ارشد عالم، نیو ایج اسلام
1 ستمبر 2016
اسلامی مساوات کے نعرہ کے باوجودذات پات کے نظام کو ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بڑی اہمیت حاصل ہے۔ شادی کے کالم پر صرف ایک نظر ڈالنے سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ذات اور برادری کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، چھوٹی ذات کے مسلمانوں کی تحریکیں تیزی کے ساتھ بہار اور اتر پردیش کے کچھ حصوں میں ایک اہم سیاسی کردار ادا کر رہی ہیں۔
یہ بات بڑی عام ہے کہ مسلمانوں کی تقسیم دو طبقوں میں ہے ایک طبقہ اشرف (اعلی ذات) کا ہے اور دوسرا طبقہ اجلف(چھوٹی ذات) کا ہے اور یہ کہ مرکز یا مختلف ریاستوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت پچھڑی جاتیوں کی فہرست میں آتی ہے۔لیکن شایدیہ بات مشہور نہیں ہے کہ اب کچھ مسلمان خود کو دلِت (سابق اچھوت) کہہ رہے اور وہ انہیں فوائد اور سہولیات کا مطالبہ کر رہے ہیں جو (Scheduled Castes) یعنی چھوٹی جاتیوں کو حاصل ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ دلت مسلمان کون ہیں اور کیا اچھوت کا نظام مسلم معاشرے میں موجود ہے؟
دلت مسلمان سابق اچھوت برادریوں سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کر لیاہے۔وہ تیسرے درجے کے مسلمان ہیں جنہیں ارذل کہا جاتا ہے جو کہ ایک عربی لفظ ہے (اور اس کا معنی بے کار ہونا ہے)اور اسےمسلم معاشرےکا سب سے نچلا طبقہ مانا جاتا ہے۔ نچلی ذات اجلاف سے تعلق رکھنے والے بھی انہیں ناپاک تصور کرتے ہیں۔اس ذات سے تعلق رکھنے والے چند طبقات اس طرح ہیں: لال بیگی (بھنگی) ، ڈفلی (ڈھول ساز)، حواری (جاروب کش)، دھوبی، حلق خور، گڈھیری، باکھو، مجھوارا، نعل بند، بھٹھیارہ، گورکن وغیرہ۔
ان کی برادری کے نام سے یہ بات واضح ہےان مسلم طبقات کو بنیادی طور پر ان کے 'ناپاک'پیشے کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ ان طبقات میں سے کچھ مثلاًباکھو اور نٹ کی تو اپنی ایک مستقل رہائش گاہ بھی نہیں ہوتی ہے۔ایسی بات نہیں ہے کہ یہ مسلم طبقات حالیہ دنوں کی پیداوار ہیں۔در اصل، 1911 اور 1931 کی مردم شماری میں ایسے ہی پیشہ اور سماجی حیثیت رکھنے والے اور بھی بہت سارے مسلم طبقات کو سابق اچھوت ہندوقرار دیا گیا ہے۔ ان مسلم طبقات پر شاید ہی کوئی مطالعہ کبھی کیا گیا ہوگا۔ ان کے بارے میں جو کچھ بھی تھوڑا لوگوں کو معلوم ہے اس سے یہ امر واضح ہے کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان سماجی اور تعلیمی اعتبار سے سب سے بدترین طبقہ ہے۔
مسلم طبقات میں مسلم بھائی چارے کے پرزور نعروں کے باوجود اس نچلے طبقے کے مسلمان مسلم علاقوں کے باہر رہنے پر مجبور ہیں اور ان کے ساتھ سماجی رابطے بہت کم ہیں۔ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ ان مسلم برادریوں کی مسجدیں بھی الگ ہیں۔ بہت سے معاملات ایسے بھی پیش آئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نچلی ذات والے مرنے کے بعد بھی اپنی شناخت اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اس لیے کہ انہیں اونچی ذات والے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
موجودہ وقت میں ان مسلم طبقات کواو بی سی کے فوائد اور سہولیات حاصل ہیں۔ لیکن اپنی انتہائی پست اور بری سماجی اور تعلیمی صورت حال کی وجہ سے وہ بمشکل ہی یادَویاانصاریوں جیسے دیگر پچھڑے طبقات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ طبقات غربت کی وجہ سے اپنی زندگی کے حالات بہتر کرنے کے لئے اپنے وسائل کا بھی استعمال نہیں کر سکتے۔انہیں قومی دھارے میں لانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ انہیں (Scheduled Caste) شیڈیولڈ کاسٹ کا درجہ دیا جائے۔صرف یہی ایک ایسا اقدام ہے جس سے ان کے علاقوں میں اسکولوں کی موجودگی اور ان دیگر فوائد کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے جو شیڈیولڈ کاشٹس (Scheduled Castes) کو دستیاب ہیں۔
اس نظریہ کے مخالفین ہندو اور مسلمان دونوں یہ دلیل دیتے ہیں کہ چوں کہ اسلام میں اچھوت کا کوئی تصور نہیں ہے لہٰذا، دلت مسلمانوں کی درجہ بندی کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔اس مستشرقی دلیل میں مذہبی کتاب کو اس سماجی سیاق و سباق پر فوقیت دی گئی جس پر ہندوستان میں اسلام کی جڑیں ہیں۔ تاریخی اعتبار سے ہندوستان میں اسلام نے اپنے اندر ذات پات کے نظام کو جگہ دی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سابق اچھوت طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو انہیں اسلام میں بھی امتیازی سلوک کا خاتمہ نظر نہیں آیا۔
اس کے علاوہ بدھ مت اور سکھ مت میں بھی اچھوت کا کوئی تصور نہیں ہے، لیکن ان مذاہب کو قبول کرنے والے دلتوں کوشیڈیولڈ کاسٹ(Scheduled Castes)کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ ہندوستان کی حکومت ان مذاہب کو 'ہندی' اور اسلام اور عیسائیت جیسے مذاہب کو'غیر ہندی' مانتی ہے، ذات پات کے حوالے سے اسلامی علماء کی مذہبی تشریح بھی پریشانی کا باعث ہے۔ "ہندی ادیان" کا تصور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہندو مت، جین مت، بدھ مت اور سکھ مت ایک ہی مٹی میں جنم لینے والے مذاہب ہیں اسی لیےدلتوں کا انہیں مذہبی کمیونٹیزمیں سے کسی ایک میں ہونا ضروری ہے۔ اسلام اور عیسائیت کا معاملہ مختلف ہے۔ان مذاہب نے ہندوستان کی سرزمین پر جنم نہیں لیا ہےاسی وجہ سے ان مذاہب کےدلتوں کو ان فوائد اور سہولیات سے محروم کر دیا گیا ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔
اس حقیقت نے مسئلہ کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے کہ مسلم اشرافیہ نے اپنے درمیان مسلم معاشرے کے اس طبقے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن یہ سراسر منافقت ہے: درحقیقت علماء نے قرآن و حدیث کی غلط ترجمانی کر کے بہت پہلے ہی اس طبقاتی نظام کا جواز فراہم کر دیا تھا۔ اشرف علی تھانوی نے اپنی ایک تحریر میں یہ لکھ کر ذات پات پر مبنی نظام کو جواز فراہم کیا ہے کہ پیدائش کی بنیاد پر طبقاتی نظام اسلام کا ایک جزو لاینفک ہے۔ہندوستان کےتناظر میں اس کا مطلب ذات پات کی بنیاد پر تفریق اور امتیازی رویہ کودرست قرار دینا ہے۔ان سب باتوں کا مقصد یہ ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے مذہبی جواز کے باوجود جب دلت مسلمانوں کو شیڈیولڈ کاسٹ (Scheduled Caste) کے دائرے میں لانے کی بات آتی ہے تو پالیسی ساز اس کا کوئی دوسرا طریقہ تلاش کرتے ہیں۔
دلت مسلمانوں کوشیڈیول کاسٹ (Scheduled Caste)کا درجہ دینے سے محروم کرنا مذہب کے نام پر امتیازی سلوک برتنے کے مترادف ہے۔جبکہ چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو شیڈیول کاسٹ (Scheduled Caste) میں شامل کرنے میں کوئی آئینی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔اور اس کے لیے صرف1950 کے صدارتی حکم کو منسوخ کرنے کی ضرورت ہے۔ہندوستانی آئین نے تاریخی طور پر مظلوم اور پسماندہ طبقے کی ضروریات کے تئیں ایک حساس موقف اختیار کیا ہے۔ہندوستان نےضرورت مندوں اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے امتیازی سلوک سے حفاظت کے لیے مختلف اقدامات پر عمل درآمدکر کےمختلف پالیسیوں کے ذریعےجزوی طور پر اس آئینی روح کو تسلیم کیا ہے۔اب وقت آچکا ہے کہ وہ دلت مسلمانوں کی پسماندگی کو تسلیم کریں اور انہیں شیڈیول کاسٹ (Scheduled Caste)کا درجہ عطا کر دیں۔ اس طرح کے اقدام سے صرف ریاست ہند کی سیکولرساخت کو مضبوطی ملے گی۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/a-case-dalit-muslims/d/108434
URL for this article: