ارشد عالم، نیو ایج اسلام
17 نومبر 2017
حال ہی میں اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب مدارس کے طالب علم اپنے رسمی درسی نصاب کے بجائے این سی ای آر ٹی کی کتابیں پڑھیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے قبل ان کے ایک وزیر نے کہا تھا کہ مدرسوں کو موجودہ دور میں غیر افادیت بخش مضامین کے بجائے سائنس اور ریاضی کی تعلیمات فراہم کرنا چاہئے۔ ہمیں ان اعلانات کو کس طرح دیکھنا چاہئے جو بظاہر مدارس اسلامیہ کو جدید کاری کے راستے پر لا سکتے ہیں؟ اس لئے کہ اپنے کردار و اقوال کے اعتبار سے یوگی حکومت کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ مروت اور ہمدردی کا نہیں ہے۔ در اصل ان کا تعلق ایک ایسی پارٹی سے ہے جس نے اسمبلی انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال تاج محل پر بی جے پی کی جانب سے پیدا کیا ہوا تنازعہ ہے جسے وزیر اعلیٰ نے اب تک حل نہیں کیا ہے۔ لہٰذا ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مدراس اسلامیہ میں این سی ای آر ٹی کی کتابیں متعارف کرانے کے پیچھے مسلمانوں کے اندر اتر پردیش حکومت کے ارادے کے بارے میں شکوک شبہات پیدا ہوں گے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ اس طرح کی حرکت کے پیچھے حکومت کا مقصد کوئی تازہ تنازع پیدا کرنا ہو۔ لیکن کیا ہم اسے اپنے مدارس کی حالت زار پر بحث و تمحیص کے ایک موقع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں؟
اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ مدارس کی موجودہ صورت حال تشفی بخش نہیں ہے۔ ان اداروں میں جو تعلیم دی جاتی ہے قرون وسطی کی اور فرسودہ ہے؛ وہاں منطق کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن پر طلباء کئی کئی گھنٹے صرف کرتے ہیں لیکن اس سے انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ایک وقت تھا جب مدارس سے نہ صرف فقہی ماہرین بلکہ بہترین فلسفی، ریاضی دان اور یہاں تک کہ بہترین معمار بھی پیدا ہوتے تھے۔ لیکن 1857 کے بعد مدارس میں تعلیم کا دائرہ محض مذہبی تعلیم تک ہی محدود ہو کر رہ گیا۔ درسِ نظامی کے نئے نصاب میں کہ جس کا آغاز دیوبند نے کیا تھا اور اس کے بعد جسے جنوبی ایشیا کے تمام مدارس میں رواج حاصل ہوا، قرآن اور حدیث کی تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آزادی کے بعد بعض ریاستوں نے مدارس کو مختلف ریاستی مدرسہ بورڈوں کے ذریعہ منظم کیا اور جدید مضامین متعارف کرا کر اس کی صورت حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ لیکن وہاں آزاد مدارس بھی موجود تھے جن کی تعداد ریاستی مدرسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی اور وہ مدارس اب بھی غیر افادیت بخش اور فرسودہ نصاب تعلیم ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ریاستی مدارس قابل اساتذہ کی کمی کا شکار ہیں جبکہ آزاد مدارس کو موجودہ دور کی ضروریات کی کفالت کرنے کے لئے شاید اپنے مکمل نصاب کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سچر کمیٹی اور اس سے بھی پہلے 1986 میں گوپال سنگھ کمیشن کی رپورٹ ہمیں بار بار یہ یاد دلاتی ہے کہ مسلمان تعلیمی طور پر ایک پس ماندہ اقلیت ہیں۔ موجودہ تعلیمی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا تعلیمی خسارہ ابتدائی مرحلے میں شروع ہوتا ہے جہاں اسکول ایک بڑی تعداد میں طالب علموں کے اسکول چھوڑنے کے باعث انہیں اسکول میں برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا مدرسوں کے ساتھ کچھ تعلق ہے۔ مثال کے طور پر اتر پردیش جیسی ریاستوں میں مدارس اسکولی نظام کے متوازی ہیں۔ لہٰذا ، مدرسہ جانے والے بچے کبھی بھی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی خوشی کا تجربہ نہیں کر سکتے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ مدارس کے اوقات تعلیم کو اس طرح ترتیب دی جاتی کہ بچوں کو دونوں جگہ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملتا۔ یہ آسان قدم اسکولوں میں مسلم بچوں کو برقرار رکھنے کی سطح کو بہتر بنانے میں معاون ہوگا۔
معاشرے کی بدلتی ضروریات کی عکاسی کے لئے اس کے نصاب میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر کار اس طرح کے علماء کس کام کے ہیں جو جدید تاریخ، سیاست یا جغرافیہ کے بارے میں کچھ بھی علم نہیں رکھتے؟ یہاں تک کہ اگر کوئی عالم اسلام کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے تو اسے تبلیغ بھی اسی دنیا میں کرنا ہے اسی لئے کم از کم اسے اس بات کا کچھ علم ہونا چاہیے کہ آج دنیا کس طرح چلتی ہے۔ ورنہ ہم صرف ایسے علماء کی ہی توقع کر سکتے ہیں جو صرف ٹیلی ویژن سٹوڈیو میں ریاکاری کرتے ہیں۔ مسلم معاشرے کو یہ محسوس کرنا ہوگا کہ آج مدارس کا نظام ان کی خواہشات کے لئے زبردست نقصاندہ ہے۔ ان مدرسوں کی جدید کاری کرنے اور ان میں جدید مضامین کی تعلیم متعارف کرانے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہمارا مسلم مذہبی رہنما حالات حاضرہ کے نشیب و فراز سے ناواقف ہو۔ اس لئے کہ اسے مذہب کی خدمت اسی دنیا میں کرنی ہے۔ لہذا، دنیا اور اس کی تمام پیچیدگیوں کو سمجھنا اسلامی تعلیم سمیت تمام تعلیمات کا بنیادی مقصد ہونا چاہئے۔
یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ان مدارس میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی موجودہ صورت حال انہیں اس قابل بھی بنانے کے لائق نہیں ہے کہ وہ دنیا کے نقشے پر مختلف ممالک کی جائے وقوع کا بھی تعین کر سکیں۔ اپنی روایت کی حفاظت کے نام پر کیا ہم ان مسلم بچوں کا مستقبل قربان نہیں کر رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ اپنے سیاسی مقاصد کے تحت ایسا کر رہے ہوں لیکن ہمیں اپنے مدرسوں میں اعلی معیار کے نصاب تعلیم کی مخالفت کیوں کرنی چاہئے۔
مدراس کے نظام کی حالت زار انتہائی ابتر ہے۔ محض جدید نصاب متعارف کرانے سے اس میں بہتری نہیں پیدا ہو سکتی۔ آخر کار مدرسوں میں ان درسی کتابوں کا کیا ہوگا جب ان کو بڑھانے کے لئے کوئی استاد ہی موجود نہ ہو؟ ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی کی طرف سے کئے جانے والے ایک سروے میں پتہ چلا ہے کہ ان مدارس میں تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہی نہیں۔ انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ مختلف مدارس میں ایسے اساتذہ سائنس اور ریاضی کی تعلیم دیتے ہوئے پائے گئے جو ان مضامین کی تعلیم دینے کے قابل ہی نہیں تھے۔ اس کے علاوہ بہت کم مدرسوں نے جدید کاری کی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے اور یہاں تک کہ ان کے مضامین حادثاتی طور پر نصاب میں شامل کیے گئے ہیں۔
اوسطاً مدارس کے طالب علموں پر پہلے سے ہی مذہبی نصاب کا زیادہ بوجھ ہوتا ہے جدید مضامین کا اضافہ کرنے سے صرف ان کا بوجھ بڑھے گا۔ لہٰذا، ایک ایسے منصوبہ کی ضرورت ہے کہ ان جدید مضامین کو کس طرح کامیاب انداز میں متعارف کرایا جاسکتا ہے اور اگر ممکن ہو تو ہم کس طرح مذہبی نصاب کے مواد میں کمی کرسکتے ہیں۔ مدرسوں کے بارے میں اس طرح کی کھلی بحث تمحیص کے بغیر کچھ بھی بہتر نہیں ہونے والا ہے۔ مسلم رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ نہ ہی کانگریس نے اور نہ ہی بی جے پی نے ان کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ لہٰذا ، اب یہ مسلمانوں کے اوپر ہے کہ انہیں ان تمام مواقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے جو مسلم معاشرے کی بہتری کے لئے ہوں۔
URL: https://newageislam.com/islamic-society/muslims-seize-any-opportunity-reform/d/113255
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-seize-any-opportunity-reform/d/113329
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism