New Age Islam
Fri Nov 08 2024, 02:31 PM

Urdu Section ( 6 Apr 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Time Muslims Themselves Did Away With Polygamy and Halala اب خود مسلمان کثرت ازدواج اور نکاح حلالہ کا خاتمہ کرنے کے لئے تیار ہیں

ارشد عالم ، نیو ایج اسلام

29 مارچ 2018

طلاق ثلاثہ کو باطل اور کالعدم قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ نے اب تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ جیسے مسلم معاشرے میں مروج معمولات کے قانونی جواز پر غور کرنے کی پٹیشن کو قبول کر لیا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے صرف فوری تین طلاق کو ہی غیرقانونی قرار دیا ہے ، طلاق دینے کے یکطرفہ حق کو نہیں ، جیسا کہ اس پر اب بھی مسلمانوں کا عمل جاری ہے۔ اپنے شوہر سے طلاق چاہنے والی کسی مسلمان خاتون کے لئے مسلم پرسنل لاء کے اندر اب بھی کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ صرف خلاء کی درخواست ہی کر سکتی ہے جو کہ حق طلاق کے مساوی نہیں ہے۔ خلاء کی صورت میں طلاق دینے یا نہ دینے کا انحصار مکمل طور پر مرد کے اوپر ہے۔ مسلم عورتوں کے پاس اب بھی طلاق کے بعد بسر اوقات حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

یہ چند ایسے حقوق ہیں جن کے لئے اب بھی لڑائی جاری ہے اور مختلف مسلم خواتین تنظیمیں ان حقوق کی بازیابی کے لئے لڑ رہی ہیں۔ فوری طلاق ثلاثہ پر ان کی فتح جزوی طور پر خوش آئند ہے۔ لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ جیسے غیر انسانی عمل کے خاتمے کے لئے صرف مسلم خواتین تنظیم ہی نہیں بلکہ دیگر خواتین تنظیمیں بھی آگے آئیں گی۔

یہ عین ممکن ہے کہ کسی زمانےمیں کثرت ازدواج کی کوئی افادیت رہی ہو۔ ایک وجہ ناقص جنسی تناسب بھی ہو سکتی ہے جس کے سبب عرب سمیت متعدد معاشروں میں کثرت ازدواج کا عمل رائج تھا۔ جنگ میں مردوں کا مارا جانا ایک بہت بڑی وجہ تھی جس کے نتیجے میں دنیا کے اکثر معاشروں میں کثرت ازدواج کا نظام رائج تھا۔ تاہم، کثرت ازدواج کی صرف ایک واحد وجہ یہی نہیں تھی۔ اس کا ایک اور اہم سبب سماجی اعزاز اور مردانگی کا اصول بھی تھا۔ جس کے پاس جتنی زیادہ بیویاں ہوتی تھیں معاشرے میں اس کا قد بھی اتنا ہی اونچا مانا جاتا تھا۔ دولت و ثروت اور سماجی حیثیت باہم مربوط ہو چکے تھے۔ متعدد بیویوں کا خرچ اٹھانے کے لئے امیر ہونا ضروری تھا اور اپنے دولت کا رعب جھاڑنے کا ایک طریقہ متعدد خواتین کے ساتھ شادی کرنا بھی تھا۔ لہٰذا، ایک غریب شخص کئی کئی شادیاں رچانے سے عاجز تھا۔ دراصل اگر کوئی ایک کے بعد صرف ایک اور شادی کرنے کے لائق ہو جاتا تو وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا۔

گزرتے وقت کے ساتھ سماجی معمولات اور مذہبی معتقدات ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہوتے گئے۔ کثرت ازدواج کا سماجی عمل بھی مذہبی تعلیمات کے ساتھ مخلوط ہو گیا اور یہ ظاہر ہوا کہ اسلام نے ہی کثرت ازدواج کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ ذہنی اجنبیت کی ایک کلاسکی مثال ہے: یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سماجی محرکات کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا کوئی عمل بنیادی طور پر مذہبی معلوم ہونے لگتا ہے۔ کو مسلمان یہ دلیل دیتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی شریعت میں اجازت ہے وہ اسی مسئلہ سے دوچار ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس سماجی نظام کو جنم دینے والے حالات اب موجود نہیں رہے۔ یعنی جن معاشرتی روایات نے اس نظام کو منظوری دی اور اسے قانونی جواز فراہم کیا وہ اب بدل چکے ہیں۔ آج کثرت ازدواج کو مردانگی کی علامت یا اعلیٰ معاشرتی حیثیت کا ثبوت نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اب ان دونوں کا رعب جھاڑنے کے دیگر ذرائع موجود ہیں۔ لہذا مسلمانوں کو کھل کر یہ کہنے میں کوئی مسئلہ در پیش نہیں ہونا چاہئے کہ ہم خود ان مراعات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی غریب ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان کے درمیان کثرت ازدواج کا عمل انتہائی محدود ہوگا۔ در حقیقت اسے ثابت کرنے کے لئے علمی سطح پر کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ کثرت ازدواج کا عمل مسلمانوں کے مقابلے میں عملی طور پر ہندوؤں کے درمیان زیادہ پایا گیا ہے۔ تاہم، اس عمل کو صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اسی لئے کثرت ازدواج کے عمل کے خلاف مسلمانوں کو مزید ثابت قدمی کے ساتھ لڑنا چاہئے۔ یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ یہ نظام خواتین کے خلاف ہے۔ زیادہ تر خواتین ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کے اپنے شوہر کے فیصلے سے راضی نہیں ہوتی ہیں۔ چونکہ خواتین زیادہ تر مردوں کی مالی طاقت پر منحصر ہوتی ہیں اسی لئے وہ اس پر اپنی رضامندی ظاہر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جسے بہ خوشی رضامندی نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان حالات میں خواتین مردوں کے اس عمل کی وجہ سے زبردست ذہنی کشیدگی کا شکا ر ہوتی ہیں۔

مسلمان مردوں کے چار شادی کرنے کا خطرہ مسلم خواتین کے لئے ان کے سروں پر لٹکتی ہوئی تلوار کی مانند ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کہ مسلمان خود اس عمل کے سد باب کے لئے قدم بڑھائیں۔ عصر حاضر میں اس کی کوئی سماجی افادیت باقی نہیں بچی۔ بلکہ اس کی وجہ سے مسلم برادری کی رسوائی ہو رہی ہے اور مسلم مردوں کو شہوت پرست کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

کثرت ازدواج کے حق میں پیش کی جانے والی مذہبی دلیل میں بھی کوئی خاص وزن نہیں ہے۔ خود مسلمانوں کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کی جس آیت میں چار شادی کرنے کی ہدایت وارد ہوئی ہے در اصل اس کا مقصد کثرت ازدواج کی اجازت دینا نہیں بلکہ اس دور میں شادی کی تعداد کو محدود کرنا تھا جب لوگ ان گنت شادیاں کیا کرتے تھے۔ اس طرح قرآن کریم کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ قرآن مردوں کے لئے ان کی بیویوں کی تعداد کا تعین بھی کرتا ہے۔ لہٰذا، جو حقیقی معنوں میں قرآن کی پیروی کرتا ہے اس کے لئے ایک شادی ہی اسلام کے اندر شادی کا ایک اعلیٰ ترین تصور ہے ، کیونکہ قرآن واضح طور پر یہ حکم دیتا ہے کہ تمام بیویوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ضروری ہے، جو کہ ایک ناممکن الحصول شرط ہے۔

قرآن اپنے ماننے والوں کو آہستہ آہستہ اور مرحلہ وار انداز میں معاشرے کے موجودہ حالات کے مطابق روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی پیدا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ چونکہ موجودہ سماجی رجحان ایک ہی شادی کا ہے، لہذا مسلمانوں کو بھی ایک ہی شادی کے اصول کو اپنانا چاہیے۔ نیز قرآن مجید کا حکم یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ملک کے قانون کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ چونکہ بھارت ایک آئینی جمہوریت ہے، لہٰذا ، اگر یہاں کوئی ایسا ۱قانون ہو جس کی رو سے ایک ہی شادی سب کے لئے لازم ہو تو اس صورت میں مسلمانوں کو یہاں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

نکاح حلالہ کے بارے میں جتنا کم بولا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ ایک انتہائی شرمناک عمل ہے جس کا مقصد بے قصور خواتین کی عزت نفس کو کچلنا ہے۔ جتنی جلد اس کا خاتمہ کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ایسے معاملات درج کرائے گئے ہیں جن میں مولوی حضرات حلالہ خدمات فراہم کرنے کے لئے کاروبار چلا رہے ہیں، اور یہ کاروبار صرف اس ملک میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی چلایا جا رہا ہے۔ اگر شوہر اور بیوی طلاق کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے سے کچھ بھی مانع نہیں ہونا چاہئے۔ طلاق ہو جانے پر خواتین کا سب سے پہلے کسی دوسرے مرد سے شادی کرنا ، اس کے بعد اس سے طلاق لینا اور اس کے بعد پھر سابق شوہر سے شادی کرنا صرف واہیات ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی غیر انسانی عمل بھی ہے۔ سب سے پہلے خود مسلمانوں کو ہی اس عمل کے خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ اب یہ مسلمانوں پر ہے کہ وہ ان قدامت پسند معمولات کو جاری رکھتے ہیں اور امت مسلمہ کی بدنامی اور ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں یا وہ یک زبان ہو کر عدالت سے ان خواتین مخالف معمولات کو ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ اب فیصلہ بالکلیہ ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/time-muslims-themselves-away-with/d/114756

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/time-muslims-themselves-away-with/d/114834

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..