ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
بھوپال میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قومی کانفرنس ہندوستان میں اسلامی شریعت کے اس نام نہاد محافظ کو اپنے کردار پر غور و فکر کرنے کا ایک اہم موقع تھا۔ اس موقع پر وہ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے کردار کا اور اس امر کا بھی محاسبہ کر سکتے تھے کہ کیوں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ صنفی انصاف کے معاملے میں دیگر معاشروں سے پیچھے ہے۔ وہ اس بات پر غور کر سکتے تھے کہ حال ہی میں کیوں ہندوستان میں مسلمانوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مذہب کو کیوں پچھڑا قرار دیا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے منصوبہ میں یہ سب باتیں نہیں تھیں۔ بلکہ اس کے بجائے ہم نے یہ دیکھا کہ اس مرتبہ بھی ان کی توجہ صرف اسی بات پر تھی کہ کس طرح حکومت مسلم پرسنل لاء کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہ کس طرح مسلم معاشرے کو حاصل شدہ آئینی آزادیوں کے لئے خطرات پیدا کر رہی ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دلائل میں بنیادی طور پر دو خامیاں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ شریعت اس معنی میں مقدس نہیں ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ شریعت (جس کا لفظی معنی کا راستہ ہے) صدیوں میں تیار ہوا ہے اور ایک مخصوص مذہبی مسئلہ کے لئے اس کے اندر متعدد تشریحات موجود ہیں۔ اسلامی دنیا کے اندر چار فقہی مذاہب کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے اندر نہ صرف یہ کہ مختلف وقتوں میں مختلف تشریحات کو بلکہ ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر بھی مختلف تشریحات کو درست مانا گیا ہے۔ اسلامی قانون کے اندر اسی لچک کی بنیاد پر بدلتے وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی کی گنجائش پیدا کی جا سکتی تھی اور معاصر سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا تھا۔ آخر کار، بنیاد پرست سمیت بہت سے ممالک میں شادی کے قانون میں اصلاحات کر دی گئی ہیں۔ کسی نے ان پر اسلامی شریعت کی تقدیس کے ساتھ مداخلت کے لئے تنقید نہیں کیا۔ اس کے بجائے لوگوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام بھی کسی دوسرے مذہب کی طرح وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس کا مانناہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے نہ تو کبھی بدل سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی ہونی چاہئے۔ صرف قرآن مجید ہی نہیں بلکہ کچھ مولویوں کے فتوں کو بھی اس میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر غلط ہے اور ایک غلط استدلال کی پیداوار ہے جو امت مسلمہ کو مقدس قرار دیتا ہے۔ دراصل، سچائی اور حقوق سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کوئی سروکار نہیں ہیں؛ بلکہ یہ ایک انتہائی تنگ نظر تنظیم ہے جیسا کہ ایسا ہی نظریہ رکھنےوالے علماء کی رائےسے ظاہر ہے۔ لہٰذا، واضح طور پراس قسم کے کسی بورڈ سے کوئی مثبت اقدام کی امید نہیں کی جا سکتی جیسا کہ حال ہی میں بھوپال کانفرنس میں دیکھنے کو ملا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دلائل میں دوسرے مسئلہ کا تعلق پہلے مسئلے سے ہے۔ یہ دعوی کرنے کے بعد کہ اسلام ناقابل تبدیل ہے ، یہی دلیل انہوں نے آئین کے لئے بھی پیش کیا اور کہا کہ آئین نے انہیں مذہبی آزادی عطا کی ہے۔ جزوی طور پر یہ سچ ہے۔ لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ یہ بھول چکا ہے کہ آئین کی بھی مسلسل تعبیر و تشریح کی جاتی رہی ہے اور ایسے معمولات کو جواز فراہم کرنے کے لئے اس کا سہارا نہیں لیا جا سکتا جو آئین کے دیرینہ اہداف کے ساتھ واضح طور پر متصادم ہیں۔ واضح طور پر سپریم کورٹ نے یہ محسوس کیا کہ تین طلاق کا عمل مسلم خواتین کے لئے تعصب و تنگ نظری بر مبنی تھا اور اسی وجہ سے عدالت نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اگلا اقدام اس امر پر بحث و مباحثہ کرنا ہونا چاہیے تھا کہ مزید کون سے دوسرے قوانین ہیں جو خواتین کے تئیں تعصب و تنگ نظری پر مبنی ہو سکتے ہیں اور انہیں لیکر کمیونٹی کے اندر اصلاحات شروع کر دینی چاہیے۔ اس کے بجائے، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تشویش کا موضوع اس کے برعکس ہے: یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کا تصادم کسی بھی طور پر شریعت سے ہے یا نہیں !
سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اب بھی اپنے اس نقطہ نظر پر قائم ہے کہ اگرچہ تین طلاق گناہ ہے لیکن اس کے باوجود یہ اسلامی قانون کی نظر میں درست ہے۔ فیصلے کے بعد خود محمود مدنی نے اس کی تائید کی ہے۔ لہٰذا، یہ واضح ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سپریم کورٹ اور اس کے فیصلے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا ہے اور یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ فی الحقیقت اس کا ہندوستان کی آئینی جمہوریت پر یقین نہیں ہے۔ اگرملک کا سیاسی منظر نامہ کچھ اور ہوتا تو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ضرور اس فیصلے پر نظر ثانی کے لئے پٹیشن درج کرواتا۔ انہوں نے خود یہ کہا ہے کہ چونکہ جج تبدیل ہو گئے ہیں اسی لئے نظر ثانی کی درخواست سے تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ وغیرہ جیسے دوسرے معمولات بھی زیر بحث آ سکتے ہیں۔ اور انہیں خوف ہے کہ ان کے خلاف ایک اور فیصلہ نہ آ جائے۔ لہٰذا، یہ امر مکمل طور پر واضح ہے کہ انہوں نے دل سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول نہیں کیا ہے اور اب بھی ان کا یہی ماننا ہے کہ مسلم پرسنل لاء میں کوئی خامی نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شکست سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ جیسے معاملات میں اصلاحات کا ایجنڈا اٹھانے کے لئے کسی کو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لئے کوئی بھی عدالتوں سے رجوع کر سکتا ہے۔ مسلم خواتین کی تنظیمیں پہلے سے ہی ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ بورڈ پھر اس میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ آئینی منطق سے اسے ایک واضح شکست ملے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ بورڈ خود ان معمولات کی اصلاحات اور ان پر پابندی عائد کرنے کے لئے آواز بلند کرے۔ لیکن بورڈ کی تاریخ کے پیش نظر اس سے اس بات کی توقع بہت زیادہ ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے حساب سے مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات کا مطالبہ بڑے پیمانے پر شہری تعلیم یافتہ مسلم خواتین کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ ہندوستانی مردوں اور عورتوں کی اکثریت بورڈ کے ساتھ ہے اور یہ تخمینہ درست بھی ہو سکتا ہے۔ چونکہ وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان اختیارات کے موجودہ توازن کو میں خلل اندازی نہیں کرنا چاہتے اسی لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس توازن میں خلل پیدا کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔تین طلاق کے خاتمے جیسے ایک مناسب مطالبہ کو بھی بورڈ کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لہٰذا، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا وجود اسلام کے لئے نہیں بلکہ اس کا وجود مکمل طور پر مسلم معاشرے میں موجود پدرانہ نظام کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ہے۔ جب تک انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ توازن اب بدل رہا ہے وہ اپنے موقف میں کوئی تبدیل نہیں پیدا کرنے والے۔ تاہم، ابھی حالات تھوڑے تبدیل ہوئے ہیں۔ اب زمینی سطح پر کام کرنے والے ایسے ادارے موجود ہیں جو اس مقصد کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ایک نئی بات ہے اس لئے کہ ماضی میں ایسی تنظیمیں موجود نہیں تھیں اور بہت سے نام نہاد ترقی پسند ادارے عدالتی مداخلت کے ذریعہ اصلاحات کا راستہ اختیار کرنے سے منع کر چکے تھے۔ آج مسلم خواتین باہر آکر خود اس نظام کو چیلنج کر رہی ہیں۔ لہٰذا، اگر چہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو عوامی حمایت حاصل ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے اس لیے کہ عدالتیں عوامی حمایت کی منطق پر کام نہیں کرتیں ۔
ارشد عالم NewAgeIslam.com کے ایک کالم نگار ہیں
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-pluralism/arshad-alam,-new-age-islam/why-the-aimplb-refuses-to-learn-any-lessons/d/112493
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism