ارشد عالم، نیو ایج اسلام
04 جون 2016
2014 میں جب سنجر فتح ہواتو اسلامی ریاست نے بالخصوص شیعہ اور یزیدی برادری سے بے شمار خواتین اور بچوں کو گرفتار کیا۔داعش نے ان لوگوں پر جو ہیبت ناک مظالم ڈھائے دنیا ان کی دل دہلا دینے والی کہانیوں سے واقف ہوئی۔سنجر کے فتح ہو جانے کے بعد پیدا ہونے والے انسانی بحران پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائےمغربی ذرائع ابلاغ نے اس بات کی تحقیقات میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی کہ کس طرح اسلامی ریاست جنسی غلامی کا بازار گرم کر رہی تھی جس میں یزیدی خواتین کی خرید و فروخت بھی شامل تھی۔
یورپی عیسائی اور مابعد عیسائیت کے قلم کاروں نے اسلام کو ایک ایسا مذہب ثابت کرنے کی کوشش کی جوسیکس کے ناپاک چنگل میں گرفتار ہے۔ان واقعات و حادثات نے مسلمانوں کو یکساں طو پر خوفزدہ کر دیا تھا اور انہوں نے اس پورے معاملے کو غیر معمولی سمجھنے کی کوشش کی اور لوگوں کو غلام بنانے کے عمل کو غیر اسلامی قرار دیا۔
اس مضمون میں یرغمالیوں کو غلام بنانے پر کہ جن کے ساتھ وہ جنسی تعلق قائم کر سکتے ہیں خود اسلامی ریاست کی دلیل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ مضمون اسلامی ریاست کی ایک میگزین’دابق‘میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر مبنی ہے۔
اس مضمون میں جسے ایک مسلمان عورت نے لکھا ہے جنگ کے دوران پکڑے گئے لوگوں کو غلام بنانے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔اس مضمون کا آغاز قرآن و حدیث کی اس دلیل سے ہوتا ہے جس سے ان کے اس دعویٰ کی تائید ہوتی ہے کہ اسلام میں غلام بنانے اور ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے۔ چنانچہ اس کی دلیل میں قرآن مجید یہ آیت پیش کی گئی ہے: ’’اور جواپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں‘‘ (المومنون 5-6)۔ اور اس کے بعد اس کی تشریح یہ پیش کی گئی ہے کہ قرآن میں ما ملکت ایمانک سے مراد وہ باندیاں ہیں جو غلامی کی وجہ سے اپنے شوہروں سے الگ کی جا چکی ہیں۔ ’’جنہوں نے ان پر ملکیت حاصل کر لی ہے وہ حربی (دشمن) شوہر کےطلاق کے بغیر ہی ان کے لیے حلال ہیں‘‘۔ اس کے علاوہ اس مضمون میں ایک مستند حدیث کا بھی حوالہ پیش کیا ہے جو کہ اس طرح ہے: ’’ کسی بھی شادی شدہ عورت کے قریب جانا زنا ہے سوائے اس عورت کے جسے غلام بنا دیا گیا ہو‘‘۔
لہٰذا، داعش کے لیے جنگ کے ذریعے لوگوں کو غلام بنانا ایک عظیم سنت نبوی ہے جو بے شمار الہی حکمتوں اور مذہبی فوائد پر مشتمل ہے، اس سے قطع نظر کہ لوگ اس سے آگاہ ہیں یا نہیں۔وہ مزیدلکھتی ہیں کہ، 'نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کفار پر حملے اور چڑھائی کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔وہ ان کے مردوں کو قتل کرتے تھے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو غلام بنا لیتے تھے۔اس کے بعد اس مضمون میں ایسی بے شمار حدیثیں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف جنگوں کے دوران لوگوں کو غلام بنایا تھا۔ داعش اس بات کی توضیح پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام معلوم ہوتا ہے کہ کیوں عالم لوگ اور خاص طور پر مسلمان ان پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ ان کی تمام کوششیں اسلامی سنت کو زندہ کرنے کے لیے ہیں۔یہ مضمون غیر مسلموں نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے اور خاص طور پر ان کے علماء کے لیے ایک جواب ہےجو داعش کے غلام بنانے کے عمل کی مذمت کرنے کے لیے کافروں کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
یہ ان کی باطل تعلیمات کا دروازہ بند کرنے اور ان کی زبان روکنے کی ایک کوشش ہےاگرچہ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ شریر علماء کون ہیں جن کے خلاف داعش ہے۔ اس سنت کا احیاء داعش کے لئے بہت بڑی فخر کی بات ہے اور مصنفہ کا کہنا ہے کہ جس دن پہلی باندی ہمارے گھر میں داخل ہوئی ہم نے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا۔اور پوری دلیری اور دریدہ ذہنی کے ساتھ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ہم نے اس سنت کا احیاء امن، مذاکرات، جمہوریت یا انتخابات کے ذریعےنہیں بلکہ تلوار کے زور پر کیا ہے۔ ہم نے غلامی کو ووٹ یا رائے کے ذریعہ نہیں بلکہ خون آشام تلوار کے ذریعہ نبوی طریقہ کے مطابق زندہ کیا ہے۔
یہ دلیل دیتے ہوئے کہ یزیدی مومن نہیں ہیں داعش نے مسلمانوں کو قرآن کی ایسی مختلف آیتوں سے روسناش کیا ہے جن میں مسلمانوں کو اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہےجب تک اللہ کا دین غالب نہ آجائے۔داعش کے لیے لوگوں کو غلام بنانا طاغوت (بت) کے سامنے جھکنے والوں کے لئے اس بات کی نصیحت ہے کہ عبادت کا حق دار صرف اللہ ہے ۔اللہ کے حکم پر عمل نہ کرنے والوں کے لیے اللہ کا صرف یہی ایک پیغام ہےاور داعش کے مجاہدین صرف اللہ کے اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔
لہٰذا، غلام اپنی کمیونٹی کے لیے اس بات کی نصیحت بن جاتے ہیں کہ وہ مذہبی معمولات کے لحاظ سے گمراہ ہو چکے ہیں۔داعش کے لئے ان فرقوں کی توہین کرنا بھیایک طریقہ ہے تاکہ وہ اللہ کی راہ چھوڑدیں۔ صرف دائرہ اسلام میں آ کر ہی وہ خود کو ان سب مظالم سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لہذا، لوگوں کو غلام بنانا انہیں دائرہ اسلام میں لانے کا ایک اور اقدام ثابت ہو تا ہے۔یہی وجہ ہے کہ داعش ایک الہٰی اور قابل تعریف قانون کی پیروی کرنے پر تنقیدکی وجہ سے مکمل طور پر حیران ہے۔
لوگوں کو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نظریات کے لحاظ سےداعش مکمل طور پر اس بات سے مطمئن ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی پیروی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ اس بات سے بھی مطمئن ہیں کہ قرآن اور حدیث کی صرف ایک لغوی تشریح ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان صحائف کا حوالہ پیش کر رہے ہیں جنہیں اکثر مسلمان بحث و مباحثہ سے مبرا مانتے ہیں۔ جب معاملہ ایسا ہے تو یہ بات کسی کی بھی سمجھ سے باہر ہے کہ داعش اور پر تشدد، انتہا پسند اور اسلام مخالف نظریات کی مخالفت کرنے والے مسلمان نظریات کی اس جنگ میں کس طرح فتح حاصل کریں گے۔
URLfor English article: https://www.newageislam.com/islamic-ideology/reviving-sunnah-how-isis-justifies/d/107532
URL: https://newageislam.com/urdu-section/reviving-sunnah-how-isis-justifies/d/108344