New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 01:10 AM

Urdu Section ( 12 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslims will have to Regain the Spirit of Islam مسلمانوں کو اسلام کی روح کو دوبارہ حاصل کرنا ہوگا

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

11 جون، 2012

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو کس طرح پڑھا جاتا ہے،  اگر ایک مسلمان لڑکی 15 سال کی عمر میں بالغ ہو جائے، تو وہ قانون کی نظر میں نابالغ نہیں ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان لڑکیوں کی شادی 18سال سے پہلے کی جا سکتی ہے جبکہ ہندوستان میں شادی کی کم سے کم عمر 18 سال  ہے؟ پھر حقوق نسواں کے علم برداروں کی سالوں کی  اس جدو جہد کا کیا جس کے نتیجے میں شادی کی عمر میں اضافہ کیا گیا تھا؟

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ قانون سازی تمام دوسرے لوگوں کے مقصد سے ہے اور مسلم لڑکیوں کے معاملے میں قدیم قانون کا ہی اطلاق ہوگا، جو اس زمانے اور وقت میں ملعون چیز ہے؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے شرعی عدالت؟ ایسے امکان کو سوچ کر ہی وحشت ہوتی ہے لیکن ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کے امکانات ہیں۔

کوئی بھی پر امید ہو سکتا ہے اور  سوچ سکتا ہے کہ اس معاملے میں  جج اس مسلم لڑکی کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا جس نے شادی کے معاملے میں اپنے انتخاب کے حق کا استعمال کیا تھا۔ تاہم، فیصلے نظیر کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں اور اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ فیصلہ نظیر نہیں بنے گا۔ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام مسلمان لڑکیاں جب وہ سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں تو شادی  کر لیتی ہیں یا فیصلہ اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ اصل میں مسلم طبقے  میں موجودہ رجحان دیگر طبقات کے جیسے ہی ہیں یعنی لڑکیوں کی شادی کی عمر بڑھ رہی ہے۔  لیکن بظاہر طور پر متضاد یہ ہے کہ اس معاشرتی رجحان کی عکاسی ان قوانین میں نہیں ہو رہی ہے، جن کا اطلاق مسلمانوں پر ہوتا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے مسلمانوں کو سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح، مسلم قیادت، مذہبی اور سیاسی دونوں نے اس  فیصلے کو قانونی بنانے  اور استقبال کرنے کی درخواست کی ہے جو کسی بھی جدید ملک میں ملعون تصور کیا جاتا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مسلم پرسنل لاء اور ہندوستانی آئین میں  پناہ لینا کچھ اور  نہیں بلکہ شرمناک ہی کہا جا سکتا ہے۔

یہ صرف فطری ذہانت کی خوبی ہے کہ ترکی، تیونس اور شام جیسے مسلم ممالک نے بھی جدید زندگی کے ابھرتے ہوئے معمول کے مطابق اپنے قوانین کو تبدیل کر لیا ہے۔  انڈونیشیا اور پاکستان، دونوں مسلم ممالک میں ہندوستانی مسلمانوں کے مقابلے شاید صنفی انصاف کرنے والے زیادہ قانون ہیں۔ کم سے کم یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ  آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو  اس تعلق سے سوچنا شورع کرنے سی کیا روکتا ہے، وہ ناقابل ادراک و فہم ہے۔ بنیاد پرستی سے  چپکے رہنے سے، وہ ممکنہ طور پر بہت سی مسلمان لڑکیوں کی صحت اور زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور وہ جن کے سرپرست ہونے کا وہ خود دعوی کرتے ہیں۔

حمایتی  بننےکی کوشش کے بجائے، مسلم قیادت کو اس فیصلہ کو  انتباہ کے نوٹ کے طور پر دیکھنا چاہیئے اور شادی سے متعلق مذہبی قوانین پر  سنجیدگی سے نظر ثانی میں مشغول ہونا چاہیئے جو  اس زمانے اور وقت میں پرانے ہو گئے ہیں۔ یہ صنفی انصاف کرنے والے قوانین کے لئے جدو جہد نہیں ہے، یہ صرف اس بارے میں ہے کہ  مسلم لڑکیوں اتنی کم عمر میں شادی نہیں کر سکتیں اور نہ ہی کرنی چاہیئے۔

ہندو مذہب میں اسی طرح کا رواج ہے جسے  مذہب کی طرف سے منظوری حاصل تھی لیکن  گزشتہ سالوں کے دوران انہوں نے اپنے رجعت پسندانہ قوانین میں اصلاح کرنے اور آگے بڑھنے میں کامیاب رہے ہیں۔  اگر انہوں نے ویسے ہی دلائل دئے ہوتے جیسے کہ آج مسلمان دے رہے ہیں، جو یہ ہے کہ مذہبی قوانین مقدس ہیں اور انہیں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے،  تو ہندو خواتین نے جو پیش رفت کی ہے وہ  ناقابل تصور ہوتی۔

مذہبی قوانین کو ایک رہنما اصول کے طور پر لیا جانا چاہیئے  نہ کہ ایسے جس کے تمام حروف آنے والے تمام زمانے کے لئے  ابدی ہیں۔ ان قوانین کے پیچھے منشاء کو سمجھنا چاہیئے۔ اسلامی قانون نے سب سے پہلے خواتین کو وراثت میں حق اور شادی سے انکار کرنے کا حق عطا کیا تھا۔ یہ ایک انقلابی قدم  تھا اور بہت سے تناظر میں  یہ  اب بھی انقلابی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس انقلابی پیغام کے معنی کو کھو دیا اور اپنے مذہب کو ناقابل تبدیل بنا دیا۔ اگر سینکڑوں سال پہلے، مسلم قیادت نے خواتین کو ایسے حقوق عطا کئے جو  اس وقت نا قابل تصور تھے، اس کا پیغام یہ ہے کہ مسلم معاشرے کا بنیادی اصول صنفی انصاف ہونا چاہیئے۔ اس پیغام کو ساتھ لے کر  نہ صرف مسلم معاشروں کے اندر بلکہ تمام مذہبی روایات کے اندر عورتوں کے لئے ایک بہتر دنیا کے لئے جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے،  بلکہ اس کے بجائے ہو یہ رہا ہے کہ جب  اپنی عرتوں کے ساتھ برتائو کا معاملہ آذتا ہے تو  اسلام سب سے زیادہ پسماندہ ہو گیا ہے۔

یہ کہنا غیر موضع نہیں ہوگا کہ آج اسلام کی شبیح بنیادی طور پر  عورتوں کے مخلاف کی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ  اس طرح کے فیصلوں پر مسلم قیادت کی خاموشی رجعت پسندانہ شبیح کو بر قرار رکھنے اور مقبول بنانے  میں مدد گار ثابت ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان متحد ہو کر   ہمیشہ کے لئے ان معاملات کو درست کردیں اور  بتائیں کی یہ رجعت پسنادانی فیصلہ  اپنی بیٹییوں کے لئے دیکھے گ/ے خواب سے غیر مربوط ہے۔

ارشد عالم ایک مصنف اور مضمون نگار ہیں، فی الحال جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے منسلک  ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/muslims-reclaim-spirit-islam/d/7596

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/muslims-regain-spirit-islam-/d/7605

Loading..

Loading..