ارشد عالم، نیو ایج اسلام
27 جولائی 2015
یہ ایک عام بات ہے کہ برقع رجعت پسندی کی علامت ہے۔ اسے قرون وسطیٰ کی ایک علامت مانا جاتا ہے جو کہ عصر حاضر میں مسترد کر دیا جانا چاہئے۔ مجھے ذاتی طور ان تمام باتوں سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ ایک پدر سری نظام ہے جسے خواتین پر عائد کر دیا گیا ہے، اگرچہ یہ ماننا زیادہ مناسب ہوگا کہ بہت سی مسلم خواتین خود اپنی مرضی سے برقع پہنتی ہیں۔ برقعہ پر میرے اپنے تحفظات کے باوجود، میں ان کی اس پسند کا احترام کرتا ہوں۔
تاہم یہاں جو مسئلہ سوال کے گھیرے میں ہے وہ مکمل طور پر مختلف ہے۔ یہ معاملہ ایک مرتبہ روشنی میں آیا تھا کہ اس کی وجہ سے پری میڈیکل ٹیسٹ (AIPMT) غیر منصفانہ طریقے سے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً سکھوں کی پگڑی اور برقعے جیسے کئی دیگر مذہبی کپڑوں کے اندر پرچیاں چھپانے کا معاملہ روشنی میں آیا تھا۔ اسی تناظر میں سپریم کورٹ نے اسٹوڈینٹ ونگ آف جماعت اسلامی (SIO) کے درخواست گزاروں کے مطالبات کو مسترد کر دیا تھا۔ عدالت کی دلیل بہت آسان تھی کہ: کچھ گھنٹوں کے لئے مذہبی علامتوں کو دور رکھنے سے لوگوں کا مذہب ختم نہیں ہو جاتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے موقف کو واضح کر دیا تھا کہ وہ فرانسیسی ریاست کی طرح عوامی زندگی میں تمام فرانسیسی علامتوں پر پابندی عائد کرنے کا منشاء نہیں رکھتے۔ مسلمان خواتین کو جب بھی خوشی ہو برقع پہننے کی پوری آزادی حاصل ہے، لیکن امتحان دیتے وقت نہیں، اور خاص طور پر جب اس سے جرم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں یہ ثابت بھی ہو چکا ہے اور اس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عدالت کا یہ بیان اس ملک میں سیکولر ازم کی نوعیت، ہندوتوا کے ایجنڈے کے نفاذ اور آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے سوال پر بحث و مباحثہ کا عنوان بن گیا ہے۔ خاص طور پر یہ بیان ایس آئی او جیسی تنظیموں کے لیے منافقانہ ہوتا ہے جن کی اپنی تاریخ ایک سیکولر ریاست میں کبھی یقین نہ کرنے کی رہی ہے، وہ سیکولر ازم کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہمیں ایس آئی او اور دیگر ان تنظیموں کی بد سلوکی کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو تسلیمہ نسرین اور اسلام کی ان کی تشریحات پر سوالات اٹھانے والے دوسرے مصنفین کے تئیں ان کے سب و شتم سے عیاں ہے۔ یہ ایک منفرد معاملہ ہے کہ وہ مسلم تنظیمیں ایک سیکولر حکومت چاہتی ہیں لیکن وہ ان کے اپنے معاشرے سے سیکولرازم کا خاتمہ چاہتی ہیں۔
لیکن یہاں کہے جانے سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ اور یہ ان سیکولر (مسلمانوں یا غیر مسلموں) کا معاملہ ہے جو سپریم کورٹ کے اس موقف کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیکر اس کی تنقید کر رہے ہیں۔ کم کہنا یکسر غلط ہوگا۔ ایک شخص کے مطابق، کورٹ کا یہ فیصلہ صرف مسلمانوں کی مذہبی علامتوں سے متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ سکھ مذہب، عیسائیت اور تمام دوسرے مذاہب کی علامتوں سے متعلق ہے۔ یہ میڈیا ہے جس نے اسے صرف مسلمانوں کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے۔ ایک بار پھر، مسلم تنظیموں نے ایک مظلوم کا کردار ادا کر کے اس مسئلہ کا رخ بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ریاست کی بدلتی ہوئی نوعیت اہم ہے؛ ہندوتوا کا عروج ایک جامع بھارت کے خیال کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے (اگر یہ کبھی موجود رہا ہو تو)۔ یہ تمام چیزیں اہم ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا نتیجہ ان چیزوں پر بحث و مباحثہ پر ایک بندش کی صورت میں نہیں نکلنا چاہئے جو ہندوستانی مسلم معاشرے میں سطحی طور پر غلط ہے۔
چونکہ ایس آئی او نے اسے حقوق کا ایک مذہبی مسئلہ بنا دیا ہے، میں ان کے سامنے چند بنیادی سوالات رکھنا چاہوں گا: کیا انہوں نے کبھی بھی اس حقیقت پر کوئی سوال اٹھایا ہے کہ مسلم خواتین کو سعودی عرب میں ڈرائیونگ کرنے کی اجازت نہیں ہے؟ کیا انہوں نے کبھی سعودی بلاگر رفیع بدوی کو کوڑے مارنے کی مذمت کی ہے؟ کیا انہوں نے کبھی بھی سعودی عرب میں سر قلم کرنے کی ثقافت پر کوئی سوال کیا ہے؟ یا اس پر انہوں نے کبھی سوال اٹھایا ہے کہ جس طرح سعودی عرب یمن کے شہریوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے؟ اب یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کا موازنہ سعودی عرب کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سچ ہے۔ لیکن ایک ادارہ جو کر رہا ہے اس میں ایک مستقل مزاجی (نہ کہ منافقت) کا ہونا ضروری ہے۔ اس کی مشکوک تاریخ کے پیش نظر جس میں اس کے نظریہ ساز مودودی جدید ریاست کو شیطان کا ایک روپ سمجھتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ برقعہ پر ایس آئی او کا موجودہ موقف اس پر گفتگو اور بحث و مباحثے کو اپنے حق میں کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ جو لوگ اس پورے معاملے کو اقلیتوں کے حقوق کے زاویہ نظر سے ملاحظہ کر رہے ہیں وہ دو غلطی کر رہے ہیں: پہلا: وہ ایک رجعت پسند تنظیم کی حمایت کر رہے ہیں، دوسرا: وہ معاشرے کے اندر سے مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو نہیں سن رہے ہیں۔
ارشد عالم، جے این یو کے سینٹر فار دی اسٹڈی آف سوشل سسٹم میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/the-burqa-question/d/104043
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-burqa-question-/d/104065