ارشد عالم، نیو ایج اسلام
25 مئی 2016
یہ سوچنا کہ داعش کا وہ تازہ ترین ویڈیو جس میں ہندوستانی نوجوانوں کو تشدد بھڑکانے اور ملک میں قتل و غارت گری مچانے کا عزم لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے حقیقی ہے،اور یہ سوچنا کہ ہندوستانی مسلمان اسلامی انتہاپسندی کےپروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، انتہائی احمقانہ بات ہے۔سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ سے لیکر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ تک تمام لوگوں نےہندوستانی مسلمانوں کو عدم تشدد کے نام نہاد ہندوستانی روایت پر قائم ایک روادار قوم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ داعش کی تازہ ترین ویڈیو کے بعدہندوستان کوشاید اس صورت حال کا اندازہ نہیں ہے جس کا وہ سامنا کرنے والا ہے۔
محض یہ سوچنا کہ ہندوستانی مسلم نوجوان داعش کے نظریے کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے، اس کی صرف خواہش کی جا سکتی ہے، یا دوسرے طریقے سے یہ کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ہندوستان میں موجود ہی نہیں ہے۔لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے: اس لیے کہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب جنوبی ہندوستان میں مسلم نوجوانوں نے داعش کے پرچم کے ساتھ تصویر کشی کی ہے،اور جب البغدادینے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو ہندوستانی مسلم علماء نے اس کی شان میں بہت ساری اچھی اچھی باتیں کیں۔داعش کے 'دار الاسلام' کی طرف ہجرت کرنے کے لیے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے چند ہندوستانی علماء نے ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی پوری کوشش کی کہ داعش کی خلافت کی دعوت صحیح معنوں میں اسلامی ہے اور اسے مضبوط کرنا تمام مسلمانوں کا حتمی مقصد ہونا چاہیے۔
اسسے پہلےجو نوجوان اس ویڈیو میں ظاہر ہوئے تھے وہ انڈین مجاہدین کا حصہ تھے۔ 2008 ء میں جاری کیے گئے ایک ای میل میں انڈین مجاہدین نے مختلف فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل میں ہندوستانی ریاست کی ساز بازپر زبرست پھٹکارلگائی ہے۔ اس ای میل کے مشمولات ہندوؤں کے خلاف مذہبی تعصب اور نفرت انگیزی پر مبنی نہیں تھے، بلکہ اس میں مختلف فرقوں کے درمیان تنازعات میں ایک غیر جانبدار کردار ادا کرنے کی مختلف ہندوستانی حکومتوں کی بظاہر نا اہلیت کی مذمت کی گئی تھی۔انڈین مجاہدین نے ہندوستانی ریاست کے اس عدم غیر جانبداری کا الزام آہستہ آہستہ سیکولرازم اور اپنی اقلیتوں کی حفاظت کے لئے آئینی احکامات کے خاتمہ پر ڈالا ہے۔
ان میں سے کچھ ہندوستانی نوجوانوں اب داعش میں شامل ہو چکے ہیں اور داعش کے تازہ ترین ویڈیو سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان کے غصے کا موضوع اب ہندوستانی ریاست نہیں ہے۔ بلکہ ان کی زہریلی نفرت کا ہدف اب اس ملک کی وسیع ترین ہندو برادری ہے۔ داعش کے اس ویڈیو میں ہندوؤں کوکافر اور ذمی کہنے والے وہ ہندوستانی نوجوان ہندو مذہب اور معاشرے کی مکمل طور پر توہین اور تضحیک کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں نظر آنے والے ان مسلم نوجوانوں کے مطابق درخت، گائے اور یہاں تک کہ لنک کی پوجا کرنے والے مشرکوں اورہندوؤں کے خلاف جنگ چھیڑنا ایک نیک عمل ہے۔
مسلمانوں کے موہومہ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کرنا اب کوئی بنیادی عقیدہ نہیں رہا، بلکہ ان ویڈیوزمیں شرک کے خاتمے کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر سیاق و سباق والے تشددکے تصور کی جگہ (جیسا کہ 2008میں انڈین مجاہدین کے ای میل سے ظاہر ہے)یہ تصور پیدا کر دیا گیا ہے کہ کافروں کے خلاف اس وقت تک جنگ کرناسیاق و سباق سے بالاتر خالصتاًً ایک قرآنی حکم ہے کہ جب تک زمین سے فتنہ ختم نہ ہو جائے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ سلفی داعش کے مندرجہ ذیل نظریہ کے تعاون کا ہی نتیجہ ہے جو مکمل طور پر ان کے اندر سرایت کر چکا ہے؛'صحائف میں خود صحائف کی ہی بات ہوتی ہے۔ان کا کوئی سیاق و سباق نہیں ہوتا ہے اور اسلامی صحیفہ قرآن کو سیاق و سباق کے دائرے میں پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ '
اس ویڈیو میں تنقید کا ایک بڑا حصہ ہندوستانی علماء کے لیےبھی مخصوص ہے۔انہیں اس ویڈیوں میں علمائے سو (جھوٹے یا برے علماء)قرار دیا گیا ہے اور انہیں مسلم عوام کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔داعش کے اس ویڈیوکے مطابق اسلام کی سچی تعلیم یہ ہے کہ اسلام امن کا مذہب نہیں بلکہ جنگ اور قتل و قتال کا مذہب ہے۔لہٰذا، اس ویڈیوں میں ایک عام ہندوستانی عالم کو اس لیے مجرم ٹھہرایاگیا ہے کہ وہ اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ حدیث (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نہاد اقوال) اور قرآن کے حوالے کے ساتھ داعش کے ویڈیو میں ہندوستانی نوجوانوں کو مکمل طور اپنے اس موقف سے مطمئن دکھایا گیا ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ کافر و مشرک کو پائیں اسلام اپنے پیروکاروں کو ان کے خلاف مقدس جنگ چھیڑنےکا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ دین اور عبادت صرف اللہ کی ہی ہو۔جو علماء اس کے خلاف تعلیم دیتے ہیں وہ علماءسوء ہیں، مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
انڈین مجاہدین کے 2008 ء کے ای میل میں ہندوستانی علماء کو بھی تنقیدکا نشانہ بنایا گیا تھا۔ارشد مدنی جیسےعلماء کو ہندوستانی حکومتوں کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کے قتل کے لئے حکومت کی تنقیدمیں اپنی آواز بلند نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ2008 کے ای میل میں انہیں 'جھوٹے' علماء کہا گیا تھا۔داعش کے ویڈیومیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان علماء سے کوئی توقعات نہیں ہیں؛بلکہ ان کی مذمت کی جانی چاہیےکیونکہ اپنے اسلام کےبارے میں ان کی تفہیم بالکل غلط ہے۔ اسلام کبھی بھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے، یہ ہمیشہ سے جنگ و جدال کا مذہب رہا ہے اور جو اس کے برعکس کہتے ہیں وہ مسلمانوں کو گمراہی کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔
کوئی صرف اس بات کی امیدہی کر سکتا ہے کہ اس ویڈیوکا جواب خود مسلم کمیونٹی اوربالخصوص علماء کرام دیں گے۔لیکن اب تک کی ان کی خاموشی سے یہی لگتا ہے کہ شایدان کے پاس کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ داعش اسلام کے بارے میں جو کہہ رہا ہے علماء کا طبقہ خود ان کی صداقت کا قائل ہے؟
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/from-indian-mujahidin-isis-explains/d/107417
URL for this article: