ارشد عالم، نیو ایج اسلام
4 مئی 2022
اس کا مطلب صرف یہ ہو
سکتا ہے کہ اسلام کو اپنی بنیاد پر ہی یقین نہیں ہے
اہم نکات:
1. عسکر علی کو اسلام
ترک کرنے پر خاندان اور معاشرے کے لوگوں نے تنگ کر دیا تھا
2. اگر کسی شخص کو
اسلام منتخب کرنے کی آزادی ہے، تو اسے یہ آزادی بھی ہونی چاہیے کہ وہ اسلام کو
چھوڑ دے اور اس پر کسی طرح کا کوئی مزاحمت نہ کی جائے
3. لیکن جو لوگ اسلام
چھوڑنا چاہتے ہیں وہ مرتد ہیں جنہیں قتل کرنا جائز ہے
4. اندھی تقلید مسلم
معاشرے کے لیے مہلک ثابت ہوئی ہے
------
عسکر علی، جو کیرالہ کے
ملاپورم کے رہنے والے ہیں، کولم میں "سائنسی مزاج، انسان پرستی اور تحقیقات
اور اصلاح معاشرہ کے جذبے کو فروغ دینے" کے لیے ایک تقریب میں خطاب کرنے والے
تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مجھے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ایسا کرنے سے روکا جس
نے بظاہر مجھے اغوا کیا، میرے ساتھ بدتمیزی کی اور دھمکیاں دیں۔ یہاں یہ بتانا
ضروری سمجھتا ہوں کہ عسکر علی بذات خود اسلامی فقہ کے ایک طالب علم ہیں اور وہ
ایسی تعلیم سے گزرنے کے اپنے تجربے پر بات کرنا چاہتے تھے۔ علی نے آخر کار پولیس
کی موجودگی میں اپنی تقریر کی لیکن اس پورے واقعے نے اسے صدمے سے دوچار کر دیا۔
علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے گھر والوں نے سب سے پہلے میری مخالفت کی۔
لیکن یہاں مسئلہ کیا ہے؟
مسلم معاشرہ نے علی کی مخالفت کیوں کی؟ ہاں، اس کی وجہ یہ ہے کہ علی نے اسلام کو
چھوڑ دیا ہے اور "انسانیت" کی طرف اس کے سفر نے اس کے ضمیر کو مجبور کیا
کہ وہ تمام قسم کے عقیدوں کے خلاف بولیں۔ چونکہ وہ اسلامی روایت سے زیادہ واقف
ہیں، اس لیے وہ اس بات پر گفتگو کرنا چاہتے تھے کہ اسلام میں کس طرح اصلاح کی ضرورت
ہے تاکہ مسلمان عقلیت پسندی اور سائنسی مزاج کو فروغ دے سکیں۔ لیکن، ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ اسلام کے کچھ پیروکاروں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس کا مسلمانوں اور خاص
طور پر نوجوانوں کے ذہنوں پر مضر اثر پڑے گا، اس لیے علی کو بولنے سے روکنے کے لیے
انہوں نے ہر طرح کے غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیا۔
ہم نے اس کا انجام نہیں
سنا۔ کیرالہ میں سابق مسلمانوں (جنہوں نے اسلام چھوڑ دیا ہے) کی ایک رجسٹرڈ باڈی
ہے اور وہ یقینی طور پر علی کا مقدمہ اٹھائیں گے۔ دوسری طرف، ریاست میں کچھ
انتہائی قدامت پسند مذہبی دھڑے بھی ہیں جو اس کی مخالفت کرنے کے لیے پابند ہیں۔
ایک سال قبل کیرالہ میں ایک مدرسے کے استاد کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ
اسلام چھوڑنے والوں کو قتل کرنے کی بات کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ واضح رہے کہ
آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے والے تمام ہندوستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق کیرالہ
سے تھا۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، جو مسلمان اسلامی تعلیمات سے بے نیاز ہو
جاتے ہیں ان کے لیے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ایک مشکل ترین امر ہوتا ہے۔
لیکن یہ کسی ایک ریاست
میں مسلمان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا تمام مسلم معاشرے
ایک طویل عرصے سے کر رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان جو اب اس نظریے پر یقین نہیں رکھتے
ہیں، دوہری زندگی گزارتے ہیں، خاندان اور دوستوں کے سامنے ایمان کا دکھاوا کرتے
ہیں اور صرف ایک خاص سنگت میں اپنا اصلی چہرہ دکھاتے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مسلم
معاشرہ ایسے مسلمانوں کے ساتھ رواداری رکھتا ہے جو اسلام تو چھوڑ دیتے لیکن اس کا
علی الاعلان اظہار نہیں کرتے۔ اور جس لمحے وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جہنم
ان پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ سب سے پہلے تو انہیں خاندان اور معاشرے سے بے دخل کر دیا جاتا
ہے اور بعض اوقات وہ اپنے مخالفانہ نظریات کی وجہ سے حملوں کی زد میں بھی آ جاتے
ہیں۔ ای طرف مصر میں علماء الحاد کو ایک ذہنی بیماری سمجھتے ہیں جبکہ ہندوستانی
مسلم معاشرہ ایسے شخص کو اسلام کے دائرے میں واپس لانے کے لیے بے انتہا دباؤ ڈالتا
ہے یا اسے قتل کرنے تک کی دھمکیاں دینے لگ جاتا ہے۔
کسی بھی فرد کو اس وقت تک
شہری نہیں مانا جا سکتا جب تک کہ اسے کھل کر بات کرنے کی آزادی نہ حاصل ہو جائے۔
غیر مؤمن مسلمانوں کو اپنی بات کہنے کی اجازت نہ دیکر مسلم معاشرہ انہیں ان کی فکر
اور اظہار جیسی آزادی کے بنیادی حقوق سے محروم کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ سمجھدار
مسلمان بھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ غیر مؤمن مسلمان اپنے غیر روایتی خیالات
کے ذریعے معاشرے میں انتشار پھیلاتے ہیں اور اس عمل میں وہ دوسروں (مسلمانوں) کے
جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ لیکن انہی مسلمانوں کو تب کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جب
مسلمان ہر طرح کی بکواس کرتے ہیں۔ آپ علماء کو دوسرے مذاہب، خاص طور پر "بت
کی پرستش کرنے والے ہندو مت" کے بارے میں اسلام کی تکمیل پر بات کرتے ہوئے ،
برابھلا کہتے ہوئے سن سکتے ہیں۔ عقلمند مسلمان کبھی بھی ان علماء کی حماقت کو
چیلنج نہیں کرتے جو قرآن میں سائنسی حقائق کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر
بار خود کو ہی بیوقوف بناتے ہیں۔ پھر ان مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیوں نہیں
کیا جاتا جو سمجھتے ہیں کہ اسلام پر تنقید اور اصلاح کی ضرورت ہے۔
مسئلہ بہت گہرا ہے۔ تقلید
تمام فقہی مذاہب کے اندر اور خاص طور پر جنوبی ایشیا میں احناف کے درمیان ایک بنیادی
اصول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ علمائے کرام نے جو
کچھ بھی اپنی تحریروں کے ذریعہ مسلمانوں کو احکام اور اوصول دیے ہیں انہیں ان پر
عمل کرنا ضروری ہے۔ اس طرح کی مستند تحریروں کو صرف دلیل کے ذریعہ ثابت کیا جا
سکتا ہے لیکن اس کے خلاف کبھی زبان نہیں کھولی جا سکتی۔ اسلام میں مذہبی علوم کا
استعمال صرف مروجہ اصولوں کی تائید میں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ علی دشتی اور
فضل الرحمٰن جیسے روایت پسندوں کو بھی، جنہوں نے دین کی ایک نئی تشریح (اجتہاد)
پیش کرنے کی کوشش کی، انہیں مسلم مذہبی حلقے سے اٹھا کر حاشیے پر پھینک دیا گیا یا
وہ متروک و مردود ہوو گئے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی چیز کی اندھی تقلید فکری
ترقی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ یہ قرآنی تعلیم کے برعکس بھی ہے جو مومنوں کو اپنے
اردگرد کی دنیا پر غور و فکر کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
کوئی بھی شخص جو روایتی
انداز سے ہٹ کر سوچتا ہے اسے مرتد قرار دیا جاتا ہے۔ یہ لیبل ملزم کی جان کو خطرے
میں تو ڈالتا ہی ہے لیکن اس سے مسلمانوں کے اندر کسی قسم کی مذہبی تحقیقات کا بھی
دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ جو بھی شخص اسلام ترک کر تا ہے اسے توبہ کرنے کی نصیحت دی
جاتی ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ اس اصول کو تمام فقہی
مذاہب میں، مختلف احادیث اور حتیٰ کہ خود قرآن سے بھی ثابت کیا گیا ہے۔ علماء کے
درمیان اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ ایسی سزادینے کا مجاز کون ہے: عوام، اسلامی
ریاست یا خود خدا۔ اس طرح کے فقہی اصول سے متاثر ہو کر، اس میں حیرانی کی کوئی بات
نہیں ہے کہ مسلمان کسی بھی ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہیں جس کے مرتد ہونے کا
تھوڑا سا بھی شبہ ہو۔ بھارت میں حالات شاید اتنے سنگین نہ ہوں جتنے پاکستان میں
ہیں، لیکن مذہبی راسخ انتہاپسندی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ
بھارت میں ایسی چیزیں ہونا شروع نہیں ہوں گی۔
لہٰذا، عسکر علی کا
معاملہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ مسلم معاشرہ ہر اس شخص پر اپنی پوری طاقت جھونک
دیتا ہے جو اجماع پر اندھی تقلیدکی اس روایت کی مخالفت کرتا ہے۔ ایسا ان لوگوں کے
ساتھ بھی ہوتا ہے جو اسلام کے دائرے میں رہنا چاہتے ہیں لیکن اس کی فقہ سے پریشان
ہیں اور ان کے ذہنوں میں غلامی، صنفی مساوات وغیرہ کے بارے میں کچھ حقیقی سوالات
ہیں۔ ایسے لوگوں کے فکری تجسس کو مطمئن کرنے کے بجائے مسلم معاشرہ ایسے افراد کی
نیت پر شک کرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً ایسے افراد یہ اسلام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے
ہیں۔ لیکن یہ بھی مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ کیونکہ جس لمحے آپ دائرہ اسلام
سے باہر جائیں گے، آپ کو مار دیا جائے گا۔ جبکہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ یہ تلوار کے
بجائے اخلاق کے ذریعے پھیلا ہے، لیکن مسلمانوں کو اسلام چھوڑنے سے روکنا خواد
اسلامی اصولوں کو جھٹلاتا ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جو اپنی
روایات پر تنقیدی نظر نہیں ڈالتا، جو ماضی کو ہی ہمیشہ کامل و اکمل مانتا ہے، اس
معاشرے کو اپنی بنیادوں پر ہی یقین نہیں ہے۔ آخر علی جیسے لوگوں کے سوالات کا صحیح
فکری انداز میں جواب کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ یا یہ کہ اسلام کے پاس علی جیسے لوگوں
کے سوالات کا جواب ہی نہیں ہے؟
English
Article: Why is There No Exit Option from Islam?
Malayalam
Article: Why is There No Exit Option from Islam? എന്തുകൊണ്ട്
ഇസ്ലാമിൽ നിന്ന് എക്സിറ്റ് ഓപ്ഷൻ ഇല്ല?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism