اسعد عبدالرحمان
17 جولائی، 2015
خود فوجی طاقت کبھی بھی ان 'تکفیری' تحریکوں کو ختم نہیں کر سکتی جو اپنے راستوں میں تباہی مچا رہے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کر رہے ہیں جو ان کے من گھڑت مذہبی عقیدے سے اختلاف کرتے ہیں جس کا محض نام کے علاوہ اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ داعش جو کہ القاعدہ کا زہریلا فضلہ ہے، اس کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ خدا کے نام پر ظالمانہ طریقے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتر کر اسلام پر عمل پیرا ہے۔ قرآن مجید کی طاقت سے القاعدہ اور داعش کے ایسے دعووں کو بے نقاب کرنے سے ان کا نظریاتی قلعہ قمع ہو جائے گا۔
سنی مسلمانوں کا سب سے زیادہ قدیم اور عظیم الشان مذہبی ادارہ الازہر الشریف نے اپنے جاری کردہ ایک تاریخی دستاویز میں نام نہاد "اسلامی ریاست" نہیں بلکہ سول سیاسی ریاست کے قیام کی تائید و توثیق کی ہے، اور اس طرح 'سیاسی اسلام' کو اعتدال پسند یا انتہا پسند قرار دیے جانے کو قرآن کے خلاف قرار دیا ہے۔ الازہر نے اپنے موقف کی بنیاد علوم قرآنیہ پر رکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادانہ انتخابات یا بیعت کے ذریعہ عرب سول سوسائٹی پر اپنی سیاسی اتھارٹی حاصل کرکے ایک عربی سیاسی سول ریاست کا قیام کیا تھا۔
مذہبی بنیاد پرستی نے خود کو ایک مذہبی طور پر حاکم کی پوزیشن پر مقرر کر لیا ہے، اور اس طرح یہ اپنے جنونی رہنماؤں کو خدا کے ساتھ اس کا "شراکت دار" بنا رہی ہے، جو کہ قیامت کے دن کا ایک واحد حاکم اعلیٰ ہے۔ کسی مسلمان کو ایک ایسی مذہبی اتھارٹی سے روکنے کے لیے اسلام میں رہبانیت کو ممنوع قرار دیا گیا ہےجس کی بنیاد پر وہ کسی دوسرے مومن، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم کی توہین کرنے کے قابل ہو۔ قرآن ہر انسان کو ‘‘ایمان لانے یا نہ لانے’’ کی پوری آزادی عطا کرتا ہے، اس لیے کہ قرآن مقدس کی ایک آیت کے مطابق "دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے"۔ عسکریت پسند مذہبی بنیاد پرستی خدا کی نہیں بلکہ خود اپنی خدمت کر رہی ، اور یہ ایک ایسا طاغون ہے جسے کسی بھی مذہبی نام سے قطع نظر ختم کر دیا جا نا چاہیے۔
نفاذ کی قوت عملی
اسلام کو مکمل طور پر سیاسی رنگ دینا قرآن مجید کی تعلیمات کے خلاف ہے، اور اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اس کا مقصد ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام ہے جس کے رہنماؤں کو سیاسی اور مذہبی دونوں ذمہ داریاں حاصل ہوں، اور اس طرح یہ اپنی خود ساختہ مذہبی بنیاد پرستی کو مسلط کرنے کے لیے سیاسی ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طاقت کا استعمال کرنا ہے جیسا کہ ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے پر قرآن مجید کے مطابق دو شرکیہ کا موں کا ارتکاب کیا جاتا ہے: "اسلام کو نافذ کرنے کے لیے ریاست کی طاقت کا استعمال اور لوگوں کے ایمان کا فیصلہ جبکہ فیصل صرف خدا ہے، جس نے ‘‘دین میں کسی بھی جبر ’’ کو ممنوع قرار دیا ہے۔ صرف قرآن مجید کے اصول و احکامات پر مبنی ایک سول سیاسی ریاست کی توثیق کرنے والے الازہر الشریف کی دستاویز کی تائید و توثیق تمام مسلم علما اور عوام کو کرنی چاہئے، تاکہ نام نہاد سیاسی اسلام کی بطن سے پیدا ہونے والی عسکریت پسند بنیاد پرستی کے فتنہ کو ختم کیا جا سکے۔ اس تناظر میں ایک اہم بات قابل توجہ یہ ہے کہ امریکہ نے چرچ کی مذہبی اتھارٹی کو ریاست کی سیاسی اتھارٹی سے الگ رکھ کر قرآنی مثال کی پیروی کی ہے، جیسا کہ اسلام نے مسجدوں کو کسی بھی مذہبی اتھارٹی سے الگ رکھ کر کیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ شور و غل تکفیری نظریے کی وکالت کرنے والے کر رہے ہیں جن کی حمایت مظالم سے کی جا رہی ہے۔ الازہر الشریف جیسے تعلیمی ادارے جن میں وہ پرانے نصاب رائج ہیں جن کا قرآنی سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو ابن سینا، القناوی اور شابستری جیسے ماضی کی اسلامی سائنسدانوں کی سائنسی کتابوں میں پائے جا سکتے ہیں، وہ اس وقت تک تکفیری قارئین کو خاموش نہیں کر سکتے جب تک وہ سائنس کے اساتذہ کو شامل کر کے اپنے اداروں کی اصلاح نہیں کر لیتے۔ ایسی کئی قرآنی آیات ہیں جنہیں فزکس اور کیمسٹری کے علم کے بغیر کبھی نہیں سمجھا جا سکتا۔
مغربی ریاستوں کا کردار
ایک غیر ہنر مند، بے روزگار اور خود اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشِ زندگی حاصل کرنے سے مجبور انسان کبھی بھی اپنی پوری عزت اور مکمل وقار کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس طرح کی اصلاحات خاندانی منصوبہ بندی کے لئے بھی فراہم کرنی چاہیے تاکہ ان ناسازگار حالات کو ختم کیا جا سکے جن میں تعدد ازدواج کا نتیجہ اتنے بچوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ جس کی پرورش کا بار والدین نہیں اٹھا سکتے، اور انہیں خود زندگی بسر کرنے کے لیے سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کا مشاہدہ عرب اور مسلم ممالک میں کیا جا سکتا ہے۔
انتہا پسندی کے لیے اکثر اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے، جبکہ تاریخی حقائق اس میں مغربی دنیا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس نے سیاسی اسلام کا استعمال کر کے 1960 کی دہائی میں اسلامی ممالک کا غلط استعمال کیا تھا جو کہ ایک زمانے میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے ذریعہ شروع کی گئی عرب قوم پرستی کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن کے خلاف ہے۔ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے نام نہاد "اسلامی جہادیوں" کی حمایت کی، جس کے نتیجے میں القاعدہ اور اس زہریلے فضلہ داعش کا جنم ہوا، اور جو دونوں اب مغربی دنیا کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔
ایک اور عسکریت پسند ریاست اپنے صیہونی نظریے اور نسل پرست نوآبادیاتی فطرت کے ساتھ انتہا پسندوں کو توانائی دے رہی ہے۔ اسرائیل اور داعش دونوں ایک ہی سکے کے دو چہرے ہیں۔ القاعدہ اور اس کے زہریلے فضلہ داعش کا مقابلہ کرنا اور ساتھ ہی ساتھ تمام تاریخی فلسطین پر یہودیوں کے مکمل قبضے کے لیے اسرائیلی ریاست کی حمایت کرنے کا نتیجہ صرف مشرق وسطی میں خطرناک تباہی کی صورت میں ظاہر ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ یہ مغربی دنیا کو بھی دبوچ لے گا۔
پروفیسر اسعد عبدالرحمان فلسطینی انسائیکلوپیڈیا کے چیئرمین ہیں۔
ماخذ:
http://gulfnews.com/opinion/thinkers/time-to-rise-against-extremist-ideology-1.1551941
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/time-rise-extremist-ideology/d/103942
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/time-rise-extremist-ideology-/d/103963