New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 09:51 AM

Urdu Section ( 11 May 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Banish the Law of Blasphemy; It is Crippling the Muslim World توہین رسالت کو ختم کیجیے، یہ مسلم دنیا کو مفلوج بنا رہا ہے

ارشد عالم ، نیو ایج اسلام

8 مئی 2021

حال ہی میں الجزائر کے ایک پروفیسر سعید جاب الخیرکو قانون توہین کے تحت تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کا ‘جرم’ یہ تھا کہ انہوں نے صرف اسی بات کو لکھا تھا جس کو انہوں نے سچ سمجھا تھا۔

اہم نکات :

پروفیسر سعید شمالی افریقہ میں علم  تصوف پر ایک معروف و مستند شخصیت  ہیں اور اپنی تصانیف کے ذریعہ وہ اس خطے میں سلفیوں کی زیادتیوں کے خلاف خبردار کرتے  رہے ہیں۔

انہوں نے قرآن کی لغوی تفہیم کے خلاف لکھا ہے اور مسلمانوں سے تاریخ اور افسانہ کے مابین فرق کرنے کو کہا ہے ۔

قانون توہین کی سیاست کسی بھی طرح خدا کی خدمت نہیں کرتی بلکہ قدامت پسند قرون وسطی کے نظریات کو برقرار رکھنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ یہی وہ قدامت پسندی ہے جسے دنیا  بھر میں پروفیسر سعید اور ان جیسے بہت سے دوسرے لوگوں نے چیلنج کیا ہے۔

 ناموس اسلام  بچانے کی لبادے  میں قدامت پسند لوگ  مسلمانوں کو  ان کی اپنی صلاحیتوں سے محروم کر رہے ہیں۔

-----

الجزائر کے ایک ماہر تعلیم اور سرگرم کارکن  سعید جاب الخیر   کو  توہین رسالت کے الزام میں پائے جانے پر تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ الجیریا میں توہین رسالت جرم ہے جس پر پانچ سال تک قید اور بھاری جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔توہین چاہے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہو یا باقی دوسرے انبیا کی ہو  یا اسلام کے بنیادی عقائد کی اہانت ہو، اب چاہے یہ  توہین تحریر، تصویر، تقریر یا کسی بھی شکل میں ہو  بہر حال توہین ( یعنی blasphemy) کی اصطلاح کے تحت داخل ہیں۔  کوئی بھی شخص  اس بات کا مشاہدہ کر  سکتا ہے کہ اصطلاح ‘توہین’ کی تعریف کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اسلام  کے متعلق کسی بھی شکل کی تفتیش  کو توہین مذہب کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ در حقیقت ، الجیریا میں ، لوگوں پر توہین مذہب کا الزام صرف اس وجہ سے لگایا گیا ہے کہ وہ رمضان میں کارڈ (تاش) کھیل رہے تھے یا اس کی ایک مثال  یوں پیش کی جا سکتی ہے کہ  ایک  شخص نے بلا قصد غلطی سے  قرآن کو پانی کی ایک بالٹی میں گرادیا تھا، لہذا اس نے توہین کا ارتکاب کر دیا ہے !

لیکن سعید جاب الخیر  کے  ’جرائم‘  بنیادی ہیں۔ سعید شمالی افریقہ میں قائم  صوفی روایات پر ایک معروف  و مستند شخصیت  ہے اور اپنے اس میدان  میں انہیں نے وسیع پیمانے پر کافی کچھ لکھا ہے۔ اپنی  تحریروں کے ذریعے  وہ سلفیوں کی زیادتیوں کے خلاف خبردار کرتے  رہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ  سلفیوں نے اپنی انہیں زیادتیوں کی وجہ سے الجیریا پر قبضہ کر لیا ہے ۔تاہم ان کی پریشانی سلفیت اور دہشت گردی کے مابین تعلقات کے بارے میں نہیں ہے۔ اس کے برعکس ان  کا استدلال تھا  کہ سلفیوں کی اکثریت خاموش ہے۔ جو بات انہیں فکر مند بناتی ہے وہ ہے سلفیت کا معاشرتی اثر: بڑھتی  قدامت پسندی اور قرآن کی لغوی تفہیم پر انحصار ۔

سعید  قرآن کی ایسی لغوی تفہیم کے خلاف لکھتے اور بولتے رہے ہیں جو ان کے مطابق مسلمانوں اور ان کے مشکل مسائل و حالات میں معاون نہیں ہے ۔ انہوں نے قرآن اور اسلام کی انسانی  درس اور اسی وجہ سے دونوں کی تاریخ سازی کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے انہوں نے  مشورہ دیا کہ قرآن کے کچھ حصے ، مثلا  حضرت  نوح علیہ السلام کی  کشتی کی کہانی پر مشتمل واقعہ،   کو لفظی حقائق  کے طور پر نہیں لیا جانا چاہئے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تاریخ اور افسانہ کے مابین فرق کرنے کی تاکید کی۔ ان کا یہ دعوی تھا کہ حج اور اس سے وابستہ جانوروں کی قربانی جیسی اسلامی رسومات کی جڑیں اسلام سے پہلے کے عرب ممالک میں پائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ  وہ  کم عمر کی  لڑکیوں سے شادی کرنے کے رواج پر سخت تنقید کرتے تھے اور انہوں نے اپیل کی تھی کہ مسلمان اس  رواج کو ختم کردیں۔

اگر کوئی سنجیدہ معاشرہ ہوتا تو  پہلے دانشور طبقے میں پھر عوامی سطح پر  ان نکات پر بحث  کرکے ان  کا حل نکالا جا تا ۔ لیکن ایسی صورت حال  ان مسلم ممالک میں  نہیں ہے جہاں توہین رسالت کے قوانین موجود ہیں۔ الجزائر میں پروفیسر سعید  کے خلاف  کیس  میں حیران کن بات یہ ہے  کہ انھیں عدالت کی دہلیز  تک ایک تعلیم یافتہ ساتھی لائے تھے۔ جج نے  متفقہ طور پر  تین سال کی سزا سنا دی۔ اگرچہ سعید  ضمانت پر باہر آگئے  اور  ‘‘اپنے ضمیر کی آواز نکالنے’’ کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے ، تاہم ان کی زندگی کو  واضح طور خطرات کا سامنا ہے   کیونکہ انہیں متعدد جان لیوا دھمکیاں مل رہی ہیں۔ بہت سارے مسلمان سمجھتے ہیں کہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے  کا قتل فرض ہے اور اس سے انہیں جنت میں جگہ مل جائے گی۔ آنے والے دنوں میں پروفیسر کو نہ صرف عدالتوں  بلکہ بڑے معاشرے سے بھی لڑنا ہوگا جو اب ان کی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کیا سعید کی بات  میں کوئی غلطی ہے ؟ بہت سارے مسلمانوں کے عقیدے  کے برعکس، اسلام باطل سے ظاہر نہیں ہوا تھا ۔ حج اور جانوروں کی قربانی اسلام سے پہلے کے ادوار میں بھی رائج تھیں جیساکہ  مورخین نے قلمبند کیا ہے اور یقینا اس بات پر بحث کرنا کوئی جرم نہیں  ہے کہ اسلام نے ان روایات میں سے کچھ کو مختص کیا اور اسے ایک نیا نام اور مقصد دیا۔ تاریخ دانوں نے یہاں تک استدلال کیا ہے کہ ماہِ روزہ اور عید کے ساتھ اس کا اختتام بھی ایک روایت ہے جو اسلام سے پہلے رائج تھی ۔

یہ استدلال کرنا کس طرح دشواری کا باعث ہے کہ مسلم دنیا کے بہت سارے حصوں میں  بلوغت سے قبل  لڑکیوں سے شادی کرنے کا رواج روکا جائے؟ ایک وقت تھا جب تمام مذہبی برادریوں میں اس طرح کی شادیاں عام تھیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ، دوسری جماعتیں جدیدیت کے تقاضوں کے مطابق اپنی مذہبی رواداری لانے میں کامیاب ہوگئیں۔ مسلمانوں کے لئے ایسا کرنا کیوں مشکل ہے؟

ایک مسئلہ  یہ ہے کہ قرآن مجید اس طرح کی شادیوں کی اجازت دیتا ہے ۔ مزید بر آں کہ یہ مسئلہ صرف قرآن مجید تک  مخصوص نہیں ہے بلکہ  تقریبا تمام مذہبی نصوص میں اس طرح کا جواز  پایا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جماعتیں آگے بڑھ گئیں۔ وہ اپنی مقدس نصوص کو خدائے کلام کی آسمانی بات نہیں سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ پریشانی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو الوہیت کا درجہ دیا  ہے اور بعض اوقات متن کو خدا کا غیر مخلوق  کلام قرار دیتے ہیں۔ لہذا ایک مسلمان کے لئے قرآن مجید میں لکھی گئی چیزوں کے خلاف جانا تقریبا ناممکن ہے اور اس لحاظ سے مسلمانوں کی اکثریت لفظی تفہیم کا رجحان رکھتی  ہے۔ جب تک کہ مسلمانوں اور قرآن کے مابین اس عجیب و غریب تعلقات  پر از سر نو کام نہیں  کر لیا  جاتا ہے ، تب تک وہ توہین رسالت جیسے اینٹی لیوین خیالات پر یقین کرتے رہیں گے۔

عام طور پر  توہین رسالت کو خدا   کی توہین سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پھر  ہم جانتے ہیں کہ ایسے تمام معاملات میں ، خدا کبھی بھی عدالت میں فریق نہیں ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے خدا کی قدرت کو اپنے پاس رکھ لیا  ہے۔ وہ عدالتوں میں اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خدا کی نمائندگی کرنے سے زیادہ کوئی بھی گستاخانہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس مسئلے کو دور کرنے کے لئے ، مسلمانوں نے توہین  کی تعریف کو اس قدر کو وسیع بنایا ہے کہ یہ انبیاء کرام کی توہین اور یہاں تک کہ مذہب سے وابستہ رسومات کی توہین کو بھی اسی زمرے میں شامل سمجھتے ہیں۔ لہذا  توہین کے مسئلے  میں جو خیال وہ پوری طرح سیاسی ہے اور ایسا اس لیے نہیں کہ خدا  ایسا چاہتا ہے لیکن محض اس لئے کہ مسلم معاشرے کے طاقتور لوگ پرانے خیالات پر اپنا تسلط باقی رکھنا چاہتے ہیں۔  یہی وہ قدامت پسندی ہے  جس کو پروفیسر سعید اوران جیسے دنیا بھر میں   بہت سارے دیگر لوگوں سے خطرہ ہے ۔لہذا ایسے لوگوں کو سزا دی جا رہی ہے کیونکہ وہ سسٹم کو بدلنا چاہتے ہیں ، انہیں سزا دی جا رہی ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی ہمت ہے ۔

کسی مسلم اسکالر کا تصور کیجیے جو اپنی تحقیق کے ذریعے  اس نتیجے تک پہنچے جہاں  پروفیسر سعید پہنچے ۔ اب ایک محققہ کی حیثیت سے ، وہ اپنی تحقیقات کو شائع کرنے اور پھیلانے کی پابند ہیں۔ لیکن جب وہ ایسا کرتی ہے  تو  وہ گہری پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی کیونکہ کوئی بھی اس پر توہین رسالت کا الزام لگا سکتا ہے۔ وہ کیا کرے؟ کیا اسے اپنی تحقیق کے ماحصل اور اختتام کو بدل کر  اسلامی روایت پسندی کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق بنایا جائے  اور اس عمل میں غیر دیانتدار  ہوجائے؟ شاید اس کے لئے یہی ایک  راستہ  ہے کیونکہ  دوسرے راستے میں ایسے خطرات ہیں جن پر  بہت سے لوگ  چلنا نہیں چاہیں گے ۔ لہذا اب اس بات میں حیرت نہیں ہوتی ہے کہ مسلم دنیا تحقیق کے کسی  میدان  شاید ہی جانے جائیں۔ وہ مسلمان  جنہوں نے بنیادی شراکت کی ہے ، وہ توہین کے الزام کی وجہ سے  مسلم دنیا کے باہر ہیں۔

اسلام کو اپنے آپ پر فخر ہے  کیونکہ  وہ مسلمانوں کو دیانتداری  اور سچائی کا درس دیتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے اس کے جو الٹ ہے وہ    سچ ہے۔ اس وقت تک جب تک توہین رسالت کے  قوانین ہیں،  سچائی ، دیانت اور اصلیت کو بدستور  ایک پیسٹری کی جگہ سے تبدیل کیا جاتا رہے گا ۔ اللہ کی عزت کو بچانے کے نام پر  راسخ العقیدہ اور قدامت پسند حضرات  اپنے عقیدت مندوں کو اپنی پوری صلاحیت سے لوٹ رہے ہیں۔

ارشد عالم نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار ہیں

----

URL for English article:  https://newageislam.com/islamic-society/blasphemy-law-muslim-world/d/124804

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/banish-law-blasphemy-crippling-muslim/d/124819

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..