حمیرا عالیہ
4 اگست،2024
ادب کا بنیادی مقصد لذت،
مسرت اور بصیرت ہے۔ اسی بصیرت کے حصول کے لئے ناول نگار اپنی کہانیوں میں زندگی سے
متعلق فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ فن پارے کی تخلیق کے پس پردہ یقینا ہر فن کار کا ایک
تخیل ہوتاہے اور وہ کسی خاص مقصد کے تحت اپنے تخیل کو لفظی جامہ پہناتا ہے۔ محمد
احسن فاروقی اور نورالحسن ہاشمی لکھتے ہیں : ‘ہر ناول ایک فلسفہ حیات کا عکس پیش
کرتاہے وہ عکس کتنا ہی دھندلا کیوں نہ ہو۔’’ (محمد احسن فاروقی و نورالحسن ہاشمی :
ناول کیاہے،ص :40)
ابن صفی کے ناولوں میں ان
کانقطہ نظر بالکل واضح ہے۔ وہ اپنے قارئین میں جرم کے تئیں نفرت اور قانون کا
احترام پیداکرنا چاہتے تھے۔ ان کا بنیادی مقصد معاشرے سے بدی کا خاتمہ اور امن کا
فروغ تھا۔ ذاتی طور پر وہ اسلام کے بنیادی اصول میں بھی ان کے ذاتی افکار کی جھلک
جابجا نظر آتی ہے۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح چاہتے تھے او راس کے
لیے انہوں نے جاسوسی ناولوں کا انتخاب کیا۔ حالانکہ وہ شاعری ، مزاح نگاری اور
افسانہ نگاری پر بھی قادر تھے لیکن انہوں نے جاسوسی ناولوں کے ذریعے سماجی او
رمعاشرتی برائیوں کو اجاگر کیا اور ان کے سدباب کی کوشش کی۔ ناول‘ پاگلوں کی
انجمن’ کے پیش رس میں وہ کھل کر اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہیں: ‘‘ ببانگ دہل کہہ
چکاہوں کہ معاشرے میں اللہ کی ڈکٹیٹر شپ چاہتا ہوں، لیکن سوال تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹر
شپ کیو ں کر قائم ہو’’۔
ابن صفی
--------
پھر آگے لکھا ہے: تمہارا
ظاہر کچھ بھی ہو لیکن دل مسلمان ہوناچاہئے ۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھو
۔آہستہ آہستہ تم خود ہی کسی جبرواکراہ کے بغیر اپنا ظاہربھی اللہ احکامات کے مطابق
بنالوگے۔بس پھر جیسے ہی تم انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کے آگے جھکے ،یہ سمجھ
لو کہ ایک ایسا یونٹ بن گیا، جس پر اللہ کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔ انفرادی طور پر
اپنی حالت سدھارتے جاؤ پھر دیکھو کتنی جلدی ایک ایسا معاشرہ بن جاتاہے جس پر اللہ
کی حاکمیت ہو۔ قرآن کو پڑھو اس پر عمل کرو۔ اسے علم الکلام کااکھاڑہ نہ بناؤ ۔ جس
طبقے کے تم شاکی ہو،اس کی اصلاح کی سوچو۔ ظلم و تشدد کا تصور ذہن میں نہ لاؤ ۔
ہمیشہ یاد رکھو ، تم اس کے غلام ہوجس کی مظلومیت انقلاب لائی تھی۔’’ (بحوالہ:
اوراق پارینہ، ادریس شاہ جہاں پوری، ص :317-18)
اپنے افکار وخیالات کی ترسیل
کے لئے ابن صفی نے ناولوں میں کہیں بھی ناصحانہ انداز یا تبلیغی لہجہ نہیں اپنایا
بلکہ بڑے نرم اور سنجیدہ انداز میں بتدریج پورے پلاٹ کے تناظر میں وضاحت کی ہے۔ اس
سلسلے میں انہوں نے پوری صداقت و معروضیت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے پوری صداقت
و معروضیت سے کام لیاہے۔ایسا محسوس ہوتاہے گویا ان کے ناولوں کا بنیادی موضوع
برائی کا سدّ باب ہے۔ اس موقع پر ہمیں ابن صفی کے دانش مندانہ فیصلے کا قائل
ہوناپڑتاہے۔ چونکہ ان کے جاسوسی ناولوں کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نیکی او ربدی
کاٹکڑاؤ ہونا ضروری امر ہے اور ایک جاسوسی جرم کی وجہ اور مجرم کا پتہ لگانے کیلئے
کوشاں رہتاہے۔ لہٰذا انہوں نے جرم کی توجیہہ کے ساتھ اس کے سدّباب کی تجویز یں بھی
نہایت فن کاری کے ساتھ تخلیقی عمل کے ذریعے شامل کردیں۔ ان کے ناولوں میں جہاں ایک
طرف شرپسند عناصر تخریبی کارروائیوں میں ملوث رہتے ہیں وہیں ان کے مثبت کردار ان
عناصر کا خاتمہ کرکے معاشرے کو مثبت اور تعمیری رجحان دیتے ہیں۔ ناول‘ مونالیزاکی
نواسی’ سے یہ اقتباس دیکھئے:‘‘ محض تعزیری قوانین سے کام نہیں چلے گا۔ کبھی نہیں
چلا۔ تعزیری قوانین صدیوں سے موجود ہیں پھر کیا ہوتارہا ہے؟’’۔۔ پھرکیا صورت ہوگی۔۔۔
تبلیغ؟’’ ۔۔ ‘‘تبلیغ بھی صدیوں سے جاری ہے’’۔۔۔ کوئی حل؟۔۔۔۔‘‘پورے ڈھانچے کوبدلنا
پڑے گا۔ صدق دل سے اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنی پڑے گی!’’۔۔۔ کس کو ؟ مجھے اور تمہیں
۔۔۔ بس ؟’’
‘‘نہیں نہیں۔۔۔ جو زمین پرہمارے حاکم ہیں۔ اللہ کی حاکمیت کو صدق
دل سے تسلیم کرلینے کے بعد ہی وہ ہم سے بھی اللہ احکامات کی تعمیل کرواسکیں
گے’’۔(ابن صفی : مونالیزا کی نواسی، کتابی سلسلہ 56،ص 374)
جاسوسی ناول نگاری کے پس
پشت کار فرما مقاصد میں سے ایک قانون کا احترام بھی تھا۔ ابن صفی کو جرم سے سخت
نفرت تھی لیکن وہ مجرموں سے نفرت نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے ہمدردی رکھتے تھے۔ وہ
اس حقیقت سے واقف تھے کہ انسان پیدائشی مجرم نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کی ناانصافی او
رنامساعد حالات اسے مجرم بننے پر مجبور کردیتی ہیں۔ وہ مجرم کی پشت پناہی نہیں
کرتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص قانون کی اہمیت کو سمجھے او را س کا احترام
کرے۔ وہ جرم پرقانون کی بالادستی کے خواہاں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے قارئین
تخریبی سرگرمیوں کے بجائے تعمیری کاموں میں خود کو استعمال کریں او رجرائم سے پاک
ایک پرامن وصحت مند معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوں۔ حالانکہ ابن صفی کی یہ
خواہش کافی حد تک بچکانہ تھی۔ کیونکہ اس کائنات میں ازل سے خیر وشر کا چولی دامن
کا ساتھ رہا ہے ۔ لیکن پھربھی ابن صفی حتی المقددر اپنی کوششوں میں لگے رہے۔ جرم،
مجرم اور معاشرے کی تثلیث ان کے ہرناول کی بنیاد ہے۔ وہ قارئین میں جرم کے تئیں
نفرت پیدا کرناچاہتے تھے اور یہ تب ہی ممکن تھا جب ان کے قارئین کے دلوں میں قانون
کے لئے احترام پیدا ہوتا۔ لہٰذا انہوں نے وقتاًفوقتاً اپنے ناولوں میں قانون کی
اہمیت ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے اشتراکی مبلغوں کی طرح
نہ تو انقلاب او رتبدیلی کا ڈھنڈوراپیٹا نہ ہی نذیر احمد کی طرح ناصحانہ انداز
اپنایا۔ بلکہ واقعے اور کردار کی مدد سے کہانی میں ایسے حالات پیدا کئے کہ قاری
کادل وذہن خود ہی جرائم سے مکدر ہوجائے اور وہ مشکل او رنامساعد حالات میں بھی جرم
کی راہ پر چلنے کا ارادہ نہ کرے۔ مقصدی ادب کی اس ترسیل میں ان کے ادبی تجربے بھی
ساتھ چلتے ہیں او ریوں مقصد فن پر حاوی نہیں ہونے پاتا۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے:
‘‘ میں سوچتا رہا ۔۔۔سوچتا رہا۔ آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ آدمی میں جب تک
قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہوگا ،یہی سب کچھ ہوتارہے گا۔ یہ میرا مشن ہے
کہ آدمی قانون کا احترام کرنا سیکھے او رجاسوسی ناول کی راہ میں نے اسلئے منتخب کی
تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں او رانہیں قانون کا احترام
کرنا بھی سکھا تاہوں۔’’( ابن صفی ، میں نے لکھنا کیسے شروع کیا، ص :19)
ابن صفی نے جاسوسی ناول
نگاری کی راہ بہت سوچ سمجھ کر منتخب کی تھی۔ ناول کامیدان تخلیقی حوالے سے یوں بھی
کافی وسیع ہوتاہے۔ او راس میں اظہار رائے کے ساتھ زبان وبیان کے بھی بھرپور مواقع
ہوتے ہیں چنانچہ ابن صفی نے اپنے مقاصد کی ترویج وترسیل کے ساتھ اپنی ناول نگاری
سے زبان وادب کی بھی خاطر خواہ خدمت کی۔ جرم وسزا اور تفتیش وسراغ رسانی جیسے خشک
موضوع کو اپنے شگفتہ اسلوب سے انہوں نے بے حد دلچسپ بنادیا۔ انہوں نے ناولوں میں
جدید موضوعات اور سائنس وٹکنالوجی شامل کرکے اسے عصری معنویت سے بھی ہمکنار کیا۔
زبان کی نشو ونما کے ساتھ انہوں نے مختلف النوع سماجی ونفسیاتی مسائل پر بھی روشنی
ڈالی۔
ابن صفی ادبی گروہ بندی
یا ازم سے بالاتر ہوکر ارد و ادب کے دامن کو وسیع کررہے تھے۔ یہ المیہ ہے کہ انہوں
نے جس وقت ناول لکھے وہ وقت ان کے لئے سازگار نہیں تھا۔ لیکن بحیثیت ادیب قلم سے
فرض ادا کرتے رہے۔ ان کا اولین مقصد قاری کو سکون واطمینان کے ساتھ صحت بخش ادب
فراہم کرنا تھا اور انہوں نے بساط سے بڑھ کر یہ فرض انجام دیا ۔ وہ قاری کے لئے
لکھتے تھے او رلوگ انہیں بے حد پسند بھی کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کامقصد وہ
نہیں تھا جو اس عہد کے لوگ چاہتے تھے۔ وہ کسی بھی تحریک یا رجحان کا حصہ نہیں تھے
شاید اسی لیے وہ نقادوں کی نگاہ میں اہمیت کے حامل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی
نفسیات کی عکاسی اور عصری مسائل کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے سماجی اقدار کو ناولوں
میں پیش کرنے کے باوجود انہیں محض مقبول عام ادب Popular
literature کے
دائرے میں قید کردیا گیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ ابن صفی کے تمام ہی ناول
فن کی کسوٹی پرپورے اترتے ہیں۔ پلاٹ ، کردار، مکالمے، اسلوب، منظر نگاری غرضیکہ ہر
جزو اپنے آپ میں مکمل ہے۔لیکن ترقی پسند ادب جو عوام سے براہ راست مخاطب ہونے کا
دعوے دار تھا ، ابن صفی کی عوامی مقبولیت کو قبول نہیں کرسکا او رجدیدیت کے حامیوں
نے جاسوسی ناولوں کو ادب کے زمرے سے ہی خارج کردیا۔ جب کہ ابن صفی کے ناول قرأت
مسلسل کی بہترین مثال بھی ہیں۔ اپنے ساتھ برتے جانے والے اس ناروا سلوک کی بابت
ابن صفی لکھتے ہیں: ‘‘مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ او رثقافت کے علمبردار
مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی کچھ خدمت کروں۔ ان کی دانست میں شاید میں جھک مار
رہاہوں ۔ حیات وکائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب
میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے’’۔ ( ایضا)
ابن صفی کے ناولو ں کے
مطالعہ سے ان کا نقطہ نظر بالکل واضح ہوجاتاہے۔ وہ قاری کے شعور کی تطہیر کرنا
چاہتے تھے تاکہ وہ ایک متوازن معاشرے میں اپناتعاون دے سکے۔ ان کا ہر شہ پارہ مسرت
شروع ہوکر بصیرت پرختم ہوتاہے۔ وہ اصلاحی ادب نہیں لکھ رہے تھے لیکن جاسوسی ادب کے
ذریعے انہوں نے معاشرے کی اصلاح کاجو بیڑا اٹھایا تھا وہ نہایت حیرت انگیز تھا۔ و ہ
عوام کے مزاج سے ہم آہنگ ہوکر لاشعوری طریقے سے ان کی فکر تبدیل کرناچاہتے تھے
۔معاشرے کے تاریک پہلوؤں سے پردہ اٹھا کر ہو کھوکھلے سماج کی منافقت اجاگر
کرناچاہتے تھے۔ وہ انسانی نفسیات کی گتھیوں کو سلجھا ناچاہتے تھے۔ وہ ان مہلک
رجحانات trends کی جانب اشارہ کرناچاہتے تھے جو نوجوان نسل کو جرم کے ارتکاب کی
طرف مائل کرتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہونے والی سیاست اور سازشوں کا وہ بڑی گہرائی کے
ساتھ مشاہدہ کررہے تھے لہٰذا وہ ان حالات کے منفی اثرات و نتائج قاری کو باور
کراناچاہتے تھے ۔ وہ انسانی حقوق کی پاسداری چاہتے تھے ۔ ان مقاصد کو انہوں نے فنی
پیرا یے میں پیش کرکے اپنا مطمح نظر واضح کردیا۔ فاشزم او رسوشلزم کے تئیں ان کا
نقطہ نظر بالکل واضح تھا۔ وہ صرف اور صرف خدا کی حاکمیت کے قائل تھے۔
ابن صفی کا فلسفہ حیات فن
کے پردے میں سامنے آتا ہے تو قاری لذت سے مسرت او رمسرت سے بصیرت تک کی تمام منازل
طے کرتاہے اور فنی طورسے بھی لطف اندوز ہوتاہے۔ ان کے مکالمے ان کے خیالات او
رفکری نمائندگی کرتے ہیں۔ان کے ہر ناول میں زندگی کے کسی مخصوص پہلو پر روشنی ڈالی
گئی ہے۔ انہوں نے ‘ادب برائے ادب’ کے ساتھ ‘ ادب برائے زندگی’ کی بھی تخلیق کی اور
زندگی کے گوناگوں مسائل ، معاشرتی روابط او ر تہذیبی شعور کو ناول کی مجموعی ساخت
میں ضم کردیا۔ ایک طرف جہاں ان کے ناول ‘ ادب برائے ادب’ کے تحت قاری کو جمالیاتی
انبساط سے ہم کنا رکرتے ہیں وہیں دوسری طرف ‘ادب برائے زندگی’ کی ترویج کرتے ہوئے
قاری کو مسرت فراہم کرنے کے ساتھ ان کی آگہی وشعور میں بھی اضافہ کیا جس سے وہ
زندگی اورذات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں ۔سید محمد عقیل نے فلسفہ حیات کی اہمیت
واضح کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘ عظیم ناول نگار سوسائٹی کی تہوں میں ڈوب کر اس کرب، ان
کمیوں اور تمناؤں کو تلاش کرتاہے جو حیات انسانی کو ایک نیا نگار کی تخلیق میں
ایسے مسائل یا حقیقتوں کا ادراک نہیں تو پھر ناول او ربیانیہ سطحی او رمحض سستی
لذت کے مظہر بنتے ہیں ’’۔ (سید محمد عقیل ، جدید ناول کا فن، ص :34)
دوسری جنگ عظیم کے بعد
تمام دنیا میں سماجی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ ابن صفی
نے جب ناول نگاری کا آغاز کیا، ملک تقسیم ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود برطانوی
اثرات سوسائٹی پر اب بھی حاوی تھے۔ اخلاقی او رمذہبی اقدار روبہ زوال تھیں او
رمتوسط طبقے سے لے کر اعلیٰ طبقہ سبھی نئے مسائل سے نبرد آزما تھے۔ حرام وحلال کا
تصور دقیانوسیت یا نچلے طبقے سے منسوب کیا جانے لگا اور ورکنگ کلاس کے عروج کے
ساتھ اخلاقیات کا معیار تبدیل ہونے لگا تھا۔ روایتی اقدار او رتہذیبی افکار
ونظریات نوجوان نسل کو فرسودہ معلوم ہونے لگے تھے۔ جنس او رمنشیات کابازار گرم
ہوگیا تھا۔ ابن صفی نے بغور ان چیزوں کا مشاہدہ کیا او رجو نتائج اخذ کئے وہ ان کی
تحریروں میں جابہ جا ان کے نظریہ حیات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
4اگست،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism