ارشد عالم، نیو ایج اسلام
22 فروری 2017
اسلامی سماجی نظام کے اندر مذہبی ادارجاتی نظام کی غیر موجودگی کی وجہ سے مسلم معاشرے میں مسلمانوں کی نمائندہ آواز کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلام کے نام پر آواز بلند کرنے والی ایسی مختلف نمائندگی کے بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو خود کو اسلامی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی صورت حال نے مسلم معاشروں کے اندر ایسی نمائندگی کی قانونی حیثیت اور اختیارات کے سوال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔ ایک واضح تنظیمی ڈھانچے اورمضبوط فیصلہ سازوں کی عدم موجودگی نے نہ صرف یہ کہ قانونی جواز کا بحران پیدا کیا ہے بلکہ مذہبی اصلاح کے عمل کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت کا ایک تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ معاملہ طے کرنا مسلمانوں کے درمیان مختلف مسلکوں کے ایسے نمائندوں کے ساتھ معاملات کا تصفیہ کرنے سے بہتر ہے کہ جن کے اختلافات ایک دوسرے کے ساتھ کبھی ختم نہیں ہونے والے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر مسلم معاشرے کے اندر اقتدار کا ایک ایسا نظم تیار کیا جاتا ہے تو اس میں صرف قدامت پسند علماء کو ہی جگہ مل سکے گی۔
ہندوستان میں تین طلاق کی برقراری یا اس کے خاتمے کے سوال پر حالیہ بحث و مباحثہ اس کی ایک اہم مثال ہے۔ بنیادی طور پر اس معاملے میں دو مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی صورت یہ ہےکہ بعض علماء سمیت تمام ترقی پسند اور حقوق نسواں کے علمبردار مسلمانوں کا موقف یہ ہے کہ مذہبی سے لیکر سیکولر تک مختلف وجوہات کی بنا پر تین طلاق کے نظام کو ختم کر دیا جائے۔ ایسے لوگ قدامت پسند مسلم قائدین کے ایک مضبوط ڈھانچے کے مقابلے میں کھڑے ہیں(جنہیں خاموشی کے ساتھ دیگر مذہبی بنیاد پرستوں کی حمایت حاصل ہے)، جو مسلم معاشرے میں طلاق کے موجودہ نظام کے اندر کسی بھی تبدیلی کے سخت خلاف ہیں اور جن کا کہنا یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی عمل مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے مترادف ہو گا، جو کہ ایک اینگلو –محمدن قانون ہے، لیکن وہ اسے ایک مقدس آسمانی قانون مانتے ہیں۔
قدامت پسندوں نے ان لوگوں کے خلاف زبردست انداز میں ایک منظم حملہ کیا ہے جو مسلمانوں کے پرسنل لاء اور خاص طور پر تین طلاق، نکاح، حلالہ اور تعدد ازدواج کے نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ چونکہ ان معمولات پر پابندگی کی تحریک کی قیادت بنیادی طور پر مسلم خواتین کر رہی ہیں اسی لیے ان حملوں کا نشانہ انہیں کی طرف سب سے زیادہ ہے۔ ان خواتین کو آر ایس ایس اور حکومت کی کٹھ پتلی تو کہا ہی گیا اور ساستھ ہی ساتھ ان کے اوپر کچھ ذاتی نوعیت کے ریمارکس بھی کسے گئے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قدامت پسند ان لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں جو اسلامی قانون کے اندر تبدیلی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ قدامت پسند موجودہ حکومت پر بھی یہ الزم لگانے سے باز نہیں رہے کہ حکومت مسلمانوں کے 'قدیم' پرسنل لاء کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہٰذا، ان تمام باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ قدامت پسند علماء اس بات سے مطمئن ہیں کہ صرف وہی ہندوستان میں اسلام کے محافظ ہیں اور صرف انہیں ہی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے کہ کون سا قانون مسلمانوں کے لیے مناسب ہے اور اس کے اندر کوئی تبدیلی ممکن ہے یا نہیں۔
اسلام نے شعوری طور پر علماء کا یہ نظام ہموار کیا ہے۔ کوئی بھی مسلمان نماز کی امامت کر سکتا ہے اس لئے کہ اسلام اللہ اور فردِ مومن کے درمیان براہ راست تعلق استوار کرنے کی بات کرتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں کو اللہ کی بارگاہ میں التجاء کرنے کا برابر حق ہے۔ مزید برآں یہ حقیقت کہ اسلام تمام مومنوں پر حصول علم کو فرض قرار دیتاہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام کا موقف یہ نہیں ہے کہ صرف کچھ مسلمانوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ علم والا ہونا چاہئے۔ قرآن مجید اکثر دیگر مذہبی صحیفوں کی طرح ایک کھلی کتاب ہے۔ متن قرآن کے مختلف مطالعوں نے اسلام کے اندر مختلف و متنوع فرقوں کو جنم دیا ہے اور ان میں سے ہر ایک پاس اسلام کے بارے میں اپنی ایک درست تعبیر و تشریح ہے۔ اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہو سکتا ہے حقوق نسواں کے مسلم علمبرداروں کی بھی اسلام کے بارے میں تعبیر و تشریح اسی قدر درست ہے جس قدر علماء کی تعبیر تشریح درست ہے۔ لہٰذا، ایک اسلامی نقطہ نظر سے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اسلام کے بارے فلاں کی تعبیر و تشریح درست نہیں ہے یا غلط ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام کے سب سے بڑے محافظ بننے کی اپنی کوشش میں علماءاس واضح حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ قرآن کی کبھی بھی صرف ایک ایسی تشریح نہیں کی گئی جو تمام مسلمانوں کے لئے قابل قبول ہو۔
علماء کے اس رویہ کا صرف ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ علماء کے اس طبقے کا استدلال واضح طور پر اسلام مخالف ہے۔ وہ اسلام کی ایک مروجہ روایت کے خلاف جا رہے ہیں جو اس بات کی ضامن ہے کہ قرآن مجید کی متعدد تعبیر و تشریح ممکن اور درست ہے۔ ابتدائی دور میں اسلام کے کوئی مذہبی ادارجاتی نظام قائم نہ کرنے کی ایک معقول وجہ ہے۔ اسی لیے مذہبی ادارہ جاتی نظام پر قابض ہونے کی کوشش کرنے والے علماء اسلام کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسلام کی حکمت اور اس کی خوبصورتی تکثیریت پسند نوعیت اور خیالات کے تنوعات میں پنہاں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام نہاد محافظ اس تاریخی اور مذہبی ورثے کو تباہ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
ارشد عالم NewAgeIslam.Com کے ایک کالم نگار ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/speaks-islam-india/d/110167
URL: https://newageislam.com/urdu-section/speaks-islam-india-/d/110184
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism