ارشد عالم، نیو ایج اسلام
25 اکتوبر 2021
مذہبی کشیدگی کے اس تسلسل
میں سیاسی دلچسپی معلوم ہوتی ہے
اہم نکات:
1. گڑگاؤں کے کچھ سیکٹرز میں اب باقاعدہ نماز جمعہ کے خلاف احتجاج ہو
رہے ہیں
2. ہندو گروہ الزام لگاتے ہیں کہ مسلمان غیر قانونی جگہوں پر نماز پڑھ
رہے ہیں۔ جبکہ ایسے دعووں کی تصدیق پولیس نہیں کرتی
3. اگر کچھ لوگ کچھ خاص جگہوں پر نماز پڑھ رہے ہیں تو اس میں وزیراعلیٰ
کو کچھ بھی غلط نہیں لگتا لیکن وہ اب تک ویجلنس گروہوں پر کسی بھی کاروائی سے پرہیز
کرتے آئے ہیں
4. مسلمانوں کو حکمت عملی بنانے اور یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا جمعہ
کی جماعت بالکل ضروری ہے؟
-------
Jai
Shri Ram' Slogans Allegedly Raised (Photo: The Quint)
----
گڑگاؤں میں ابھی تناؤ کا ماحول
ہے۔ ہر جمعہ کو جب مسلمان جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، تو انتہاپسند
ہندو جماعت کے لوگ اس جگہ پر جمع ہو کر مسلمانوں کو ان کی نماز ادا کرنے سے روکنے کے
لیے قابل اعتراض نعرے لگاتے ہیں۔ ان ہندو جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے پاس عوامی
جگہ پر نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے جس سے ان کا یہ عمل غیر قانونی ثابت ہوتا ہے۔
ان کا مزید دعویٰ ہے کہ نماز کے بعد مسلمان غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
وہ پولیس پر تعصب برتنے کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ پولیس ان مسلمانوں کو عوامی مقام
پر نماز پڑھنے سے نہیں روکتی۔
پولیس نے اب تک یہی کہا ہے
کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ سال 2018 میں بھی اسی طرح کے نزاع کی اطلاع ملی تھی،
تب ضلعی انتظامیہ اور 'دونوں جماعتیں' (ہندو اور مسلمان) نے مخصوص مقامات پر اتفاق
کیا تھا جہاں مسلمان اپنی نماز جمعہ ادا کر سکتے تھے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں
کو 37 ایسی جگہیں الاٹ کی گئی تھیں اور اس معاملے میں اب تک مسلمانوں نے کوئی خلاف
ورزی نہیں کی ہے۔ کچھ ہندو جماعتوں کے ہفتہ وار احتجاج کے باوجود پولیس مسلمانوں کو
تحفظ فراہم کرتی رہی ہے اور تین سال قبل کیے گئے انتظامی فیصلے کو برقرار رکھتی رہی
ہے۔ زیادہ تر مظاہرے سیکٹر 47 اور 12 میں ہوئے ہیں، لیکن پولیس نے مسلسل یہی کہا ہے
کہ ان دونوں سیکٹرز میں مسلمان مقرر جگہوں پر ہی نماز ادا کر رہے ہیں اور یہ کوئی غیر
قانونی کام نہیں ہے۔
گڑگاؤں دہلی سے ملحقہ ایک
پوش میٹروپولیٹن علاقہ ہے جہاں توقع تھی کہ چمکدار بازار مذہب اور ذات پات کے فرق کو
ختم کردیں گے۔ اس نئے شہر کی منصوبہ بندی میں، اس کے معماروں نے نہ صرف یہ کہ پیدل
چلنے والے راستے بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی (کیونکہ کہ ہر ایک کے پاس کاریں ہوں
گی) بلکہ وہ اس علاقے کے نئے باشندوں کے لیے مناسب مذہبی عبادت گاہوں کی منصوبہ بندی
کرنے میں بھی ناکام رہے۔ اور وہاں رہائشی نہ صرف وہ لوگ ہیں جو اونچی اونچی عمارتوں
میں رہتے ہیں جو نیچے زمین پر کیا ہو رہا ہے اس سے غافل ہیں، بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جو
نوکریوں کی تلاش میں اس نئے شہر کی طرف آتے ہیں اور اونچے اونچے گھروں میں رہنے والوں
کی خدمت کرتے ہیں۔ گڑگاؤں میں تقریبا 4 4 لاکھ مسلمان رہتے ہیں جن میں سے بیشتر ملازمت
پیشہ افراد ہیں۔ لیکن اتنی بڑی آبادی کے لیے صرف 22 مساجد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان
متبادل جگہیں تلاش کرتے ہیں۔ اور یہی ان کے لئے ایک بحران کی وجہ بن جاتا ہے کیونکہ
جمعہ کے دن دوپہر والی نماز کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا ضروری مانا جاتا ہے۔ تعداد کے
اعتبار سے وہاں بڑی مساجد نہیں ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام ہندوؤں
کو مسلمانوں کی نماز سے پریشانی ہے۔ درحقیقت، صرف مٹھی بھر ہندو ہی نماز کے خلاف احتجاج
کرنے کے لیے مختلف مقامات پر جمع ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ہندوؤں کی اکثریت کو
اس بات سے کوئی پریشانی نہیں ہے کہ ان کے نام پر اس طرح ماحول خراب کیا جا رہا ہے،
انہیں اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ ورنہ ہم دیکھتے کہ وہ ہندو افراد جو یہ مانتے ہیں
کہ تمام مذاہب کو ملک میں آزادانہ طور پر اپنے مذہبی معمولات کے اظہار کی گنجائش ہونی
چاہیے، ضرور ان کا رد کرتے۔ اس طرح کے کسی بھی احتجاج میں 300 سے زیادہ ہندو نہیں ہوتے،
اور ان میں سے بیشتر بجرنگ دل وغیرہ جیسی انتہاپسند تنظیموں کے افراد ہوتے ہیں۔
جو دلیل ہندو جماعت پیش کر
رہی ہے اس کی بنیاد کوئی مضبوط نہیں ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ جس علاقے میں مسلمان نماز
پڑھ رہے ہیں اسے انتظامیہ نے الاٹ نہیں کیا ہے، جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ پولیس مسلمانوں
کی دلیل کی تصدیق کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی سوچنا ہے کہ مسلمان اپنی مساجد کے اندر نماز
کیوں نہیں پڑھ سکتے اور انہیں عوامی جگہ پر ایسا کیوں کرنا چاہیے؟ اس کا سادہ جواب
یہ ہے کہ اتنی بڑی مساجد نہیں ہیں جن میں اتنی بڑی جماعت کی جا سکے۔ لیکن ایک ایسی
برادری کی جانب سے ایسی باتیں عجیب معلوم ہوتی ہیں جن کے زیادہ تر تہواروں میں سرکاری
اور نجی کے درمیان کا فرق تقریبا غائب رہتا ہے۔ درحقیقت، ہندوستان کی بیشتر مذہبی برادریاں
اپنی مذہبیت کو عوامی طور پر ظاہر کرنے پر زور دیتی ہیں اور مسلمان اس اصول سے مستثنیٰ
نہیں ہیں۔ یہ دعویٰ کہ مسلمان اپنی نماز کے بعد غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں
اس کی بھی کوئی تجرباتی بنیاد نہیں ہے کیونکہ ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے جو اسے ثابت کر
سکے۔ یہ بھی واضح طور پر اسی جھوٹے الزام کی طرح ہے کہ مسلمان اپنی نماز کے بعد 'پاکستان
زندہ باد' کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔
یہ معاملہ واضح طور پر سیاسی
ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہندو فرقہ پرست تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ حکمران جماعت
کے ارکان بھی ہیں۔ لیکن ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بالکل واضح الفاظ میں
کہا ہے کہ اگر مسلمان ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مخصوص کئے گئے جگہوں پر نماز پڑھ رہے
ہیں تو انہیں ان کی نماز میں پریشان نہیں کیا جانا چاہیے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ان کی
نظریاتی برادری ان کی بات نہیں سنتی۔ اور جو لوگ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،
وزیراعلیٰ ان کو گرفتار کیوں نہیں کرتے؟ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سیاسی طبقہ اس مذہبی
کشیدگی کو برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کشیدگی سے پڑوسی ریاست اتر پردیش میں
ہونے والے آئندہ انتخابات میں انہیں ضرور کوئی مدعا حاصل ہوگا۔
مسلمانوں کو اس سیاسی کھیل
کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے اس اصرار پر موجودہ دور کے حقائق کی روشنی میں نظر
ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ جمعہ کی نماز اجتماعی طور پر ہی ادا کی جانی چاہیے۔ ایک وقت
تھا جب نماز جمعہ سے سیاسی مقاصد حاصل کئے جاتے تھے۔ کبھی کبھی اس کے ذریعہ اجتماعی
طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جاتا تھا۔ بعض اوقات، اسلامی حکومتوں نے اسے اپنے جواز اور
اختیارات کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ اب بھی، عرب ممالک میں جمعہ کے خطبوں
پر ریاست کا سخت کنٹرول ہوتا ہے، امام کو صرف وہی کہنے کی اجازت ہوتی ہے جو حکمران
ان سے کہلوانا چاہتے ہیں۔ یہ حالات ہندوستان میں نہیں ہیں اس لیے جمعہ کی جماعت پر
اصرار کرنا زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ اسے صرف ماضی کے آثار کے طور پر جاری رکھا جا رہا
ہے۔
مزید یہ کہ پہلے زمانے میں
جمعہ کی جماعت ایک ایسا موقعہ ہوا کرتی تھی جس کے ذریعے اہم فیصلے لوگوں تک پہنچائے
جاتے تھے۔ آج کے جمعہ کے خطبات اس طرح کے نہیں ہیں، ان میں کوئی سیاسی بحث نہیں ہوتی؛
بلکہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے قصے ہی بیان کیے جاتے ہیں۔ آج
اگر کسی اہم چیز کو مسلمانوں تک پہنچانے کی ضرورت ہو تو اسے جدید میڈیا کے ذریعے فوری
طور پر انجام دیا جا سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ ہر جمعہ کی نماز کے لئے جماعت کا اہتمام
کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کے اصرار کا مطلب صرف یہ ہوگا کہ مسلمان اب بھی عوام
میں اپنے عقیدے کا مظاہرہ کرنے کے سیاسی خیال سے جڑے ہوئے ہیں۔
ایک طویل عرصے سے مسلمان بڑے
پیمانے پر ہندو یا مسلم عوام کے خدشات کی پروا کیے بغیر اپنی جماعت جمعہ ادا کرنے کے
لیے شاہراہوں کو جام کرتے رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ لوگوں کی سوچ بہتر ہو رہی ہے
اور عوامی سطح پر مذہبیت کے ایسے مناظر اب اتنے عام نہیں ہیں۔
لوگوں کی سوچ بہتر ہونی چاہیے
اور مسلمانوں کو حکمت عملی کے ساتھ ایسی جگہوں سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور ان پہلوؤں
پر توجہ دینی چاہیے جس سے برادری مضبوط اور مستحکم ہو، مثلا جدید تعلیم اور اچھی ملازمتیں
حاصل کی جائیں۔
English Article: Friday Namaz in Gurgaon: Why Muslims Need to be
Pragmatic
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism