اسد مفتی
25 مارچ، 2013
یوروپ میں برقع کا مسئلہ ابھی طے نہیں ہوا کہ ایک اور مسئلے نےسر اٹھا لیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی کثیر آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے جیسے پاکستان کی مسلمانوں پر ،لیکن مسیحی اکثریت رکھنے والا یہ دیس پاکستان کے بر عکس نہ صرف دنیا بھر میں امن کا گہوارہ مانا جاتا ہے بلکہ غیر جانبدار بھی کہلا تا ہے اس دیس کی خوبصورتی نہ صرف قدرتی مناظر میں اپنا جواب نہیں رکھتی بلکہ اسےپھولوں کی وادی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے مگر کچھ عرصہ سے اس سرزمین امن پر جلسے جلوسوں او رمظاہروں کا سایہ پڑ رہا ہے۔
یہ عاقبت نا اندیش اورکوتاہ نظر افراد اپنے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اس خطہ ارضی کی خوبصورتی کو دھندلانے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ گذشتہ دنوں سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے نئی تعمیر شدہ مسجد کے میناروں کی رونمائی پر پابندی لگادی اس سے قبل میناروں پر پابندی لگا ئے جانے کے لئے ووٹنگ ہوئی اور سوئس ووٹروں نے اکثریت سے پابندی لگائے جانے کو قانونی حیثیت دے دی۔ سوئٹزر لینڈ میں اس وقت چار مسجد یں ہیں جو کہ آبادی کے لحاظ سے انتہائی مناسب ہیں لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم او آئی پی کے صدر عبدالمجید الداعی کا کہنا ہے کہ یوروپ کے لوگوں میں اسلام کے بارے میں جاننے کی زبردست خواہش ہے ان میں کچھ تو اسلام کے بارے میں اس لئے جاننا چاہتے ہیں کہ آخر اسلام اور دہشت گردی کا آپس میں کیا تعلق ہے او رکچھ سوئٹزر لینڈ کے ایک سیاستداں ڈینئل سٹریچ جیسے لوگوں کا ۔ ڈینئل پہلا شخص تھا جس نے سوئٹزر لینڈ میں مساجد پر تالے لگانے اور میناروں پر پابندی لگانے کی مہم شروع کی تھی اس نے اپنی اس مسلم مخالف تحریک کو ملک گیر پیمانے پر فروغ دیا اور مساجد کے گنبدو میناروں کے خلاف رائے عامہ استوار کی لیکن آج وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوچکاہے اور اب مسلمانوں کی ترغیب پر سوئٹزر لینڈ میں یورپ کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے ۔
سوئٹزر لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی پانچ فیصد بتائی جاتی ہے لیکن مساجد کی لمبائی چوڑائی اور اونچائی پر ضرورت سے زیادہ زور دے کر ہنگامہ آرائی کی جارہی ہے ۔ کچھ لوگوں کی خام خیالی ہے کہ مسجد کےمینارو ں نے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کیا ہے اس کے برعکس روشن خیال اور حقیقت پسندی کے مظہر مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اسلام عظمت کے لیے میناروں اور گنبدوں کے سہارے کی قطعی ضرورت نہیں ملک کا قانون میناروں پر بے شک پابندی لگا سکتا ہے دل و دماغ پر نہیں ۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ مقامی عام افراد کا خیال ہے کہ مسلمانوں نے مسجد کے میناروں کو میزائیل کی شکل دے دی ہے۔
سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کے حوالے سے ریفرنڈم کا پس منظر دو اہم ترین واقعات ہیں جن کو سوئٹزر لینڈ پیپلز پارٹی اور دیگر دائیں بازوں کی جماعتوں نے بنیاد بنایا۔ ان لوگوں نے اپنے خیال میں مساجد کے میناروں کے خلاف مہم کی بنیاد اپنے اس نظریات پر رکھی کہ مساجد کے مینار دراصل مذہبی و سیاسی طاقت کے نشان ہیں اور ترک وزیر اعظم طیب اردگان کی 1997 کی ایک تقریر کا مسلسل حوالہ دیتے رہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘‘مساجد ہماری بیرکس ، ان کے گنبد ہمارے سروں کے ہیلمٹ ، ان کے میناروے ہمارے مزائیل ، ا ن کی برجیاں ہماری سنگین اور غازی ہمارے سپاہی ہیں’’ ۔ اس پس منظر میں سوئٹزر لینڈ پیپلز پارلی اور فیڈرل ڈیموکریٹک یونین مسلمانوں کے مستقبل کے ارادوں سے خوف زدہ ہوگئیں لیکن صحیح معنوں میں مساجد کے میناروں پر تنازع کا باقاعدہ آغاز 2005 میں ہوا تھا جب ‘‘ترک کلچرایسو سی ایشن ’’ نے شمالی سوئٹزر لینڈ میں اسلامی کمیونٹی سینٹر کی عمارت پر 16 میٹر بلند مینار تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی جس پر گرد و نواح کے سوئیز باشندوں نے اس کی شدید مخالفت کی، مقامی سرکاری اداروں نے لوگوں کے احتجاج کے پیش نظر مینار کی تعمیر کی اجازت کو موخر رکھا آخر کار لوگوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج کی وجہ سے کیونل بلڈنگ اینڈ پلاننگ کمیشن نے یہ درخواست مسترد کردی جس پر مسلمانوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا اور اسلامی کمیونٹی سینٹر نے بلڈنگ اینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو اپیل کی جو منظور کر لی گئی تاہم مقامی باشند ے یہ کیس مقامی انتظامی کورٹ میں لے گئے مگر وہاں بھی ناکام رہے اور بال آخر چار سال کی طویل عدالتی و قانونی جنگ جیتنے کے بعد اسلامی کمیونٹی سینٹر جولائی 2009 کو یہ جنگ ریفرنڈم کروانے کے فیصلے پر متفق ہوگئی ۔
میناروں پر پابندی لگانے جانے کے لئے ووٹنگ ہوئی سوئز باشندوں کو اس قدر مشتعل کردیا گیا تھا کہ انہوں نے ریفرنڈم میں بھر پور حصہ لیا اور آخر کار ان کی جد وجہد رنگ لائی جس کے نتیجہ میں مسجد کے میناروں پر پابندی لگادی گئی یہی نہیں ادھر ہمارے سابق آقا بر طانیہ نے بھی سوئٹزر لینڈ کے سر میں سرملاتے ہوئے برطانیہ کی سندھر سٹ رائیل ملٹری اکیڈمی جہاں جنرل ایوب خان کے علاوہ پرنس ولیم او رپرنس ہیری نے بھی ٹریننگ حاصل کی ہے اس کےقریب یا یوں کہئے اس کی بغل میں مسجد کی تعمیر پر مخالفت کا اظہار کیا ہے اس سے قبل آرمی چیف اس عظیم الشان فوجی اکیڈ می کے قریب مسجد کھڑی کرنے پر ناراضی کااظہار کرچکے ہیں ان کے خیال میں مسجد کا بڑا گبند او رسوفٹ سے بلند میناروں سے سیکورٹی کو خطرہ ہے یعنی مسجد کی تعمیر سیکورٹی رسک ہے کہ وانچے اونچے میناروں سے فوجی مرکز میں ہونے والی متعلقہ سر گرمیاں ، ٹریننگ اور اندرونی تنصیبات پر نظر رکھی جاسکتی ہے اس لئے فوج مسجد کی تعمیر کی مخالفت کررہی ہے یہاں یہ بات بھی کہنا ضروری ہے کہ مقامی افراد بھی اس مسجد کی تعمیر کے یکسر مخالف ہیں ۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ مذہبی آدمی کی خواہشات او رمفادات اسے اور زیادہ مذہبی بنا دیتے ہیں اور جو شخص مذہبی تعلیم و علم حاصل کرنے کا خواہاں ہو وہ پہلے یہ طے کرے کہ تحصیل علم سے اس کے کیا مقاصد ہیں؟
گھولتی کانوں میں ہے تلخی صدا اذان کی
ہے پریشانی بہت ان گنبد و مینار سے
25 مارچ، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/extraordinary-changes-europe-/d/11259