New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 02:52 AM

Urdu Section ( 10 Jul 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Poison of Growing Religious Intolerance مذہبی عدم رواداری کا بڑھتا ہوا زہر

 

 

 

اسد رضا

10 جولائی، 2015

اگر چہ مذہبی عدم رواداری کاالزام اہل یوروپ مسلمانوں پر اکثر لگاتے رہے ہیں، لیکن انہوں نے خود اپنے گریباں میں جھانکنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔حالانکہ یوروپی ممالک میں ایک سروے کے مطابق 62 فیصد شہری ملحد یعنی خدا او رمذہب کے منکر ہیں اورا س کا سبب سائنسی و منطقی فکر کا فروغ ہے۔ اسی لیے جدید یوروپی مفکرین ایشیائی باشندوں کو مذہبی لحاظ سے قدامت پرست اور پسماندہ قرار دیتے ہیں اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ یورو پ و امریکہ اور آسٹریلیا میں مذہبی اور نسلی تعصب صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ایشیائی و افریقی باشندوں او ر ہندو بھائیوں کے ساتھ بھی برتا جاتا ہے ۔ حال ہی میں امریکہ میں سیا ہ فام لوگوں پر امریکی پولیس کے جان لیوا حملے اور قاتلوں کو بغیر سزا دیے رہا کرنے کے واقعات کے بعد ہی صدر براک اوباما کو یہ کہنا پڑا کہ ان کے ملک پرنسل پرستی کی تاریخ کے سائے ابھی تک موجود ہیں ۔آسٹریلیا ، فرانس اور برطانیہ میں بھی نسلی و مذہبی امتیاز تاحال جاری ہے ۔ تاہم اس حقیقت کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ بیشتر یوروپی ممالک اور امریکہ کے سعودی عرب ، کویت ، قطر ، مصر ، تیونس ، عمان ، یو اے ای اور بحرین وغیرہ کے ساتھ خوشگوار معاشی و سفارتی تعلقات کے باوجود اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ ان یوروپی ممالک و امریکہ میں سوتیلا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اب تو چین، ہندوستان ، میانمار اور سر ی لنکا میں بھی مسلمان عموماً اکثریتی عتاب کا شکار ہوتے رہتےہیں ۔ لیکن یہ بات دیگر ہے کہ یہ مذکورہ بالا ایشیائی ممالک خود کو سیکولر قرار دیتے ہیں ۔ بھاگلپور ، مراد آباد و یوپی کے دیگر شہروں اور گجرات ہریانہ ، آسام ، آ ندھرا پردیش، تلنگانہ ، تمل ناڈو ، مدھیہ پردیش وغیرہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی تپش کو آج بھی مسلمان محسوس کرتےہیں ۔ تاہم یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ خود مسلم ممالک مثلاً پاکستان، عراق، افغانستان، شام ، یمن ، سعودی عرب ، کویت ، مصر و غیرہ میں تو مسلمان کچھ زیادہ ہی خو دکو غیر محفوظ سمجھتےہیں       کیونکہ ان ممالک میں دیگر مذاہب کے لوگ مسلمانوں کو تباہ و برباد اور قتل نہیں کررہے ہیں بلکہ خود اپنے آپ کو دین کا محافظ ، قرآن و حدیث کا پیروکار کہنے والے طالبان ، القاعدہ اور داعش کے ممبران ہی مساجد ، امام بارگاہوں ، درگاہوں ، مزاروں، کاروں، بازاروں ، اسکولوں، اور گلی محلوں میں خود کش حملے کرکےاپنے دینی بھائیوں کا نہایت بے دردی سے خون بہا رہے ہیں اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس خوان خرابہ اور تباہی و بربادی پر مبینہ مسلم دہشت گرد فخر بھی کرتےہیں ۔

مذہبی عدم رواداری کے زہر میں اضافہ کاسبب دنیاکے مختلف مذاہب کی سیاست کاری یعنی مذہب کو حصول اقتدار کا ذریعہ بنا دینا بھی ہے او ر یہ صرف مسلم ممالک میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان ، فرانس، میانمار اور سری لنکا جیسے غیر مسلم ملکوں میں بھی مذہب کو سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا جاتاہے ۔ پاکستان میں قیام مذہبی ریاست نعرہ لگا کر اقلیتوں پر جن میں ہندو اور عیسائی کے علاوہ مسلم اسمٰعیلی وشیعہ اقلیتی بھی شامل ہیں، ظلم کیے جاتے ہیں ، انہیں بسوں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیا جاتاہے ، جھوٹے مقدمات میں پھنسا یا جاتاہے او رکبھی کبھی اکثریتی فرقہ کے لوگ انہیں جسمانی و ذہنی طور پر پریشان کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں او ر عیسائیوں پر اکثریتی فرقہ کی جانب سے مختلف شہروں میں حملے بھی ہوتےہیں ، فرقہ وارانہ فساد میں اقلیتی فرقہ کے جانی و مالی نقصانایت دانستہ طو رپر کیے جاتے ہیں ۔ میرٹھ ، مراد آباد، بھاگلپور، علی گڑھ ،احمد آباد،حیدر آباد ممبئی، جےپور، کوسی، سہارنپور وغیرہ میں کئی فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں جن میں اقلیتی فرقہ کا کروڑوں کامالی نقصان ہوا ، ان کے گھر اور دکانیں لوٹی گئیں اور انہیں نذر آتش کیا گیا اور بے شمار لوگوں کو ہلاک و زخمی بھی کیا گیا ۔ حال ہی میں ہریانہ کے دیہات اٹالی، ٹیکری اور ابھود میں مسجد ، گھروں اور خود مسلمانوں پر حملے کر کے انہیں نقصان پہنچا یا گیا ۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں اب دھرم کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ سنگھ پریوار کی تنظیمیں بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد اور خود آر ایس ایس ہی نہیں بلکہ بی جےپی و شیوسینا کے بعض مرکزی و ریاستی وزیر بھی اقلیتوں کو دھمکاتے اور اکثریتی فرقہ کو مشتعل کرتے رہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو حق رائے دہی یعنی ووٹ سے محروم کردیا جائے ۔ ایک مرکزی وزیر تو وزیر اعظم نریندر مودی کے مخالفین کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دینے سے بھی نہیں چوکے ۔

دہلی کی ساکیت کالونی میں سنگھ حامی اسکالر ہمارے ایک پڑوسی کمار صاحب رہتےتھے جو پارک میں اکثر مل جاتے تھے اور حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے تھے ۔ وطن عزیز میں سیکولرزم کو درپیش خطرہ کا جب میں نے ان سے ذکر کیا تو انہوں نے فوراً سوال کیا  ‘‘ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے وطن میں بھی تو سیکولرزم چاہئے ، لیکن انہوں نے کبھی بھی سعودی عرب، ایران،پاکستان، بنگلہ دیش، اور دیگر مسلم ممالک میں سیکولر نظام قائم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ کبھی کسی ہندوستانی مسلم تنظیم نے یہ مانگ نہیں کی کہ سعودی عرب میں ہندو بھائیوں کو اپنےمردے نذر آتش کرنے کی اجازت دی جائے’’ ۔ میں نے کہا ہندوستانی مسلمان دیگر ملکوں کے قوانین میں تبدیلی کامطالبہ کس طرح کرسکتے ہیں ۔ وہ تو اپنے وطن کی ہی بات کرسکتے ہیں ۔ یہ سن کر کمار صاحب نے کہا ۔ مسلم ممالک میں مذہبی تنگ نظری زیادہ ہے ۔ ایران میں جب ایک عیسائی فارسی اسکالر نےاپنی دوست ایرانی اسکالر سے شادی کرنا چاہی تو اس سے کہا گیا کہ وہ اسلام مذہب قبول کر کے ہی شادی کرسکتا ہے کیونکہ ایران میں اسلامی قوانین رائج ہیں جن کے مطابق غیر مسلم کسی مسلم سے اسلام قبول کرنے کے بعد ہی شادی کرسکتا ہے ۔ اب اگر ہندوستان میں یہ لازمی کردیا جائے کہ غیر ہندو کسی ہند و سے اپنی شدھی کر اکے ہی یعنی ہندو دھرم اختیار کرکے ہی شادی کرسکتا ہے تو ساری دنیا کے مسلمان چیخ پڑیں گے ۔’’ ہم نے عرض کیا ‘‘ایران ایک سیکولر ملک نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوریت ہے جب کہ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے’’۔

‘‘ اسی لیے تو ہماری مانگ ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جائے جہاں غیر ہندوؤں کو اسی طرح رہنے کی اجازت دی جائے جس طرح ایک مسلم کے ذریعہ مذہب تبدیل کیے جانے پر اسے مرتد قرار دے کر قتل کیے جانے کے اسلامی حکم کی بھی تنقید کی ۔ اگر چہ میں نے اس سلسلہ میں طویل بحثیں کیں لیکن کمار صاحب ہندوستان کو ہندو راشٹر اور سارے ملک کو ہندو تہذیب میں رنگنے کی وکالت کرتے رہے۔ یہی یعنی وہ عیسائی مشنریوں کوبھی ہدف تنقید بناتے رہتے تھے ۔ اگر چہ ساکیت سے جسولہ نقل مکانی کے بعد کمار صاحب سے میری ملاقات نہیں ہوئی لیکن یہ حقیقت ہےکہ ہندوستان جمہوریت نشان میں مذہب اور دھرم کے نام پر تعصب کا زہر بتدریج پھیل رہا ہے ۔

اگر چہ اسلام ، ہندو ازم ، بودھ دھرم اور عیسائیت ، جین مت اور سکھ پنتھ وغیرہ کے بانیان عظام نےایک دوسرے کے عقائد و مذہب کا احترام کرنے اور ایک اچھا انسان بننے کی تعلیم دی ہے لیکن اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف مذاہب سے وابستہ حکمرانوں نے دیگر دھرم والوں پر جبربھی کیا او رخونریز جنگیں بھی کیں ۔لہٰذا اکیسویں صدی میں تو تمام مذاہب کے رہنما مذہبی عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے زہر کا علاج کرنے کےلئے ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ہر ملک میں خواہ وہ عیسائی مملکت ہو یا بودھ ، اسلامی ریاست ہو یا یہودی ، اقلیتی اہل مذاہب کو اپنے اپنے عقائد کے لحاظ سے عبادت کرنے ، مردوں کی آخری رسومات ادا کرنے اور عبادت گاہیں بنانے کی مکمل آزادی ہو اور کسی بھی ملک یا شہر میں فرقہ وارانہ فساد ہونے کی صورت میں امن قائم کرنے والی بین الاقوامی فورسیز تعینات کی جائیں ۔ ہر ملک میں ایسی فورسیز ملک کے رقبے اور آبادی کے حساب سے تعینات کی جائیں ۔ ‘‘تمہارا دین تمہارے ساتھ، ہمارا دین ہمارے ساتھ ہے ’’ ‘‘ عدم تشدد سب سے بڑا دھرم ’’ اور سرو دھرم سمبھاؤ ( سب مذاہب کے پیروکار ’’ بقا ئے باہم ’’ کی راہ پر چلیں تو یقیناً عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے زہر کودنیا کے ہر ملک ، شہر اور گاؤں سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

10 جولائی ، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/poison-growing-religious-intolerance-/d/103852

 

Loading..

Loading..