اسد مفتی
9جون ، 2012
ہالینڈ کے ایک جریدے نے
‘‘وال اسٹریٹ جرنل’’ کی ایک رپورٹ کو اپنے ادارتی تجزیہ کے ساتھ دوبارہ شائع کیا ہے۔
رپورٹ میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی کوئی شہریت نہیں،وہ
سب اسلام کے دھاگے میں بندھے اپنے ہی ملک ،وطن اور دیش کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔جریدے
کے مطابق مسلمان کرۂ ارض کے کسی بھی حصہ پر موجود ہوں وہ دوسرے ملک یا کسی بھی ملک
کے مسلمان کا ‘‘بھائی’’ ہے۔تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو دنیا کے دیگر
ملکوں میں شہریت دینے کے قانون پرنظرثانی کرنی چاہئے کہ مسلمان چاہے کسی بھی ملک وقوم
کا حصہ بن کر صدیوں تک بظاہر ان کےرسوم و رواج پر عمل کرے لیکن ایک نہ ایک دن وہ اسلام
کی بنیادی شدت پسندی کی تعلیمات سے ضرور متاثر ہوتا ہے اور اپنی مذہبی کتاب قرآن کی
اس ہدایت پر عمل کرتا ہےکہ: ‘‘اے ایمان والو! تم یہود نصاریٰ کو دوست مت بناؤ کیونکہ
یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں’’۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہےکہ بعض
علما نے ارادتاً یاغیر ارادی طور پراسلام کو بڑا نقصان پہنچا یا ہے یہ لوگ اسلام کو
غیر مسلموں ، مغرب اور امریکہ میں اشتعال انگیز او رعدم رواداری وعدم تحمل کا حامل
بنا کرپیش کررہے ہیں۔ ا س قسم کا تاثر پیدا
کرنے والے اقدامات میں بنیادی تبدیلی لاکر انہیں درست سمت دینا ضروری ہے۔ کچھ مذہبی
رہنما مذہب کی روح نہیں سمجھتے لیکن اللہ کا مقرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ کہتے
ہیں کہ اسلام میں کسی قسم کی بھی قومی شناخت نہیں ہے، اسلام پوری دنیا کیلئے ہے، کوئی
عجمی یا عربی نہیں ،کوئی کشمیری ، سندھی یا بلوچی نہیں ہے۔ ترکوں ،ایرانیوں ،پاکستانیوں
، ہندوستانیوں ،جرمنوں ، فرانسیسیوں ،انگریزوں یا کسی اور قوم کا کوئی ذاتی مذہب نہیں
ہے تمام افراد ‘‘مسلم أمہ’’کہلاتے ہیں۔ مسلمان کسی ملکی قانون کا پابند نہیں ہے وہ
صرف اللہ کا حکم ماننے کا پابند ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ‘‘مسلم أمہ’’ کو بگاڑنے
کیلئے صور قیامت پھونک رکھا ہے۔ ‘‘یہود نصاریٰ
دشمن’’ کے اس دور میں اسلام کی غلط شبیہ پیش کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ خود ہمارا ہے
جن کی اجتماعی یا ذاتی زندگی کسی طور اسلام سے میل نہیں کھاتی ہے۔ اس میں عام مسلمان
ہی نہیں پڑھا لکھا طبقہ اور نام نہاد علما
ومشائخ بھی شامل ہیں ۔ ایسے میں نام نہاد علما سے شکوہ تو بے جا ہوگا کہ وہ اپنے ایجنڈے
پر ‘‘بڑے خلوص ’’ سے عمل پیرا ہیں ۔ یہ علما
ومسائخ ،عالم فاضل کے مقام سے قطعی ناآشنا ہیں جب سے ان ‘‘مفکر اسلام ’’ نے اونچے
کردار کے بجائے اونچے پائنچے پر زور دیا ہے ہم نیچے ہی گرتے جارہے ہیں ۔ یہ جالی دار
ٹوپی اور ٹخنوں سے اونچے پاجامے پہن کر دنیا سے بے خبر اور دین سے باخبر ہورہے ہیں۔
دوسرے مذاہب کے احترام کی
بات کرنا آج کل سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع ہے لیکن اس موضوع پر اس قدر صراحت کے ساتھ
دوسرے مذاہب کا احترام کئے جانے کا حکم بھی اسلام نے دیا ہے۔ایک جنازہ گزر رہا تھا
، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم نے بتایا کہ یہ یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپ نے جواب دیا : ‘‘ کیا یہ انسان نہیں تھا؟
’’ ۔ میرے حساب سے کسی انسان کا ہونا اس کے احترام کیلئے کافی ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں
جی رہے ہیں، یہ صدی ہر لحاظ سے گزشتہ صدیوں سے مختلف ہے۔ اس صدی کے تقاضے مختلف ہیں،
ہم سب مسلمان ، یہودی ، عیسائی ، ہندو اور دوسرے تمام مذاہب یا سرے سے مذہب پر یقین
نہ رکھنے والے ایک دوسرے پر انحصار کر کے بقائے باہم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔یہی
عصری شعور ہم انسانوں سے بالخصوص مسلمانوں
سے تقاضا کرتا ہے کہ ہمارے درمیان خواہ کتنے ہی اختلافات ہوں لیکن مخالفت اور دشمنی
نہیں ہونی چاہئے ۔ ہم عیسائی ہوں، مسلمان ہوں، یہودی یا ہندو ہوں ،ہماری سب سے بڑی
غلطی یہ ہے کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے اپنے مذہب کو پوجتے ہیں اور اسے
آپس میں پھوٹ ڈالنے اور دشمنی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ ہم (مسلمانوں) پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ عیسائی
اور یہودی عقائد کے ساتھ خصوصی برادرانہ جذبہ محسوس کریں، یہ تسلیم کرنے کا وقت آپہنچا
ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی حضرت موسیٰ ،حضرت عیسیٰ علیہم السلام یا
دوسرے مذاہب کی مخالفت نہیں کی تھی۔ میر ا یہ بھی ماننا ہے کہ اسلام نے ماننے والوں
اور عام پیروکار وں میں اسلام کی روح تک رسائی نہیں ہوپاتی۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کے درمیان اسلام کے وہ حصے رائج
ہیں جن کا تعلق رسم ورواج سے ہے او رمذہب کی بنیادی باتیں ‘‘ علما اور خواص ’’ تک محدود
ہیں۔
میرے حساب سے فریقین (یہودونصاریٰ
ومسلم)کے درمیان غلط فہمیوں کی اصل بنیاد عدم واقفیت ہے ہم نے یا تو ایک دوسرے کو اس
کے اصل ماخذ سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی یا پھر اپنی شرطوں یا اپنے ذہنی وفکری فریم ورک
میں پڑھنے کی کوشش کی ہے اس لیے ایسا لٹریچر ہم مسلمانوں کے سامنے نہیں آسکا جو دوسرے
مذاہب کو صحیح اور سنجیدہ بنیادوں پر سمجھنے میں معاون ہو۔ قابل غور ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال میں البیرونی
کی کتاب الہند کے بعد کوئی دوسری ایسی کتاب مسلمانوں کی طرف سے نہیں لکھی گئی (کم از کم میری نظر سے نہیں گزری)اس
کتاب کا مقصد البیرونی کی نظر میں بھی وہی تھا جو میرا اس کالم کے لکھنے میں ہے یعنی
مذاہب کے درمیان ‘‘ مذہبی مکالمہ’’اور یہ بات البیرونی نے کتاب کے مقدمے میں واضح طور
پرلکھ دی ہے۔ (البیر ونی کا ہندوستان صفحہ 5) اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ غیر
جمہوری اور انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد یورپی ممالک میں
آباد ہے اور اس کے جواز میں کہی جانے والی یہ بات قابل فہم نہیں ہے کہ وہ مسلم مخالف
حلقے کی کوششوں کا رد عمل ہے کہ ایک غلط عمل دوسرے غلط عمل کے جواز کی بنیاد نہیں بن
سکتا ۔ آج یہود ونصاریٰ ومسلم مکالمے کی اشد
ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت مغرب کی طرف سے مذہبی مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوچکا
ہے ۔ آج ایک طرف ‘‘یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ’’ اور دوسرا ہمارا دین دشمنوں سے
درگزر کرنے اور ان کے سلسلے میں عالی ظرفی کا ثبوت دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ دوانداز فکر ہیں جو ان بین المذاہب مذاکرات کے
سلسلے میں پائے جاتے ہیں ۔ ان دونوں میں کون
سا انداز فکر صحیح اور حقیقت پر مبنی ہے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔مغرب (یہود
ونصاریٰ) کی ترقی او رہماری پسماندگی کے حالات ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہیں
۔ ہر شخص خود غور کر کے کہ صحیح بات تک پہنچ سکتا ہے۔ ویسے یہاں یہ تسلیم کرلینے میں
کوئی حرج نہیں ہے کہ کل کے مسئلے کو کل سلجھالیں گے لیکن اگر آج بڑی طاقتوں (یہود
ونصاریٰ ) سے دوستی نہ کی توشاید کل آئے گا ہی نہیں ۔
کس سلیقہ سے متاع ہوش ہم کھوتے
رہے
گرد چہرے پر جمی تھی آئینہ
دھوتے رہے
9جون ، 2012 بشکریہ : روز
نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/asad-mufti,-tr.-by-new-age-islam/islam,-muslims-and-enmity-with-jews-and-christians/d/7671
URL: