ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
23 فروری 2018
پریا پرکاش واریر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ اشارہ ابرو والی موسیقی کے خلاف شکایت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مقابلہ جاتی عدم رواداری زندہ اور تواناں ہے۔
یہ بات کہ اشارہ ابرو چند مسلمانوں کے لئے ایک مذہبی مسئلہ ہوسکتا ہے ؛ اس حقیقت کی طرف غماز ہے کہ ہندوستانی مسلم معاشرے کی مذہبی قیادت کے ساتھ بنیادی مسئلہ کیا ہے۔ صرف اشارہ ابرو ہی نہیں بلکہ پس منظر میں بجنے والی موسیقی بھی ان کے لئے ایک مسئلہ معلوم ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن پر علماء اس بات پر واویلا مچا رہے ہیں کہ کس طرح ایک آنے والی ملیالی فلم کے ایک خاص گانے نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا ہے، اس لئے کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان محبت کی بات کی گئی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہی گانا کئی دہائیوں سے کیرل میں گایا جا رہا ہے اور یہ وہاں کی مسلم قومی روایات کا حصہ بھی ہے۔ یقینا اب اس پر بھی بحث کی جائے گی کہ کیا یہ روایت اسلامی ہے یا نہیں ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح علماء کی اکثریت اسے غیر اسلامی قرار دیگی۔
مسئلہ نہ تو موسیقی میں ہے اور نہ ہی اس اشارہ ابرو میں ہے۔ مسئلہ خاص طور پر مسلمانوں کے ایک طبقے کی ذہنیت اور مذہبی خالصیت کے ان کے تصور میں ہے۔ جنوبی ایشیا کے زیادہ تر مسلم علماء کا یہ ماننا ہے کہ سعودی عرب کا اسلام ہی ایک ایسا معیار ہے کہ جس پردیگر تمام مسلم روایات و ثقافت کا فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے چاروں خلفاء کے ادوار خلافت ہی ایک ایسے معیار ہیں کہ جن پر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا فیصلہ کیا جانا چاہئے۔
لہٰذا، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ جنوبی ایشیائی مسلمان اپنی روایات کو اس ماضی کی طرف لوٹا رہے ہیں جنہیں وہ بزعم خویش قابل تقلید مانتے ہیں۔ کئی برسوں تک مسلمانوں کے اس عمل کا نتیجہ یہ برآمد ہو ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان خود اپنی ثقافتی روایات سے کٹ چکے ہیں۔ لہٰذا، پاکستان اور ہندوستان کے اندر صوفی موسیقی پر حملے کئے گئے اور ہندوستان میں مذہبی طبقے سے مسلسل ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کسی بھی شکل میں موسیقی اسلام کے اندر حرام ہے۔ اور یہ سب اس حقیقت کے باوجود ہے کہ یہاں ایسے کچھ صوفی سلسلے ہیں جہاں موسیقی کی نہ صرف یہ کہ اجازت دی گئی ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ چنانچہ بعض مسلمانوں کا نظریہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ تصوف خود اسلام کا حصہ نہیں ہے۔
کچھ علماء کے مطابق صرف 7 ویں صدی کے عرب کے ثقافتی معمولات ہی تقلید کے لائق ہیں۔ لہذا بعض قدامت پسند علماء یہ دلیل دیں گے کہ چونکہ کہ دف ( ایک قسم کا ڈھول) اس زمانے میں استعمال کیا جاتا تھا، لہذا دوسرے مسلم معاشروں میں بھی اس کے استعمال کی اجازت ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات پیدا نہیں ہوتی کہ دف اس زمانے میں عرب کی ثقافتی روایت کا حصہ تھا اور دین کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی طرح دنیا کے ان دیگر حصوں میں جہاں مسلمان آباد ہوئے وہاں دوسری ثقافتیں بھی تھیں۔ وہاں مقامی ثقافتی روایات بھی تھیں جو بہت سے معاملات میں عربوں سے کہیں زیادہ بہتر تھیں اور جو مسلمان کی مذہبی اور ثقافتی زندگی کا حصہ بن گئیں۔ ایک سادہ سوال ان علماء سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ اگر عربوں کو اپنی ثقافتی روایات پر عمل پیرا ہونے کی اجازت ہے تو پھر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کو اس سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس پر ان کا جواب نہ صرف یہ کہ مذہب اور ثقافت کا اختلاط ہو سکتا ہے، بعض علماء اس جواب میں اپنا وہ فطری عقیدہ بیان کر سکتے ہیں کہ عرب ثقافت مسلمان دنیا کی اکثر ثقافتوں سے بہتر ہے۔ اور مسئلہ یہی ذہنیت ہے: کہ ہندوستانی اسلامی علماء نے مسلسل اس ثقافتی روایت کی ناقدری کی ہے جس میں اسلامی کی جڑی مضبوط ہوئی ہیں۔ اور اب تک مذہب اور ثقافت کے درمیان تفریق کا عمل جاری ہے اور یہ مسئلہ طول پکڑتا ہی جائے جائیگا۔
شاید اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مسلم مذہبی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے لغو مسائل پر بحث کر کے وہ ہندوستانی اسلام کو مزید پر پیچ بنا رہے ہیں۔ مسلم معاشرے کو اس سے بھی زیادہ سنگین مسائل کا سامناہے؛ مثلاًتعلیم اور روزگار حاصل کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے اکثر علماء ایسے معاملات پر کچھ بھی نہیں کہتے، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔ انہیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ ایسے موضوعات پر ٹیلی ویژن کے مباحثے میں شریک ہونا بھی نقصاندہ ہے۔ ہندوستانی اسلام کے پیچیدہ معاملات کے بارے میں اپنی علم کی کمی کو بے نقاب کر کے وہ انتہاپسند ہندو قوتوں کو صرف یہ کہنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ مذہب اسلام خود پسماندگی کا شکار ہے اور اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔
یہ کافی خوشی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فلم کے ڈائریکٹر کے حق میں فیصلہ کیا اور اس فلم اور اس کے ڈائریکٹر کے خلاف دائر کی گئی تمام پولیس شکایات کو خارج کر دیا ہے۔ گانے اور اشارہ ابرو کے خلاف ان کے پارسا دعوں کے باوجود ہندوستانی مسلمان ضرور آگے بڑھیں گے اور فلم سے لطف اندوز ہوں گے۔ اس کے بعد خود انہیں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ آیا فلم میں کوئی قابل اعتراض بات تھی یا یہ صرف کچھ مولاناؤں کا خیال خام تھا۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنی ثقافت کو فروغ دیں گے، مذہبی اور غیر مذہبی گانوں کو سنیں گے اور خوبصورت قوالیاں گنگنائیں گے۔ اسلام ان کو تعلیم دیتا ہے کہ فیصلہ کرنا صرف خدا کے اختیار میں ہے اور ہر مسلم اپنے اعمال کا ذاتی طور پر خود جوابدہ ہے۔ اگر خدا نے مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی کرنے کے لئے علماء کو مامور نہیں کیا ہے تو وہ علماء خود کو اس پر مامور کرنے والے کون ہوتے ہیں؟
URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-society/indian-mullahs-condemning-song-wink/d/114387
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism