ارمان نیازی، نیو ایج اسلام
دعا
ہمارے اور اللہ تعالی جل جلاله کے ساتھ
ہمارےتعلق کی وضاحت کرتی ہے- ہم مانگتے ہیں اور وہ دیتا ہے.
ہم میں
سے بہت سے لوگ اس شک کے ساتھ زندگی
گزارتے ہیں کہ ان کی
دعا ئیں خدا کی طرف سے قبول کی جا رہا ہیں یا نہیں ، نعوذ بالله (ہم اللہ کی
پناہ چاہتے ہیں)ایسا اس لئے ہے کیونکہ
بسااوقات ہمیں وہ چیزیں نہیں ملتی ہیں جن
کےلئے ہم دعا گوہوتے ہیں. اللہ’سب جاننےوالا‘ ہے اس لئے یہ بھی جانتا
ہے کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے اور کیا برا ۔یہی
وجہ ہے کہ ہمیں مناسب وقت اور مناسب صورت میں
وہ چیزیں عطاء کی جاتی ہیں جو ہمارے لئے بہتر ہوں۔ لہٰذا ہمارے لیۓ ضروری ہیکہ ہم
نماز پڑھتے رہیں اور رب العزت سے اس کے مہربانیوں کی درخواست کرتے رہیں اور
اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں۔
حضرت
عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ:
·
کسی بھی مومن کی دعا بیکار نہیں
جاتی ہے۔ اسے اس کا اجر یا تو اسی دنیا میں مل جاتا ہے یا
آخرت میں بشرظیکہ وہ صابر ہو.
حضرت
عائشہ (رضی اللہ عنہا) کا مندرجہ بالا بیان ہمارے لئے ایک چشم کشا حقیقت
ہونا چاہئےاور اسے فا ئدہ مند سمجھ کر ہمیں
اس یقین کے ساتھ خود کو دعا ؤں میں مشغول
رکھنا چاہےکہ اگر اس دنیا میں نہیں
تو آخرت کی زندگی میں اس کا اجر ضرور ملے گا ( سبحان الله ) جو اس زندگی سے زیادہ اہم اورہمیشہ رہنے والی ہے ۔
دعا
ہماری روزمرہ کی زندگی میں نہایت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے. یہ ایک ایسا بندھن ہے جو خداکی ذات سےہمارے ایمان کو مضبوتی
کے ساتھ مربوط رکھتا ہے. ہم خدا کو سوتے،جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے اور عبادت کرتے ہر وقت یاد کرتےہیں کیونکہ ہمارا ایمان ہیکہ کہ صرف وہی ایک اسی ذات ہےجو شر سے اور
شرپسندوں سے ہماری حفاظت کر سکتا ہے۔
ہمارے مبلغین کو چاہیۓ کہ ہمیں دعا، کی اہمیت اور اس کے تکمیل کے
متعلق کچھ بتا ئیں ۔مبلغین کو چاہےٗ کہ
وہ ہماری حوصلہ افزائی کریں اور ہمیں یقین
دلاٗیں کہ کوئی دعا بیکار نہیں جاتی اس لے ہمیں زیادہ سے زیادہ دعاٗ مانگنی چاہے۔.کیوں
کہ یہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور قبول کر لی
جاتی ہے۔مبلغین کی طرف سے بار بار دعاء کے لیۓ قائل کرنے کی کوشش امت کے لئے حیرت
انگیز طور پر مفید ثابت ہوگی۔مسلم کمیونٹی کو درپیش تمام مصائب کا خاتمہ کرنے کے
لئے، دعا کے ذریعے خدا کی قربت حاصل کرنے کہ علاوہ اور کویٗ چارۂ کار نہیں ہے. دعا امت میں ایک اچھی عادت یہ پیدا کر دے گی کہ ہر مسلمان پاکیزگی کے ساتھ
رہنے پر مجبور گا. تقوی ایمان کا ایک حصہ ہے.
رحمت کی
رات (شب قدر ) کے دوران دنیاوی فوائد کی امید میں خود کو ہم نماز میں مصروف رکھتے
ہم کہتے ہیں ۔اور ہم کہتے ہیں کہ
جہنم سے آزآدی اور
اللّہ کی بخشش کے لئے نماز ادا
کرنا ضروری ہے. لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہیکہ
اللہ کے بندے دنیاوی مفادات کے لیۓ خدا سے
متعلقات زیادہ استوار کرتے ہیں . یہ
ایک ایسی حقیقت ہےکہ ہو سکتا ہیکہ
ہم میں سے کوئی بھی اسے قبول نہ کرے ۔ دنیاوی آرام و آسا ئش کا مطالبہ کرنا بھی اچھی بات ہے یہ منع نہیں ہے ۔اور یہ بھی اللہ کی بارگاہ میں
قابل قبول ہے ۔ لیکن ہمیں ہمارے چھوٹے بڑے ،جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر کیۓ گۓ
گناہوں کی بخشش طلب کرنے کی زیادہ کو شش کرنی چاہیۓ ۔ اگر ہمارے گناہ معاف کر دیۓ گۓ تو ہمارے روز مرہ کے مسائل یا تو حل ہو جائینگے
گا یا بالکل واقع ہی نہیں ہو نگے ، انشاء اللہ.
لہذا
اگر دعا کی اہمیت پوچھی جاۓ اتو اللہ اپنے بندوں پر سب سے زیادہ مہربان اور نظر
عنایت کرنے والا ہے اور ہمیشہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لئے تیار
ہے۔اسلۓ کہ اشرف المخلوقات ہونے کی بنا
پر اللہ تمام مخلوقات سے زیادہ اپنے بندوں
سے محبت کرتا ہے ۔ بخاری اور مسلم کی چند
ایسی حدیثیں پیش ہیں جنکا ملاحظہ کرنا انسانوںکا خدا کی بہترین مخلوق ہونے پر سر
تسلیم خم کرنا ے کیلۓ کافی ہو گا۔
روایت کی
گیٔ ہیکہ کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ: "اللہ رات
کے آخری حصہ اپنی پوری عظمت وشان کے ساتھ آسمان
دنیا پر جلوہ گر ہو تا ہے۔اورصدا فرماتا ہے ۔
ہے کوئی
ہے مجھے پکارنے والا تاکہ میں نے اس کا جواب (اس کی دعا کو پوری کر کے ) ہے کو ئی مجھ سے مانگنے والا تاکہ میں اسکی درخواست قبول
کروں ہے کوئی میری مغفرت طلب کرنے والا تا
کہ میں اسے (اور اس کے گناہوں کو ) معاف کروں ۔. (امام بخاری اور مسلم
کیونکہ
اللہ کریم ہماری دعاؤں کو قبول کرتا ہے اسلیۓ کہ ہم بہت خوبصورت، ذہین، عقل
مند اور خوشحال ہیں اور آسمان تک پہنچنے
کے قابل ہیں ۔یہ اللہ ہی ہے جو ہمیں
خود پکارتا ہےکہ "کیا کوئی ہے مجھے پکارنے والاتاکہ میں اس کی درخواست کی قبول کروں ۔
·
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ
وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيم
·
ایک موقع پر قرآن مجید کا فرمان ہے کہ وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ثُمَّ إِذَا
مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُون
اور
مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ تو جدھر تم رخ کرو۔ ادھر خدا کی ذات ہے۔ بے شک خدا
صاحبِ وسعت اور باخبر ہے (2:115)
مندرجہ بالا آیت میں ہمیں اسبات کی ترغیب دی گئی ہیکہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں یا کسی بھی حالت میں
ہوں اسکی
رحمت اور محبت کرتےرہیں اور اسکی ا مدد چاہنے کے لیۓ ہمیں
مسجد جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی
اسے ہماری بات سننےکی بھیک کے لئے
کسی خاص وقت کے انتظار کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیۓ کہ ہمارے فریادوں کی سنوائی ابھی
نہیں تو باد میں ورنہ آخرت میں ضرور ہو گی ۔. اللہ ایک صورت حال پیدا
فرماتا ہے اور شدید غیر متوقع صورت میں
مدد بھیجتا ہے۔ یہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمیں
اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہیکہ
کس طرح ہمیشہ اس کی رحمت اسکی رحمت و شفقت نے ہمیں بے چینیوں سے نجات دلائی ہے ۔
یہ طرزعمل ہمیں اسکا شکر گذار بنا
دیگا ۔ اسکے بدلے ہمیں مشروع طریقہ سے شکر
گذاری اور احسان مندی کا اظہار کرنا
چاہئے۔ ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ
ہمیں پکارتا ہے کہ (ہے کوئی مجھے پکارنے
والا کہ میں اس کی درخواست قبول کروں ) ہماری خوا ہشیں پو ری کر نے کےلئیے ۔ خدا سب جانتا ہے. کوئی بھی چیز اس سے چھپی نہیں ہے ۔وہ آپ کی جائز
ضروریات کو جانتا ہے۔ وہ آپ کی خاموشی کی آواز کو سنتا ہےاور آپ کے آنسو کی زبان کو سمجھتا ہے ۔ اس سے مانگتے رہیں انشاء اللہ ہماری خواہشیں اوردعاءضرورپوری ہونگی۔اسلام میں
'مایوسی' کے لیے کوئی جگہ نہیں ہےاسلئےکہ
ناامیدی کفر ہے ۔
اور جو
نعمتیں تم کو میسر ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں۔ پھر جب تم کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے
تو (16:53)اسی کے آگےچلاتےہو
ہم انسانوں
کو اللّہ ہر طرح کا سکون ، مہربانی ، مدد اور رحمت
عطا فرماتا۔ ہم دنیاوی آرام حاصل کرنے کے لئے بہت کوشش کرتے ہیں ۔لیکن یہ یاد
رکھنا چا ہئے یہ تمام مہربانیا اس دعا کی
وجہ سے ہے جو ہم کرتے ہیں اور خدا
اسے قبول کرتا ہے۔اور اگر کسی بھی قسم کی تکلیف، شر، یا بدقسمتی ہمیں
پہنچتی ہے تو خدا سے مدد حاصل طلب کرنے کے
علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔. وہ خود ہمیں
اس کی مدد چاہنے کی ترغیب دیتا ہے .ایسے حلات میں ہمیں کیا کرنا
چاہئے یقیناً ہمیں اس کے سامنے جھکنا چاہئے اور مدد طلب کرنی چاہئے ۔اس لئے
کہ دعا ہر قسم کی مصیبت کے لئے امرت ہے
دعا کو مزید مؤثر بنانے کے لئے، ہمیں کبھی دعا ء نہیں چھوڑنی چاہئے ۔اوراللّہ کی ذات سے
کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے اسلئے کہ
اللّہ کی رحمےیں اور عنایتیں لا محدود ہیں ۔.
۔ " رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ
ضرورت
کے دوران اللہ سے مدد طلب کرو ۔اور ہر طرح
کی تکلیف اور دکھ میں اس کی پناہ چاہو ۔
عاجزی
کا اظہار کرو اور اسے پکارو ،یہی دعاء کا منشأ اور لب لباب ہے ۔جب بھی کو ئی
مومنوں دعاء کرتا ہے تو مندرجہ صورتوں
میں اسکی دعاء قبول کر لی جاتی ہے
۔
یا
تواسکی دعاء اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے
۔
یا پھر
اسکا اجر اسے آخرت میں ملے گا ۔
یا پھر
اسکے گناہوں کو اس طرح چھپا دیا جاتا ہے جیسا کہ اس نےایک بھی گناہ کیا ہی نہیں
۔"(صحیح بخاری)
دوسری
قرآن جگہ قرآن کہتا ہے۔
إِنَّ
اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ
يَظْلِمُون
خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں."
(10:44)
اپنے آپ
پر ظلم نہ کریں ، اللہ کی طرف توجہ کریں ،
اس کی مدد کی تلاش میں رہیں، دعا کرنا سیکھیں،. اگرچہ پوچھ کر ہی سہی ، وہ
ہر وقت ہر طرف حاضرو ناظر ہے، لیکن کچھ
مخصوص مقامات اور اوقات ہیں جب وہ ہماری
روح کے بہت قریب ہوتا ہے ،اور پہلی
پکار میں ہی ہماری دعاء کو سنتا ہے ،
ہمیں
خود کے تئیں مخلص اور ایماندار ہو نا چاہئے ،ہمیں اپنی شخصییت کی گہرائی میں جا کر
سوچنا چاہئے کہ کیا ہمیں اسکی مہربانیاں
اور رحمتیں نہیں ملیں جب ہمیں ان کی سخت ضرورت تھی ؟ تو ہم پائنگے ضرور ملیں،یہ
تمام انعامات ان دعاؤں کا نتیجہ ہیں جو ہم نے خود کیلئے کی ہیں ، یہ تمام نا ممکن الحصول چیزیں
صرف اللّہ کی رحمت سے حاصل ہوئی ہیں۔
رسول
اکرم ﷺ کا وہ قول یاد کرو جسمیں آپ نے فرمایا ۔
سب سے
کمزور شخص وہ ہے جو دعا بھول گیا "(صحیح بخاری)
اللّہ
ہمارے تمام معاملات کو آسان فرمادے امین!آپ
سب ہمارے خاندان اور تمام امت کے
لئے دعا فرما ئں ۔:
اللہ کے
رسول صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں:
اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں ایک مسلمان کی
دعا کا ضرور جواب دیا جائے گا، جب وہ اپنے
بھائی کی اچھا ئی کے لئے دعا کرتا ہے تو فرشتےآمین کے لئے مقرہیں ۔!اور
فرشتے کہتے ہیں کہ یہ آپ کے لئے بھی ہو
"(مسلم)
والله
أعلم بالصواب
( اور خدا خوب جانتا ہے کہ کیا صحیح ہے)
URL for English
article: