ارشد عالم، نیو ایج اسلام
26 اگست 2021
طالبان کی مذمت نہ کرنے کا
مطلب صرف یہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام اور شریعت کے نفاذ کا خواب
ہندوستانی مسلمانوں کےدرمیان وسیع پیمانے پر مشترک ہے۔
اہم نکات:
1. تمام فرقوں کے
ہندوستانی علماء کے درمیان طالبان کے لیے وسیع پیمانے پر ہمدردی پائی جاتی ہے۔
2. شبیر احمد اور اشرف
علی تھانوی جیسے دیوبندی علماء پاکستان کی شرعی ریاست کے تصور پر پختہ یقین رکھتے
تھے۔
3. احمد رضا بریلوی کو
امید تھی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ایک اسلامی ریاست قائم ہوگی۔
4. صرف علماء ہی نہیں
بلکہ 74 فیصد ہندوستانی مسلمانوں نے ایک حالیہ پیو سروے کے مطابق شرعی عدالتوں کی
خواہش کا اظہار کیا۔
5. کیا اس کا مطلب یہ
ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو اجتماعی قومی زندگی کا حصہ نہیں سمجھتے ہیں؟
----
آل انڈیا مسلم پرسنل لا
بورڈ کے سجاد نعمانی کے تباہ کن انٹرویو کے بعد جس میں انہوں نے افغانستان میں
طالبان کی فتح کا خیرمقدم کیا اور ہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے مبارکباد بھیجی،
علماء کی کسی بھی تنظیم کی جانب سے مزید ایسے پیغامات سامنے نہیں آئے۔ کیا ہمیں یہ
سمجھنا چاہیے کہ ایسا اس لیے ہوا کہ ہندوستانی علماء کو سجاد نعمانی کی بات پسند
نہیں آئی یا اس لیے کہ وہ نظریاتی طور پر طالبان کے مخالف ہیں؟ یقینا، بریلویوں نے
عقیدے کے ہر معاملے میں دیوبندیوں کی مخالفت کی ہے لیکن ابھی تک کسی بھی بریلوی
ادارے کو طالبان کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ جیسا کہ اس کی امید
کی جا رہی تھی کیونکہ طالبان نظریاتی طور پر صوفی اسلام کے خلاف ہیں۔ مزید یہ کہ
میڈیا اور حکومت کے کچھ عملوں کی سجاد نعمانی پر تنقید کے بعد دوسرے دیوبندی ان کے
دفاع میں سامنے نہیں آئے۔ یہاں تک کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی ان کے
بیان سے دوری اختیار کر لی اور نعمانی نے جو کہا اس پر تبصرہ کرنے سے بھی گریز کیا۔
ہمیں اس خاموشی سے کیا سمجھنا چاہیے؟
جزوی طور پر یہ ایک حکمت
عملی ہے۔ اتر پردیش کے آئندہ انتخابات اور طالبان کے حق میں زبان کھولنے والوں پر
حکومت کی سختی کو دیکھتے ہوئے علماء نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا ان کی
خاموشی کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ وہ طالبان پر کوئی موقف نہیں رکھتے بلکہ
اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کے تحت وہ اپنی رائے کا اظہار کرنا غیر
ضروری سمجھتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہر فرقے کے ہندوستانی علماء کے درمیان طالبان کے
لیے وسیع پیمانے پر ہمدردی موجود ہے۔ دیوبندی اور بریلوی جمعہ کی دوسری اذان جیسے
غیر معقول مسائل پر لڑ سکتے ہیں، لیکن وہ اسلامی ریاست کے ذریعے شریعت کے اعلان یا
اس کے نفاذ کی ضرورت پر آپس میں اختلاف نہیں کرتے۔
دیوبندی خود کو قوم پرست
قرار دیتے ہیں اور تحریک آزادی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یقینا، حسین احمد مدنی کی قیادت
میں ایک دھڑا کانگریس پارٹی کے ساتھ تھا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑا تھا۔
تاہم، حسین احمد نے بھی مسلمانوں کے لیے اسلامی ریاست کی ضرورت کو کبھی رد نہیں
کیا کیونکہ ان کا ماننا تھا قوم پرستی صرف ایک 'محدود وقت' کے لیے ہے: جب تک کہ
تمام ہندوستانی مسلمان نہیں ہو جاتے۔ ان کا ماننا تھا کہ بالآخر ہندوستان میں رہنے
والا ہر شخص مسلمان ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک جامع قوم پرستی کی ضرورت باقی
نہیں بچے گی۔ اس خیال خام کے مطابق مسلم زندگی ایک اسلامی ریاست کے اندر ہی منظم
ہوگی۔ دیوبندیوں میں شبیر احمد اور اشرف علی تھانوی کی قیادت میں ایک دھڑا تھا جو
پاکستان کے تصور پر پختہ یقین رکھتا تھا کیونکہ صرف ایک اسلامی ریاست کے اندر ہی
شریعت نافذ کی جا سکتی تھی۔ لہٰذا، جب بات اسلامی ریاست کے قیام کی ہو تو دیوبندی
طالبان سے مختلف نہیں ہیں۔
بریلوی خود کو دیوبندیوں
کا کٹر حریف مانتے ہیں۔ ان کے امام احمد رضا خان نے بڑے دیوبندی علماء کے خلاف کفر
کا فتوی جاری کیا اور جو بھی دیوبند سے وابستہ ہیں ان سب کے بھی خلاف یہی فتوی ہے۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طالبان کے خلاف ہوں گے؟ امام احمد رضا نے اپنی زندگی
میں برطانوی سامراج کے خاتمے اور اس کے بعد اسلامی حکومت کے قیام کی پیشن گوئی کی
تھی۔ اپنے تخیل میں انہوں نے کابینہ بھی تیار کر لیا تھا اور کچھ اہم ریاستی عہدوں
کے نام بھی سوچ ركھے تھے۔ لیکن یہ بھی ایک اسلامی ریاست تھی اور مسلمانوں کو شریعت
کے قوانین کے مطابق حکومت کرنا تھا۔ احمد رضا اس خواب کی تعبیر سے پہلے ہی وفات پا
گئے لیکن بالآخر بڑے بڑے صوفی اور بریلوی قائدوں نے ایک اسلامی ریاست کے قیام کے
اس عقیدے کی وجہ سے پاکستان کی حمایت کر ڈالی۔ تو اس زاویہ نظر سے بریلوی طالبان
سے مختلف کیسے ہوئے؟
لیکن شریعت کی یہ چاہت
صرف علماء تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ کئی سالوں اور مختلف طریقوں سے اب یہ مسلم
عوام تک پہنچ چکی ہے اور اب یہ ان کے شعور کا حصہ بن چکی ہے۔ ورنہ
، ہم اس بات کو کیسے سمجھیں کہ 74 فیصد ہندوستانی مسلمانوں نے
حالیہ پیو سروے میں شرعی عدالتوں کی خواہش کا اظہار کیا؟ اس سے یہ بات معلوم ہوتی
ہے کہ طالبان کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد کیوں ہندوستانی مسلمانوں نے طالبان
کے لیے تعریفی پیغامات سے سوشل میڈیا بھر ڈالے۔
مسلمان سات دہائیوں سے
زیادہ عرصے سے آزاد ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جمہوری
اداروں، سیکولر اصول اور صنفی مساوات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ورنہ کیوں ایک
سیکولر ریاست میں کئی دہائیوں تک رہنے کے بعد بھی ہم شریعت جیسے نظام کے لیے سوچ
رہے ہیں جو کہ عورتوں اور اقلیتوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتا ہے؟ اس کا مطلب صرف
یہ ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان خود کو اجتماعی قومی زندگی کا حصہ نہیں سمجھتے
ہیں۔ یا یہ کہ جب وہ آئین کی بات کرتے ہیں تو انہیں صرف اپنے قدامت پسند مفادات کے
تحفظ کی فکر ہوتی ہے۔ ورنہ اس کی کوئی دوسری وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے کہ ہندوستانی
مسلمان (دنیا بھر کے اکثر مسلمانوں کے برعکس) جو کہ جوش قسمتی سے ایک جمہوری ملک میں
زندگی بسر کر رہے ہیں، طالبان اور اس کے قرون وسطیٰ کے اصولوں کی کھل کر مذمت نہیں
کریں گے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ
کوئی ایسی آواز اٹھا ہی نہیں رہا ہے۔ طالبان کی مذمت میں انڈین
مسلمزفارسیکولرڈیموکریسی (IMSD) اور بھارتیہ مسلم
مہیلا آندولن (BMMA) کے بیانات قابل تعریف ہیں لیکن مرکزی دھارے کے سیاسی اور مذہبی
رہنما اب تک خاموش کیوں ہیں؟ یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ نچلی ذات کے مسلمانوں نے
طالبان کی رجعت پسندانہ ذہنیت کی بجا طور پر مذمت کی ہے اور جمہوریت اور تکثیریت
پر اپنے بھروسے کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ان کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف
اشرافیہ مسلمان ہی طالبان کے حامی بن رہے ہیں۔ اس سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہو جائے
گی کہ پسماندہ مسلمان جو کہ 74 فیصد ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ ہیں شریعت
کے لیے بے تاب ہیں۔ انہیں محض اپنے دعووں سے ہٹ کر معاشرے میں بڑھتی ہوئی اسلام
پرستی کو روکنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہ ایک دن جنگ تو جیت سکتے ہیں لیکن بالآخر
میدان ہار جائیں گے۔
English Article: Indian Muslims and the Allure of Sharia
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism