اسد مرزا
24 اگست 2020
کورونا وائرس کے اس دور
میں ایک غیر معمولی بات یہ سامنے آئی کہ عالمی سطح پر خواتین رہنماوں نے مرد
رہنماوں کے مقابلے میں اس وبائی بحران کازیادہ بہتر، موثر اور امید افزا انداز میں
مقابلہ کیا ہے۔جن ملکوں میں قیادت کی باگ ڈور خواتین کے ہاتھوں میں ہے ان ملکوں نے
اس بحران پر بہتر انداز میں قابو پایا ہے ۔اس کے علاوہ ان ملکوں میں اموات کی
تعداد مردوں کی قیادت والے ممالک کے مقابلے میں تقریباً نصف رہی ہے۔جرمنی کی
انگیلا میرکل، نیوزی لینڈ کی جسینڈا آرڈن ،ڈنمارک کی میٹے فریڈرکسن، تائیوان کی
سائی انگ وین اور فن لینڈ کی سنا مارین کی کامیابی کی کہانیاں دنیا بھر میں سرخیوں
میں رہی۔ لیکن اب ایک تقابلی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین رہنماوں
نے اپنے مرد ہم مناصب کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
خواتین رہنماوں کا رول
کووڈ۔۱۹؍پر
قابو پانے کے سلسلے میں دنیا کے۱۹۴؍ممالک
کے رہنماوں کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا تجزیہ کرتے ہوئے سینٹر فار اکنامک
پالیسی ریسرچ اور ورلڈ اکنامک فورم نے ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے
کہ مرد اور خواتین رہنماوں کے اقدامات کا فرق حقیقی ہے او ر اسے خواتین رہنمائوں
کے ذریعہ اپنائے گئے پیش اقدامی(Proactive) اور مربوط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا
ہے۔
لیور پول یونیورسٹی میں
ڈیولپمنٹل اکنامکس کی پروفیسر سپریا گاریکی پتی اور ریڈنگ یونیورسٹی کی اوما کمبھم
پتی نے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔ انہوں نے برطانوی اخبار ’ دی گارڈین‘ سے بات چیت کرتے
ہوئے کہا کہ ’ہمارے نتائج واضح اشارہ کرتے ہیں کہ خواتین رہنمائوں نے ممکنہ
نقصانات کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کیے ۔‘ ان دونوں کا مزید
کہنا تھا کہ’ تمام معاملات میں ہم نے پایا کہ انہوں نے لاک ڈاون کرنے کا فیصلہ بروقت
لیا ۔ حالانکہ اس کے طویل مدتی اقتصادی مضمرات ہوسکتے تھے لیکن اس سے بلاشبہ ان
ملکوں میں انسانی جانوں کو بچانے میں مدد ملی اور ان ملکوں میںکم تعداد میں اموات
اس کا واضح ثبوت ہے۔‘اس رپورٹ کے سلسلے میں تجزیہ اور نتائج اخذ کرنے کے لیے کووڈ۔۱۹؍کے
سلسلے میں پالیسی اور لائحہ عمل کے علاوہ۱۹؍مئی
تک کیسز اور اموات کی تعداد اور مختلف ممالک میں پائے جانے والے داخلی اسباب اور
وجوہات کو بھی مدنظر رکھاگیا۔ان میں جی ڈی پی، مجموعی آبادی، آبادی کا حجم اور عمر
دراز افراد کا تناسب، نیز صحت پر فی کس سالانہ خرچ، بین الاقوامی سفر کی سہولت اور
سماج میں عمومی صنفی مساوات کی سطح جیسے مختلف پیمانوں کو بھی مدنظر رکھا گیا ۔
ماضی میں عالمی
خواتین رہنما
Mrs.
Indira Gandhi
------
نومبر۲۰۱۹ءتک دنیا کے مختلف ممالک
میں۸۹؍خواتین
رہنما وزیر اعظم یا صدر کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوچکی ہیں۔کسی ملک میں جمہوری
طور پر منتخب پہلی وزیر اعظم سری لنکا کی سریماو بندرانائیکے تھیں۔جنہوں نے۱۹۶۰ءکے عام انتخابات میں
اپنی پارٹی کو کامیابی سے ہمکنار کرایا
اور سری لنکا کی سیاست میں سنہالیوں کے لیے پیش قدمی کاایک نیا راستہ کھول
دیا۔
کسی ملک کے صدر کے طور پر
منتخب ہونے والی پہلی خاتون ارجینٹینا کی ایزابیل مارٹینز ڈی پیرون تھیں ۔ جنہوں
نے۱۹۷۴ءمیں
نائب صدر کے عہدہ پر رہتے ہوئے ملک کے اعلی ترین آئینی عہدے پر پہنچنے میں کامیابی
حاصل کی۔جب کہ کسی ملک کی پہلی منتخب خاتون صدر آئس لینڈ کی ویگڈیز فنبوگاڈوٹر تھیں ۔جو۱۹۸۰ءمیں صدر بنیں۔
اس فہرست میں اسرائیل کی
چوتھی وزیر اعظم گولڈا مائر کا نام بھی شامل ہے۔دنیا کی چوتھی اور اسرائیل کی پہلی
خاتون وزیر اعظم گولڈا مائر کو اسرائیلی سیاست کا’ خاتون آہن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ
اصطلاح بعد میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا
گاندھی کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔سابق اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گورین ،
گولڈا مائر کو ’ حکومت میں سب سے بہترین مرد‘ کہا کرتے تھے۔مارگریٹ تھیچر برطانیہ
کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ان کی پالیسیوں کی ’تھیچرازم ‘ کے نام سے جاناجاتا
ہے اور ان کی غیر مصالحتی سیاست اور قائدانہ اسٹائل کی وجہ سے انہیں ’ خاتون آہن ‘
کہا جاتا ہے۔انہوں نے فاک لینڈ جنگ میں برطانیہ کی قیادت کی اوراسے فتح سے ہمکنار
کرایا۔ ۸۵۔۱۹۸۴ءمیں تنہا ہی کان کنوں کے
ہڑتال کو ختم کرانے میں کامیابی حاصل کی ۔
ایشیا میں بھی بہت سی
خواتین رہنما ہوئی ہیں جنہیں ان کی اعلی قیادت کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان میں
سریما و بندرانائیکے کی بیٹی چندریکا کمارا تنگا شامل ہیں ، جو سری لنکا کی پہلی
خاتون صدر بنیں۔ وہ بعض ابتدائی ناکامیوں کے باوجود تمل مسئلے کو پرامن طریقے سے
حل کرنے میں کامیاب رہیں۔
ہندوستان میں اندراگاندھی
سے کون واقف نہیں ہے ۔ وہ ملک کی سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہیں۔ انہوں نے۱۹۷۲ءمیں پاکستان کے خلاف جنگ
میں ملک کی کامیاب قیادت کی اور بنگلہ دیش کے قیام میں اہم رول ادا کیا۔ اندرا
گاندھی کو عرب اسرائیل تصادم میں فلسطینیوں کا زبردست ہمدرد اور حامی کے طور پر
یاد کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے امریکی تائید والی مشرق وسطی کی سفارت کاری کی
شدیدنکتہ چینی کی اور اس کی کبھی تائید نہیں کی ، جس کا منفی اثر ہند۔
Benazir
Bhutto
-----
امریکا تعلقات پر بھی
پڑا۔۱۹۹۹ء
میں بی بی سی نے ایک آن لائن سروے میں انہیں ’وومن آف دی ملینیم‘ کا لقب دیا تھا۔
ٹائم میگزین نے بھی انہیں دنیا کی۱۰۰؍
ایسی طاقت ور خواتین کی فہرست میں شامل کیا تھا ، جنہوں نے گزشتہ صدی میں اپنے
اقدامات سے کروڑوں لوگوں کی قسمت بدل دی۔بے نظیر بھٹو بھی دنیا کی اہم خواتین
رہنماوں میں سے تھیں۔ وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیر
اعظم رہیں۔ نظریاتی طور پر لبرل اور سیکولر خیالات کی حامی بے نظیر۱۹۸۰ءکی دہائی کے اوائل سے۲۰۰۷ءمیں اپنے قتل تک پاکستان
پیپلز پارٹی کی شریک چیرمین بھی رہیں۔بنگلہ دیش میں ایک دوسرے کی حریف دو خواتین
خالدہ ضیاء اور شیخ حسینہ نے ملک کے وزیر اعظم کے طورپر خدمات انجام دیں۔ فوربز
میگزین نے خالدہ ضیاء کو دنیا کی۱۰۰؍سب
سے طاقت ور ہنماوں میں۳۳؍واں
مقام دیا تھا ۔
دوسری طرف موجودہ وزیر
اعظم شیخ حسینہ حالیہ دہائی میں ’دنیا کے چوٹی کے۱۰۰؍مفکرین‘
کی فہرست میں شامل ہیں۔وہ اس وقت خواتین عالمی رہنماوں کے کاونسل کی رکن ہیں۔ یہ
کاونسل موجودہ اور سابقہ خواتین صدور او روزرائے اعظم کے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک
ہے۔ہندوستان میں گزشتہ۷۳؍برسوں
کے دوران۱۶؍خواتین
نے وزیر اعلیٰ کے طورپرخدمات انجام دی ہیں۔ ان میں سچیتا کرپلانی، انورہ تیمور، محبوبہ
مفتی، ممتا بنرجی، جیہ رام جیہ للیتا اور مایاوتی چند نمایاں نام ہیں۔ جیہ للیتا
اور مایاوتی بالترتیب تمل ناڈو اور اترپردیش کی وزیر اعلیٰ رہ چکی ہیں۔دونوں کو
اپنے آ پ کو سب سے بڑا سمجھنے کے خبط کے لیے بھی جانا جاتا ہے لیکن ان دونوں نے
ہندوستانی سیاست میں ایک نئی طرح کی بنیاد بھی رکھی۔مایاوتی نے بہت نیچے سے اپنے سیاسی
کیریئر کا آغاز کیا ۔ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راو انہیں ’
جمہوریت کی کرامت‘ قرار دیتے تھے۔
خواتین رہنما زیادہ
کامیاب کیوں ثابت ہوتی ہیں؟
یہ سوال پیدا ہونا فطری
ہے کہ خواتین رہنماوں کی کامیابی کی وجہ کیا ہے؟آخر وہ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ
سے یہ خواتین رہنما اپنے شہریوں کی فلاح و
بہبود کے لیے بہتر فیصلے لینے میں کامیاب رہیں۔کیا یہ ان کی عملیت پسندی تھی۔ یا
ایک خاتون کی حیثیت سے ان کی فطری صلاحیتیں؟ غالباً کسی قطعی فیصلے پر پہنچنے کے
لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ لیکن تاریخی طور پر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ
ان خواتین رہنماوں نے مردوں کے غلبے والی اس دنیا میں اپنے حوصلے ، لگن اور قوت
ارادی سے خود کو ثابت کردکھایا۔ خواتین کی اس طاقت کو سلام!
ہندوستان میں اندراگاندھی
سے کون واقف نہیں ہے ۔ وہ ملک کی سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہیں۔ انہوں نے۱۹۷۲ءمیں پاکستان کے خلاف جنگ
میں ملک کی کامیاب قیادت کی اور بنگلہ دیش کے قیام میں اہم رول ادا کیا۔ اندرا
گاندھی کو عرب اسرائیل تصادم میں فلسطینیوں کا زبردست ہمدرد اور حامی کے طور پر
یاد کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے امریکی تائید والی مشرق وسطی کی سفارت کاری کی شدیدنکتہ
چینی کی اور اس کی کبھی تائید نہیں کی ، جس کا منفی اثر ہند۔امریکا تعلقات پر بھی
پڑا۔
مضمون نگا رسیاسی تجزیہ
نگار ہیں
asad.mirza.nd@gmail.com
24 اگست 2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/women-leaders-more-successful-than/d/122709
URL for English article: https://www.newageislam.com/current-affairs/asad-mirza/hats-off-to-women-power--are-women-leaders-better-for-the-world/d/122699
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism