ارشد عالم، نیو ایج اسلام
18 فروری 2017
سہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش حملے سےپاکستان کو بالکل ہی حیرتزدہ نہیں ہونا چاہئے۔اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ ان صوفی مزارات پرسلفی دہشت گردوں کے لیے حملے کرنا جائز ہے جن پر حاضری کو وہ اسلام کے خلاف مانتے ہیں۔اور اسی بنیاد پران مزاروں پر حاضری دینے والوں کو قتل کرنا اسلام کے بارے میں مختلف نظریہ رکھنے والے مسلمانوں کے تعلق سے دہائیوں تک نفرت پروری کا ایک محض منطقی نتیجہ ہے۔ اسی طرح کے حملے بلوچستان میں شاہ نورانی کے مزار پر اور لاہور کے قریب داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار پر بھی انجام دئے گئے ہیں۔ ان تمام حملوں میں یہی ایک عام وضاحت مشترک تھی کہان مزاراتِ اولیاء پر حاضری دینے اور یہاں آکر دعا کرنے والے لوگ شرک میں ملوث تھے اسی لیے وہ قتل کیے جانے کے حقدار تھے۔نیز ان تمام بم دھماکوں میں عورتوں اور بچوں کا قتل عام بھی مشترک تھا لیکن اسلام کو خالص کرنےکی اس جنگ میں ان کے قتل کو شاید نادانستہ نقصان پر محمول کیا جائے گا۔بہر کیف، اگر دہشت گرد اسکول کے بچوں کو اس طرح قتل کر سکتے ہیں اور حدیث کی مدد سے اس کا جواز پیش کرسکتےہیں تو پھریہی کہا جا سکتاہے کہ خود اسلام کے اندر ہی کوئی نہ کوئی خرابی اپنی جڑیں مضبوط کرتے جا رہی ہے۔
ایک لمحہ گنوائے بغیر ہی پاکستانی ٹیلی ویژن اور دیگرمقامات پر تبصرہ نگار وں نے اس کا الزام افغانستان میں موجود دہشت گردوں پر ڈال دیا جبکہ کچھ لوگوں نے اس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیاکہ مسلمان راہ حق و ہدایت سے بھٹک چکے ہیں۔اب تک شاید ہی ایسا کوئی تجزیہ کیا گیا ہو جو ہمیں اپنے داخلی امور پر توجہ دینے اور اس بات کا گہرائی کے ساتھ احتساب لینے پر آمادہ کرتا ہو کہ ہمارے اندر ایسی کون سی غلط بات پیدا ہو گئی ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور خود پاکستان کے اندر پیدا ہونے والے دہشت گردوں کے بارے میں ہمارا کیا موقف ہے۔یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خود پاکستان دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور محض سیکورٹی کی تنگ عینک سے اس مسئلے کو دیکھتا ہے۔ اچھا اور برا کوئی دہشتگرد نہیں ہوتا۔ اسٹریٹجک مفادات کے تحت دہشت گردوں کو پناہ دینا بالآخر خود پاکستان کے لیےنقصاندہ ہوگا، جیسا کہ حالیہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے۔یہ مسئلہ مزید گہرا ہے۔ اور اس کا تعلق اسلام کے معتقدات و معمولات سے ہے۔
جب سلمان تاثیر کے قاتل کا مزار بنایا جا سکتا ہے اور ہزاروں لوگ اس 'شہید' کے مزار پر روزانہ حاضری دیتے ہیں تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ آج مسلم معاشرے میں کوئی بہت بڑی بیماری پیدا ہو چکی ہے۔ معاملات اس وقت بدتر ہو جاتے ہیں جب اس طرح کے مزارات کی ضرورت کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہوتی ہے۔پاکستانی معاشرے کے اندر تقریباً اس بات پر اتفاق رائے قائم ہو چکی ہے کہ سلمان تاثیرکا قاتل ایک عظیم عاشق رسول تھا لہٰذا، اس کی یادگار کا احترام کیا جانا چاہئے۔اور یہی تصور اس مسئلے کی جڑ ہے۔ایک قاتل اسلام میں کس طرح معزز و مکرم بن سکتا ہے؟ اور یہ کیسےہو سکتا ہے کہ پاکستان سہون میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے دہشت گردوں کی مذمت کرے لیکن ایک مسلمان یعنی سلمان تاثیر کے قاتل پر خاموش رہے؟ یقینی طور پر یہ صرف حکومت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ اجتماعی طور پر مسلمانوں کا ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں مسلم معاشرے کے اندر بڑے پیمانے پر عدم برداشت اور نفرت پائی جاتی ہے۔وہاں شیعہ اور سنی اور حتی کہ خود سنیوں کے درمیان زبردست دشمنی ہے، مسلمان اسلام کی دیگر تشریحات کو گوارہ نہیں کرتے۔لہٰذا، سلفیوںکو بریلویوں کے ساتھ زبردست پریشانی ہے جس کا جواب وہ اسی توانائی کے ساتھ دیتے ہیں۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہزاروں دیوبندی مدارس کے اندر نوجوان ذہنوں میں یہ زہر گھولا جا رہا ہے کہ بریلوی اسلام کے دشمن ہیں اور کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ بریلوی مدارس کے اندر نوجوانوں کو دیوبندیوں سےنفرت کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ سلفی مدارس میں مزارات پر حاضری کو قبر پرستی کے مترادف نہیں قرار دیا جاتا اور اسی بنیاد پر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی اکثریت کو ممکنہ طور پر مشرک نہیں مانا جاتا؟ اور اسلامی ادب کے نام پراسی نفرت فروشی کا کارو بار سستی مطبوعات اور ٹیلی ویژن پر خطبات کے ذریعے جا ری ہے۔ہمارے اپنے گھروں میں، ہمارے اسکولوں میں اور ہمارے پڑوس میں جو کچھ ہو رہا ہے اسی کا براہ راست نتیجہ مزارات پر بمباری ہے۔خود اپنے بارے میں ایسے سخت سوالات اٹھائے بغیر کہ مختلف مسالک کے بارے میں ہماری نفرت انگیزی روزمرہ کی گفتگو میں ایک نیا معمول اختیار چکی ہے،اس قسم کی بربریت کے محرکات اور اسباب و علل پر کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں کی جا سکتی۔
نفرت اور عدم روادری کے خلاف جنگ ہمیشہ نظریاتی تھی اور اب بھی اس کا یہی حال ہے۔اس بات پر خوشی منانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ سہون دھماکہ کے بعدایک انتقامی کارروائی کے طور پر پاکستانی حکومت نے تقریبا سو 'دہشت گردوں' کو ہلاک کیا ہے۔بلکہ اس نام نہاد ’سخت ریاست‘ سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ان دہشت گردوں کی نشاندہی کے لیے انہوں نے کیا طریقہ کار اختیار کیا ہے، یا یہ اپنےکچھ آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے قتل عام کا ایک اور واقعہ تھا۔ ریاست ایک قاتلانہ ٹھگ نہیں بن سکتی اور کسی بھی مناسب کاروائی کے بغیر'انصاف' کا کوئی بھی مرحلہ طےنہیں کیا جانا چاہئے۔بہتر ہو گا کہ پاکستان دشمنوں کے نام اجاگر کرے اور عوامی سطح پر یہ بیان دے کہ اسلامی تعلیمات میں کچھ غلطی ہوئی ہے اور اسلام کے نام پر ہم جو کر رہے ہیں اس پر نظر ثانی کرنے اور اور ان کا فوری احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔تبھی جا کر ہم شایداس مہلک تبدیلی کو کماحقہ سمجھ سکیں گے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات میں پیدا ہوئی ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-sectarianism/attack-qalandar-shrine-muslims-themselves/d/110114
URL: https://newageislam.com/urdu-section/attack-qalandar-shrine-/d/110129
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism