New Age Islam
Mon May 12 2025, 01:32 PM

Urdu Section ( 18 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Welcome Arrival of Leftist Politics to the World دنیا میں بائیں بازو کی سیاست کی خوش آئند آمد

حسن کمال

17جولائی،2024

گزشتہ دس برسوں  میں  دنیا کا حال یہ تھا کہ جتنے بھی ملکوں  میں  انتخابات ہوتے تھے ان کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایسی پارٹیاں  اقتدار میں  آتی تھیں  جن کا سیاسی رجحان رجعت پسندی کی طرف ہوتا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا آغاز ہندوستان ہی سے ہوا تھا۔ نریندر مودی کی انتخابی فتح سے ہی یہ معلوم ہو گیا تھا کہ اس سرکار کا سیاسی رجحان بھی رجعت پسندی کی طرف ہی ہوگا، یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مکیش امبانی اور اڈانی جیسے لوگ دنیا کے امیر ترین لوگوں  کی فہرست میں  شامل ہوگئے۔ ایسا نہیں  ہےکہ یہ لوگ اس سے پہلے بھی مالدار نہیں  تھے لیکن مودی سرکارکی مہر بانی سے ان کیلئے قرضوں  کی معافی اور دوسری رعایتوں  کی وجہ سے ان کا مال اتنا بڑھا کہ پتہ چلا کہ ان کے ہاتھ میں  ملک کی ستر فیصدد ولت تھی۔ باقی دولت ہندوستان کے ڈیڑھ ارب عوام کی قسمت میں  تھی۔ یہ دائیں  بازو والی سرکارکا فطری جھکاؤ بھی امریکہ کی طرف تھا۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی کا جھکاؤ بھی امریکہ کے ہی ساتھ تھا لیکن اب حالات رفتہ رفتہ بدل رہے ہیں ۔ بائیں  بازووالی سیاسی جماعتیں  اقتدار کی طرف پلٹ رہی ہیں ۔ خوش قسمتی سے اس کا سلسلہ بھی ہندوستان ہی کی طرف سے ہوا تھا۔ نریندر مودی اور بی جے پی کو اس بار مکمل اکثریت نہ ملنا ہی اس سلسلہ کا آغاز تھا۔ اس کے بعد اب ہندوستان پر نظر ڈالئے، آپ کو معلوم ہوگا کہ جہاں  کہیں  بھی الیکشن ہو رہے ہیں  اس کے نتائج دائیں  بازو کی یعنی رجعت پسندانہ پارٹیوں  کے حق میں  نہیں  آرہے ہیں ۔

 فی الحال انگلینڈ میں  چناؤ ہوئے ہیں ،وہاں  کنزرویٹو پارٹی کا راج تھا لیکن جب برطانیہ کے عوام یور وپی یونین سے نکل گئے تو برطانیہ میں سیاسی عدم استحکام کامعاملہ شروع ہوا، پہلے تو وہاں  کئی وزیر اعظم بدلے ۔ آخر میں  ہندوستانی نژاد رشی سونک وزیر اعظم بنے۔ ان کا ذکرہوا ہے تو یہ بھی بتا دیں  کہ جب انہوں  نے وزارت عظمیٰ کاحلف لیا تو حلف لینے کیلئے وہ وہیں  پہنچے جہاں  ایک گائے بندھی ہوئی تھی۔ انہوں نے بڑے پیار سے گائے کو چمکارا اور ہندوستان دوستی کا ثبوت دیا۔ ہندوستان کے بعض حلقوں  میں  اس کی بہت تشہیر بھی ہوئی لیکن جب تک رشی کاراج رہابرطانیہ کے رویہ میں  ذرا بھی فرق نہیں  آیا۔ ایسی کوئی نئی تبدیلی نہیں  ہوئی جس سے یہ پتہ چلتا کہ ہنددستان کی طرف برطانیہ کارویہ کچھ نرم ہوا ، بہرحال معاملہ چلتا رہا۔ پچھلے دنوں  جو الیکشن ہوئے، اس کے نتیجے میں  رشی سونک خود تو جیتے مگر ان کی پارٹی ہار گئی۔ان کی کنزرویٹیو پارٹی اس بری طرح ہاری کہ ایسی ہار پہلے کبھی نہیں  ملی تھی۔دوسری یعنی لیبر پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں  واپس آئی ۔لیبر پارٹی کو کل ملا کر ۲۱۲ ؍سیٹیں  ملی ہیں ، یہ بھی ہے کہ لیبر پارٹی کا بھی جھکاؤ بائیں  بازو کی طرف ہے۔ اس کے بعد فرانس میں  الیکشن ہوئے، یہاں  بھی دائیں  بازو کی پارٹی برسر اقتدار تھی ، اس بار یہاں  بھی لیفٹ پارٹی جیتی ہے، لیفٹ پارٹی کو کل ملا کر ۱۸۲ ؍ سیٹیں  ملی ہیں  ، حکمراں  پارٹی کومجموعی طو ر پر ۱۶۳ ؍سیٹیں  ملی ہیں اور وہاں  ایک مخلوط حکومت کی باتیں  ہو رہی ہیں ۔

 ہم نے جن ملکوں  کے انتخابا ت کاذکر کیا ہے،ان میں  ایران کا الیکشن بھی ہے۔ ہم نے پہلے ان کالموں  میں  ذکر کیا تھا کہ ایران میں  تہران کے سابق مئیرعلی باقر کا نام اہم ہے، یہ مختلف ذرائع بتا رہے تھے لیکن الیکشن ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ علی باقر کے بجائے مسعود پزشکیان ایران کے نئے صدر چنے گئے ہیں ، ان کا نام بھی زیادہ نہیں  تھا، مسعود پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں ، دراصل ڈاکٹر کے لئے ایرانی لفظ پزشکیان استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف ڈاکٹر ہیں  بلکہ ملک کے ایک اہم سرجن بھی ہیں ۔ ایران کے الیکشن کا طرہ ٔ امتیاز یہ تھا کہ اس الیکشن میں  ایران کے مذہبی پیشوا کا کوئی دخل نہیں  تھا۔ ان کے صاحبزاے نے بھی الیکشن میں  کوئی حصہ نہیں  لیا۔ انہوں  نے نہ کسی امیدوار کے حق میں  کوئی بات کہی نہ ہی کسی مخالف کے بارے میں  کوئی بیان دیا، اس طرح دیکھئے تو یہ الیکشن مکمل غیر جانبداری کے ساتھ  انجام پزیر ہوا، مسعود کو الیکشن کے پہلے رائونڈ میں  پچاس فیصد ووٹ نہیں  ملے تھے جو ایران میں  ا قتدار تک آنے کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے، اس کے بعد دوسرا راؤنڈ ہوا۔ اس بار مسعود کو ۵۴؍ فیصد ووٹ ملے اور انہیں  صدر چن لیا گیا۔

 ڈاکٹر مسعود نے ابھی ابھی کمان سنبھالی ہے اور اُن کے اندازِ  حکمرانی کو سمجھنے کیلئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا مگر جہاں  تک اُن کی ترجیحات کا سوال ہے، چونکہ وہ نظریاتی طور پر ترقی پسند ہیں  اس لئے اُن کے انداز و عمل پر سب کی نگاہ ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ  اگرکوئی خاتون خودسے پردہ کرتی ہے تو اسے پوری آزادی ہے لیکن اگر کوئی خاتون پردہ نہ کرے تو اسے اس پر مجبور بھی نہیں  کرناچاہئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ تو بالکل نہیں  ہیں  لیکن وہ یورپ سے بات چیت پر آمادہ ہیں ، یورپ نے کبھی ایران کا امریکہ کی طرح بائیکاٹ نہیں  کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کا اسرائیل کی طرف کیا رجحان ہوگا ۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈاکٹر مسعود اسرائیل سے بات چیت پر بالکل آمادہ نہیں  ہیں  لیکن اگر اسرائیل زیادہ زور دے تو اس کے ساتھ بھی گفت و شنید ممکن ہے۔

  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسعود بھی اس خیال سے مطمئن نہیں  ہیں  کہ اگر اسرائیل اپنی جارحانہ کارروائیاں  بند کردے تو حماس کے وجود کے قائل ہیں ۔ یعنی ایک طرف اسرائیل ہو اور دوسری ریاست فلسطین ہو، یہاں یہ بس یاد رکھنا چاہئے کہ بہت سے فیصلے صرف میدان جنگ میں  نہیں  ہوتے، اصل فیصلے گفت و شنید کی میز پر ہی ہوتے ہیں ، اگر اب تک یہ نہیں  ہوسکا تو اس کی وجہ اسرائیل کی پالیسیاں  تھیں  ۔ اسرائیل کیلئے،  اپنی فوجی برتری کیلئے جنگ ناگزیر تھی، غزہ کی جنگ میں  یوں  تو فلسطینیوں  کو بہت نقصان پہنچا لیکن اسرائیل کا بھی کچھ کم نہیں  ہوا۔

 غزہ کی جنگ ہولناک ہوچکی ہے۔ نیتن یاہو اس کے اصل مجرم ہیں ۔ اُنہوں  نے اسرائیل کو دنیا میں  اچھوت بنا دیا ہے، اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو کنزر ویٹیو اس کے خلاف تھے۔اسرائیل کی تجویز بھی انگلینڈ کے وزیر اعظم چرچل نے رکھی تھی۔ بہرحال دنیا میں  بائیں  بازو کی سیاست کی آمدایک بہت خوش آئند خبر ہے۔

17جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/arrival-leftist-politics-world/d/132735

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..