ہے او رملک کے مسلمانوں کے مفاد میں مسلح کارروائی کو ضروری جانتی ہے تو پھر جس وقت مظفر نگر میں خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، اس دوران ہی یہ اپنے نام نہاد لاؤ لشکر کے ساتھ وہاں کیوں نہیں پہنچ گئی؟ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈین مجاہدین کااوّل تو وجود ہی نہیں اور دوسرے اگر کوئی وجود ہے بھی تو اس کا مقصد وہ نہیں ہے جو ہمیں بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ اس بات سے بھی انکار محال ہے کہ جہاد کےنام پرکوئی مسلمان دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث نہیں ہوتا۔ عام مسلمان بھی اس کے منکر نظر نہیں آتے ، لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ جتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث قرار دیا جاتا ہے وہ سچ نہیں ہے۔
اسی لیے وہ ایسے تمام معاملوں کی ایماندارانہ جانچ کامطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا جانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جو لوگ نام نہاد ‘جہاد’ کے نام پر خون خرابہ کررہے ہیں وہ اصل میں اسلامی فکر و نظر کے برعکس کام کرر ہے ہیں۔ ہندوستان میں تو ابھی تک اس بیماری نے وبا کی صورت اختیار نہیں کی ہے لیکن دنیا کے دوسرے ملکوں میں صورت حال بہت ہی زیادہ تشویشناک ہے۔ اس میں پاکستان ، افغانستان ،عراق اور شام جیسے ممالک شامل ہیں ۔ ان ملکوں میں جس طرح جہاد کے نام پر دھڑلے سے قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، اس کو کسی بھی صورت میں اسلامی نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں مسلح کارروائی کرنے والے نجی گروہ اسلام یا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں بلکہ اپنے اور اپنے ‘ مالکان’ کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ۔ وہ بظاہر نام تو اسلام او رمسلمان کالیتے ہیں لیکن جو کام کرتے ہیں اس کا سب سے بڑا شکار مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔ اسلام بد نام ہوتا اور مسلمان مارے جاتے ہیں ستائے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں کی وہ تحریکیں بھی کمزور پڑتی ہیں جو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے چلائی جارہی ہیں۔ اس میں سب سے اہم تحریک فلسطین کی ہے۔
‘ جہاد’ کے نام پر گذشتہ ایک چوتھائی صدی سے جو کچھ افغانستان سے لے کر امریکہ اور دوسرے ملکوں میں کیا گیا، اس کا ایک سر سری جائزہ بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہوا۔ افغانستان میں سابق سوویت یونین کی سرخ فوج اور اس کے افغان حامی حکمرانوں کے خلاف جہاد کے نام سے مسلح تحریک چھیڑی گئی۔ اس میں بہت سے لوگ تو یہ سوچ کر شامل ہوئے تھے کہ وہ اسلام کے لیے اور افغانستان کے لیے لڑرہے ہیں لیکن وہ اس بات سے واقف رہے کہ ان کی ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کا دور دور تک اسلام اور مسلمانوں کے مفاد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر سوویت یونین کی سرخ فوج سے لڑنے والوں کی اس طرح ذہن سازی کی گئی کہ انہیں پتہ بھی نہیں چل سکا کہ وہ امریکہ کی حکمت عملی کے مطابق کام کررہے ہیں ۔ نام نہاد ‘جہاد’ یا دہشت گردانہ کارروائیوں اور ان کے مضمرات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے سانحے سے لے کر افغانستان ، عراق اور لیبیا پر حملے اور طاقت کے زور پر حکومتوں کو بدلنے کا سب سےزیادہ فائدہ کس کو ہوا؟
اس تناظر میں سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ کے ذریعہ نام نہاد جہادیوں اور خاص طور سے ان کی ذہن سازی کرنےوالوں کی شدید تنقید کرنا ایک قابل تعریف کام ہے۔ انہوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ جو لوگ جہاد کے نام پر دوسروں کے بچوں کو میدان کا رزار میں بھیج رہے ہیں وہ اپنے بچوں کو اس فریضے سے کیوں ‘ محروم’ رکھ رہے ہیں ؟ البتہ اسی کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جس طرح مختلف دہشت گرد گروپ خود کو اسلام اور مسلمانوں کاسپائی قرار دے کر لوگوں کو ورغلاتے ہیں اسی طرح بد قسمتی سے علمائے کرام قرآن و سنت کی بجائے اپنے اپنے حکمرانوں کی منشاء کے مطابق اس کی تاویل و تشریح کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے ‘ دہشت گردی’ کی تعریف کرنے میں ناکام رہے اسی طرح علمائے اسلام بھی جہاد کے بارے میں عام لوگوں کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں ۔اس لیے حالت بد سے بدتر ہوتےگئے لیکن بد لے ہوئے حالات میں اس بات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ جہاد کی تعریف کی جائے اور اس کے نام پر جو دنیا کےمختلف خطوں میں خون خرابے کا بازار گرم ہے، اس کا سد باب کیا جائے ۔
سعودی عرب کے مفتی اعظم نے اپنے شخصی نظریے کے لیے جہاد کا نعرہ لگانے والوں کے بارے میں جو باتیں کہی ہیں، انہیں اس کی تمہید مان کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ کہیں یہ قر بانی جان و مال کی ہوگی تو کہیں منصب اور جاہ و جلال کی بھی ہوسکتی ہے ۔ لیکن اسلام اور اس کے نام کو بدنام کرنے کی سازشوں کے ساتھ ہی ہزاروں لاکھوں بے گناہوں کے قتل اور قتل کی وجہ کو روکنے کے لیے ایسی قربانیاں ناگزیر ہیں ۔ اس کی سب سے زیادہ ضرورت اس لیے ہے کیونکہ اسلام نے ہمیشہ ہی جنگ کو آخری حربہ قرار دیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس نےجنگ کے بھی اصول متعین کیے ہیں جس میں بے گناہوں ، ضعیفوں ، عورتوں اور بچوں کا خون کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ اسلام نے ہر ایک کوجہاد کا اعلان کرنے کا حق نہیں دیا ہے۔ اس لیے جہاد اور جہاد کے نام پر دھندہ میں فرق کرناضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ عوام الناس کو یہ فرق سمجھانا ضروری ہے۔
31 اکتوبر، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/killings-jihad-/d/14318