ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام
19 دسمبر 2024
تیز رفتار تبدیلیوں اور پیچیدگیوں کے اس دور میں، مسلمانوں کے اندر ایک متحرک اور حساس سوچ کی ضرورت، آج سے زیادہ کبھی نہیں تھی۔ جیسا کہ ہم عصر اسکالر ابراہیم موسیٰ کا کہنا ہے، ترقی پسند اسلامی فکر و نظر کا مرکزی کام پوئیسس میں مشغول ہونا ہے - ایک کثیر جہتی عمل جس میں تخلیقی صلاحیت، تنقیدی سوچ اور روایت کی تخیلاتی تشکیل نو شامل ہے۔ یہ تصور ہمیں چیلنج کرتا ہے کہ آج مسلمانوں کو درپیش بے شمار اخلاقی مخمصوں اور وجودی مسائل کو حل کرنے میں، اسلامی علم و فکر اور قوم کی سرگرمیوں کے کردار پر نظر ثانی کی جائے۔
پوئیسس کی تفہیم
پوئیسس کی موسیٰ نے جو تعریف کی ہے وہ شاندار اور متنوع ہے۔ جیسا کہ اس پر میری کتاب میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے، وہ یوں بیان کرتے ہیں:
- ایک وجودی حد کی پوزیشن (دہلیز) کی تخلیقی صلاحیت، جو انسان کو تنقیدی اور تخلیقی سوچ میں مشغول ہونے کے قابل بناتی ہے۔
- تخیلاتی اور اختراعی ہنر، یہ روایت کی تفہیم کو نئی شکل دینے میں تخلیقی صلاحیتوں کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔
- ڈسکورسیو بریکولاج، یہ ایک اصطلاح ہے جس سے مراد خیالات اور طریقوں کو یکجا کرنے کے لیے ایک تخلیقی اور اختراعی نقطہ نظر ہے۔
- عمل کرنے اور غور و فکر کرنے کا فن، اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ عمل اور غور و فکر کا کام ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔
- روایت کی تخلیقی اور تخیلاتی تشکیل نو، یہ عصری حقائق کی روشنی میں وراثت میں ملنے والے عقائد کی تشریح نو کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
پوئیسس کی یہ کثیر جہتی تفہیم، عصری اسلامی افکار و نظریات کے لیے ایک اہم عمل کے طور پر، اس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سے مراد صرف موجودہ فریم ورک کو ختم کرنا نہیں ہے۔ بلکہ، اس میں نئے، ابھرتے ہوئے علم کی تعمیر شامل ہے، جو جدید زندگی کی پیچیدہ حقیقتوں کو حل کر سکے۔
تعمیر نو کا چیلنج
اگرچہ بہت ساری عصری فلسفیانہ تحریکیں تعمیر نو پر زور دیتی ہیں — ایک تجزیاتی نقطہ نظر جس کا مقصد مروجہ بیانیے اور ڈھانچے کو مسمار کرنا ہے — موسیٰ کا نظریہ اس سے بالاتر ہے۔ بنیاد پرست مابعد جدیدیت کے اکثر متذبذب موقف کے برعکس، جو عمل میں عصبیت یا نقص کا باعث بن سکتا ہے، پوئیسس روایت کے ساتھ ایک فعال مشغولیت کی وکالت کرتا ہے، جو ترقی پسند مسلم فکر/ ترقی پسند اسلام کی علامت ہے۔ یہ تخلیقی صلاحیتوں کو نہ صرف تنقید کا ذریعہ بناتا ہے، بلکہ اس فریم ورک کی تشکیل نو بھی کرتا ہے، جس کے اندر مسلمان کام کرتے ہیں۔
پوئیسس کا عمل
پوئیسس میں مشغول ہونے میں کئی اہم باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جن سے عصر حاضر کی زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے:
1. تنقیدی نقطہ نظر: یہ روایت اور عصری حقائق دونوں کے ساتھ گہرے تعامل سے عبارت ہے۔ علماء اور عوام دونوں کو یکساں طور پر اپنے معتقدات پر غور کرنا چاہیے، ان مفروضوں اور تعصبات پر سوال کرنا چاہیے جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ یہ عمل اس امر پر تنقیدی نظر ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہے، کہ کس طرح روایت موجودہ معمولات پر اثر انداز ہے اور ان معمولات کو کس طرح نئے رنگ روپ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
2. تخلیقی تخیل: نئے امکانات کا تصور پیش کرنا پوئیسس میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں نہ صرف مذہبی متون کی تشریح نو کرنا، بلکہ معمولات، رسومات اور سماجی ڈھانچے پر دوبارہ غور و فکر کرنا بھی شامل ہے۔ پوئیسس میں موجود تخلیقی صلاحیت مسلمانوں کو مذہب کے متنوع مظاہر کو تلاش کرنے کے قابل بناتی ہے، جو ان کے جیتے جاگتے تجربات سے ہم آہنگ ہوں۔
3. اشتراک عمل: پوئیسس مکالمے اور تعاون پر پروان چڑھتی ہے۔ مختلف افکار و نظریات کے حامل علماء، کارکنان، اور افراد کے ساتھ اشتراک عمل— معاملے کی پیچیدگیوں کے بارے میں بہتر تفہیم کو فروغ دیتا ہے۔ یہ باہمی تعاون پر مبنی نقطہ نظر، خیالات اور معمولات کے اشتراک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ایسے نئے نئے حل نکلتے ہیں جو ایک وسیع نقطہ نظر سے ماخوذ ہوتے ہیں۔
4. عملی اطلاق: نظریاتی بصیرت کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔ پوئیسس میں مشغول ہو کر حقیقی مسائل پر تخلیقی اور تنقیدی بصیرت کا اطلاق کیا جاتا ہے، خواہ وہ سماجی اقدامات کے ذریعے ہو خواہ تعلیمی پروگراموں یا وکالتی کوششوں کے ذریعے۔ عملی نتائج پر توجہ اس بات کو یقینی بناتی ہے، کہ جو کام کیا جا رہا ہے وہ محض علمی نہیں، بلکہ سماج کے لیے اس میں فوائد کثیرہ بھی ہیں۔
تعلیم کا کردار
تعلیم پوئیسیس کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ تنقیدی سوچ کی مہارت کو پروان چڑھانے اور نوجوان نسل میں تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمی اداروں کو ایک ایسا تدریسی نظام اختیار کرنا چاہیے، جو روایت کے ساتھ تحقیق و جستجو، مکالمے اور تخیلاتی صلاحیتوں کی بھی حوصلہ افزائی کرے۔
1. نصاب کی تشکیل نو: عصری مسائل کے ساتھ ساتھ اسلامی نصوص کے تنقیدی مطالعہ کو بھی شامل کرنے کے لیے، تعلیمی نصاب کی تشکیل نو ضروری ہے۔ یہ بین المضامین نقطہ نظر طلباء کو متحرک طور پر اپنے مذہب کے ساتھ مشغول ہونے کے قابل بنا سکتا ہے، اور انہیں جدید زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
2. نئے نئے افکار و نظریات کی حوصلہ افزائی: طلباء کو روایتی نصاب سے ہٹ کر سوچنے اور نئی تشریحات اور طرز عمل تجویز کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے، جو ان کی قدروں اور تجربات سے ہم آہنگ ہوں۔ اور یہ کام ایسے پروجیکٹوں، ورکشاپوں، اور سماجی اشتراکتی اقدامات کے ذریعے انجام دیا جا سکتا ہے، جن میں تخلیقی صلاحیتوں اور تعاون پر زور دیا جاتا ہو۔
3. رہنمائی اور معاونت: نوجوان علماء اور کارکنان کے لیے رہنمائی کے مواقع فراہم کرنا، پوئیسس کے لیے ایک معاون ماحول کو فروغ دے سکتا ہے۔ تجربہ کار اساتذہ ابھرتی ہوئی آوازوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں، انہیں اپنی روایات سے جڑے رہتے ہوئے نئے نئے خیالات اور نقطہ ہائے نظر تلاش کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
ترقی پسند اسلامی فکر کا مستقبل
پوئیسس میں مشغول ہونا صرف ایک فکری مشق نہیں ہے؛ یہ (تنقیدی ترقی پسند) اسلامی فکر و نظر کی بقا اور پھلنے پھولنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ چونکہ آج اسلامی سماج کو ایسے ایسے چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی مثال نہیں ملتی، اس کے پیش نظر نئے نئے افکار و نظریات پیش کرنا اور انہیں اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
1. لچک پیدا کرنا: پوئیسس کے ذریعے، مسلم سماج انتہا پسندی، عدم برداشت اور عقیدہ پرستی کی قوتوں کے خلاف ایک لچک پیدا کر سکتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی نقطہ نظر کے کلچر کو فروغ دے کر، اپنے دین و مذہب کے حوالے سے ایک مزید مضبوط اور جامع تفہیم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
2. نئے بیانیے کی تخلیق: مسلم تشخص کو تشکیل دینے والے بیانیے کو، اس انداز میں فروغ دیا جانا چاہیے کہ جس سے عصری حقائق کی عکاسی ہو سکے۔ پوئیسس ایسے بیانیے تیار کرنے کی گنجائش پیدا کرتا ہے، جن میں روایت کا احترام کرتے ہوئے تنوع اور تبدیلی کا بھی خیال رکھا گیا ہو۔ یہ بیانیۂ نو انسانوں کو اپنے دین و مذہب کی جاری کہانی میں، خود کو فعال طور پر شرکت کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔
3. عالمی یکجہتی: ایک ایسی دنیا میں جو تیزی سے تقسیم اور تنازعات کی زد میں آتی جا رہی ہے، پوئیسس مسلمانوں کے درمیان اور مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان عالمی یکجہتی کے نظریہ کو فروغ دیتا ہے۔ مشترکہ اقدار کے ساتھ تخلیقی طور پر مشغول ہونا، افہام و تفہیم اور تعاون کو فروغ دے سکتا ہے، جس سے باہمی تشویش کے مسائل پر اجتماعی طور پر کام کرنے کا راستہ کھلتا ہے۔
ابراہیم موسیٰ کا پوئیسس کا تصور، عصری اسلامی فکر و نظر پر، نظرِ ثانی کے لیے ایک زبردست فریم ورک پیش کرتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں، تنقیدی مشغولیت، اور ترقی پسند مسلم فکر کی کلیدی خصوصیات کے طور پر، روایت کی تخیلاتی تشکیل نو پر زور دے کر، پوئیسس انسانوں اور سماجوں کو جدید زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی طاقت دیتا ہے۔
چونکہ آج مسلمانوں کو بے شمار اخلاقی مخمصوں اور وجودی سوالات کا سامنا ہے، لہٰذا پوئیسس میں مشغول ہونے کی دعوت بروقت بھی ہے اور ضروری بھی۔ یہ ہمیں چیلنج پیش کرتا ہے کہ ہم اپنی روایات کا احترام بھی کریں اور ترقی کے لیے درکار تخلیقی صلاحیتوں اور تخیلاتی فکر و نظر کو بھی اپنائیں۔ ایسا کر کے، ہم ایک ترقی پسند اسلامی فکر کی بنیاد رکھ سکتے ہیں، جو متحرک، جامع اور ہماری برادریوں اور پوری دنیا کی ضروریات کے لیے کافی و وافی ہو۔
------
English Article: The Art of Poiesis: Crafting a Progressive Muslim Thought
URL: https://newageislam.com/urdu-section/art-poiesis-crafting-progressive-muslim/d/134095
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism