ارندم چودھری
24 اگست، 2012
پیارے بھائیو!
جب میں نے آسام فسادات کے بارے میں پڑھا تو مجھے ذرا الجھن ہوئی۔ اب کیوں؟ اور جب اتر پردیش کے شہر
بریلی ، جو بابری مسجد بحران کے وقت بھی فرقہ وارانہ فسادات اور منقسم ہونے سے بچا ہوا تھا، میں فسادات بھڑک
اٹھے تو میں ششدر رہ گیا ۔ جب میں نے ممبئی میں پر تشدد بھیڑ کے ذریعہ امر جوان جیوتی
تک کی بے حرمتی کرتے اور اسے نقصان پہنچانے
کے مناظر دیکھے تو میں حیران رہ گیا۔میں اس وقت غصہ سے ابل رہا تھا جب میں یہ پڑھ رہا
تھا کہ شمال مشرق سے تعلق رکھنے والے ہندوستان کے حقیقی شہری کس طرح خود کو خطرہ میں سمجھتے ہوئے پونے ، حیدر
آباد ،بنگلور و او رچنئی جیسے شہروں سے بھاگ رہے تھے ۔ اور حقیقت میں مجھے اس وقت بہت برا لگا جب میں نے ایک بھیڑ کو لکھنؤ
میں بدھا کے مجسمہ کو نقصان پہنچانے والی تصویروں کو دیکھا ۔
حقیقت میں ہندوستان کے لئے
یہ خوفناک اوقات ہیں ، شاید 1980 کی دہائی
سے بھی زیادہ جب کہ شاہ بانو اور بابری مسجد تنازعوں کے نتیجہ میں ملک بھر میں
فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھا تھا۔ 2002 کے بعد سے ہندوستان فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ تھا۔ تاہم اچانک ہی وہ بد
اندیش بادل کی طرح ایک بار پھر ہندوستان بھر میں پھیل گئے ۔ ظاہر ہے، منموہن سنگھ کی
قیادت میں پست حوصلہ، مایوس اور بے غیرت یوپی اے حکومت نے اس گڑبڑی کے لئے پاکستان
کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اپنی ذمہ داری سےبچاؤ کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ بظاہر آسام اور میانمار میں مبینہ طور پر مسلمانوں پر
ظلم و زیادتی او ران کے قتل عام کی خلط ملط کی ہوئی او رفرضی تصویر یں پاکستان میں
تیار کی گئی تھیں اور انہیں سوشل نیٹ ورکنگ
سائٹوں اور تحریری میسجوں کے ذریعہ جان بوجھ کر ہندوستان بھر میں پھیلا یا گیا تھا
۔ اس میں سچائی بھی ہوسکتی ہے۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ
: کیا یہ خاتون کانسٹبلوں سے چھیڑ چھاڑ ، امر جوان جیوتی کی بے حرمتی ،جہاں تہاں شمال
مشرق کے لوگوں پر حملہ اور انہیں دھمکانے او ربدھ کے مجسمہ کو بھی نقصان پہنچانے کا
جواز ہے؟ اپنے مسلم بھائیوں سے ، جو کہ ساتھ رہنے والے ہندوستانی ہیں، یہی میرا کھلا ہوا سوال ہے، یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے
کہ : میانمار میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کے مسئلہ پر آپ اتنا مشتعل کیوں ہوجاتے
ہیں؟ آپ شام جیسے ممالک میں مسلمانوں کے روزانہ
قتل عام کے خلاف ریلیاں اور مظاہرے کیوں نہیں کرتے ہیں؟ پاکستان میں شیعوں کےبے دریغ
قتل کے خلاف آپ احتجاج کیوں نہیں کرتے ہیں؟ اس سے بھی اہم بات یہ کہ : کیا ہندوستان
میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کی کوئی کمی ہے، جب کہ وہ اقتصادی طور پر سماج کے سب سے
زیادہ حاشیہ بردار طبقات میں سے ایک ہیں؟
بیشتر انگریزی میڈیا کی آبیاری
اس طرح ہوئی ہے کہ کہ جب بالخصوص مسلمانوں کی بات آتی ہے تو وہ چیز وں کو کھل کر بیان کرتا ہے، اگرچہ
وہ سیاسی اعتبار سے صحیح نہ ہو۔ لیکن میں آپ سبھی سے گزارش کروں گا کہ دوبارہ سوچیں اور اس پیغام پر غور کریں کہ یہ کارروائیاں باقی
پورے ہندوستان میں پھیل رہی ہیں۔ دائیں بازو کی ہندو تو وادی ذہنیت والوں کی بھی
کمی نہیں ہے جو غیر منطقانہ طور پر مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔یہ لوگ اب آواز اٹھارہے
ہیں کہ مسلمان ملک سے زیادہ اپنے مذہب سے دلچسپی
رکھتے ہیں ۔ اس سے مسلمانوں کو کیا مدد ملے گی؟ یقینی طور پر آپ اس بات سے آگاہ ہیں کہ حالیہ فسادات
میں مسلمان ہی عموماً قتل ہوئے ہیں۔
ان سب مشتعل کرنے والی کارروائیوں
او رطرز عمل سے ہندوستان بھر میں کیا مقصد حل ہورہا ہے ؟ سب سے زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟
سبھی فرقوں کے نفرت کے سودا گر شیرہ لگاتے
ہیں جب کہ متاثر غریب لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنا
ہی گلا گھونٹنے والا کون سا پاگل پن آپ کو
موت او رتباہی او رمزید تعصب اور نفرت کا راستہ اختیار کرنے پر ابھار رہا ہے؟ مسلم
کمیونٹی کے لیڈران بار بار ہندوستانی مسلمانوں کو دنیا بھر کےمسلمانوں کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے ہونے پر ابھاڑ چکے ہیں ۔ اس میں کوئی برائی
نہیں ہے۔ لیکن جب آپ ایسا کررہےہوتے ہیں تو اسی کے ساتھ ہی جب دنیا بھر میں دیگر اقلیتوں
کو ظلم و زیادتی اور استحصال کا سامنا ہوتا
ہے تو آپ خاموش ہوجاتے ہیں اورخود کو ایک فرقہ وارانہ گوشہ میں ڈال لیتے ہیں۔ ایسا بار بار دوہرانا اوریہ باور کرانا کہ اسلام خطرہ
میں ہے، غلط ہے ۔ یہ دنیا کا ایک سب سے بڑا مذہب ہے اور اس وقت اس کے ماننے کیتھو لک
چرچ سے بھی زیادہ ہیں۔ دنیا کا شاید کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جہاں حقیقت میں آبادی گھٹی ہو۔ آج کی سفاک
او ربری حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ کے معاملوں میں ایک بڑی تعداد میں قتل ہونے والے مسلمانوں
کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں ۔ جس طرح پاکستان احمدیوں اور شیعوں پر ظلم و زیادتی کررہا
ہے اس پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے لئے آزاد میدان میں ایک احتجاجی مارچ اور ریلی
کے اہتمام کے بارے میں کیسا رہے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ : کانگریس
اور دیگرنام نہاد سیکولر پارٹیوں کے منصوبہ ساز چاہتے ہیں کہ وہ ووٹ بینک کے حیثیت
سےمسلمانوں کا مستقل غلط استعمال ان کی تذلیل اور ان کا استحصال کرتے رہیں ۔ بعد از
آں نام نہاد مسلم لیڈران ہیں جو لگا تار ہندوستانی مسلمانوں پر ایک علاحدہ شناخت تھوپتے
رہتے ہیں اور ہمیشہ ہی انہیں مظلومین کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کے ایسے
نام نہاد دانشور وں کے ایک بڑے طبقہ کی کافی مدد ملی ہے جنہیں درحقیقت ہندوستان کے
نظریہ سے ہی نفرت ہے۔ ہندوستان کے ان ناقدین اور نفرت کرنے والوں کے لئے مظلوم اور
مقہور مسلمان سب سے پسندیدہ موضوع ہے۔ لیکن
مسلمانو ں سے میری پر خلوص اپیل ہے کہ اس طرح کی ناسمجھی کو ہمیشہ
کے لئے بند کردیں۔ یہی وقت ہے کہ ہندوستانی
مسلمان مظلومیت اورظلم و زیادتی کی ہوا دینے
والے ان لوگوں کو سخت اور زور دار انداز میں نہیں کہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا
کہ مسلم لیڈران تعلیم ، روزگار ،حفظان صحت، حقوق انسانی ،مساوات اور مالی تحفظ جیسے
حقیقی مسائل پر زیادہ توجہ دیں؟
میں یہاں اپنے ملک کے ساتھی
مسلم بھائیوں او ر بہنوں سے ایک انتہائی سادہ
حقیقت بیان کرنا چاہوں گا۔ یہ سادہ مگر ظالمانہ
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت حاشہ
پر پڑے تمام ہندوستانیوں اور کمزور ترین طبقہ
کے ساتھ انتہائی برا سلوک کرتی ہے۔ ان میں مسلمانوں ، دلت ،قبائلی ،زمین سے
محروم مزدور، غریب کسان ، چائے کی دوکان اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ
شامل ہیں ۔ لہٰذا برائے مہربانی آپ اس جھوٹے
پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں کہ حکومت صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی فرق و امتیاز برتتی ہے۔ خود مختار ی اور غالب آنے کا طاقتور او رموثر ترین ہتھیار ہمیشہ سے تعلیم رہا ہے۔ یہ بہت پہلے 1875 کی بات ہے جب سر سید احمد خاں نے جدید تعلیم
کی اہمیت کو سمجھا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی تو پھر
ملک کی مسلم برادری اس طرح کے مزید دور اندیش او ر مد بر افراد کو کیوں نہیں
پا سکتی ہے؟ بہت سارے مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ جنوبی ہند کے مسلمان شمالی ہند کے مسلمانوں کے مقابلہ میں
معاشی سکیورٹی کے لحاظ سے کہیں زیادہ بہتر ہیں ۔ میرے دوستوں اس کا جواب میں ایک بار پھر دوہراتا ہوں اور وہ تعلیم ہے اور میں تعلیم
اور بہترین یونیورسیٹوں تک بہتر ین رسائی کے لئے مسلم برادری کی طرف سے ایک انقلاب
دیکھنا چاہتا ہوں۔
اور ہاں ،جیسا کہ میں نے کہا ہم نے بحیثیت ایک ملک مختلف برادریوں کو بڑے پیمانہ
پر تعلیم ، معاشی خوشحالی اور صحت سہولیات تک رسائی سے محروم کر رکھا ہے اور بد قسمتی
سے دلتوں کی طرح مسلمان بھی اس فرق و امتیاز کا ایک حصہ رہے ہیں ۔ لہٰذا جب آپ جد وجہد کرتے ہیں اور
ای میل بھیجتے ہیں اور فیس بک کا استعمال کرتے
ہیں تو پھر غربت ، جہالت اور خراب صحت جیسے کاموں کے لئے بھی آپ ایسا ہی کریں اور ان کا موں کے لئے آپ دلتوں اور دوسرے پسماندہ طبقوں کو بھی ایک پلیٹ
فارم پر لائیں اور آپ ایک مذہبی محاذ بنانے کے بجائے ایک عام محاذ بنائیں، کیو نکہ
مذہبی محاذ جار حانہ خطرات کی نشر و اشاعت کرتا ہے اور نتیجتاً وہ بطور خود الگ تھلگ پڑ جاتا ہے اور دوسرے مذاہب کے بھی دائیں
بازو کے دھڑوں کو وہ قوت و استحکام بخشتا ہے ۔ ایسا دنیا بھر میں ہورہا ہے اور اسی طرح ملک میں بھی
ہورہا ہے۔
ہندوستانی مسلم بھائیوں سے
میری مخلصانہ اپیل یہ ہے کہ برائے مہربانی منفی رخ کے بجائے آپ مثبت رخ اختیار
کریں۔ میں یہاں اپنے ہندوستانی مسلم ساتھیوں کو ایک حقیقی بہادر اور اسٹار کی کہانی یاد دلانا
چاہوں گا ۔ ان کی پیدائش ایک ہندو کے طور پر
ہوئی تھی جو بعد میں مذہب تبدیل کرکے مسلمان بن گئے۔ وہ اے آر رحمان ہیں جو کہ معاصر
ہندوستان کے انتہائی شہرت یافتہ اور مقبول
ترین میوزک کمپوزر ہیں۔ مذہب اسلام قبول کرنے
کی وجہ سے انہیں جو امتیاز و تعصب کا سامنا
کرنا پڑا، اس تعلق سے ان کے بارے میں آپ نے
کتنے واقعات سنے ہیں؟ اور اسی طرح کیا وہ ایک کم متقی و پارسا اور سچے مسلمان ہیں محض اس وجہ سے کہ وہ وندے ماترم گنگناتے ہیں ؟ نفرت
کے سوداگر وں اور ووٹ بینک کی سیاست کے ذریعہ آپ کو ایک لمبے عرصہ سے دھوکہ دیا گیا۔
آپ کی قسمت ہے، وہ آپ کے اپنے ہاتھوں میں بھی ہے ۔ اب آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنے کا
وقت آگیا ہے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں اور آپ
کہا ں کا رخ کرنا چاہتے ہیں۔
24 اگست ، 2012 بشکریہ: صحافت
، لکھنؤ
URL: https://newageislam.com/urdu-section/an-open-letter-muslims-brethren/d/8473