غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
۱۴۔ یَقْولْونَ مِن خَیرِ قَولِ البَرِیَّۃ:’’وہ (خوارج) خیر البریہ کی حدیث بیان کریں گے‘‘۔یہاں تھوڑی تفصیل مقصود ہے اس لیے پوری حدیث کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخر زمانہ میں ایسے لوگ آئیں گے جو کم عمر ہوں گے ، کم عقل ہوں گے ، وہ خیر البریہ کی حدیث بیان کریں گے ، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے ، ان کا ایمان ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا ، تم ان کو جہاں پاؤ ان کو قتل کردو کیونکہ ان کا قتل کرناقیامت کے دن اس کے لیے باعث اجر ہوگا جو ان کو قتل کر دے گا‘‘(صحیح البخاری: کتاب فضائل القرآن ، باب من رایا بقراء ۃ القرآن او تأکل بہ أو فخر بہ ، رقم:۸۲ ، صحیح البخاری:۳۶۱۱، صحیح مسلم: کتاب الزکوۃ ، باب التحریض علی قتل الخوارج ، رقم:۱۹۹ ، جامع الترمذی: کتاب الفتن، باب فی صفۃ المارقۃ ، رقم:۳۱)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ وہ (خوارج) لوگ قرآن مجید کی بہت زیادہ تلاوت کریں گے اور خیر البریہ کے قول سے مراد حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کی ہوئی آیات ہیں۔ (فتح الباری ، نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری: ج ۹ ص۳۱۴)
علامہ ابن ملقن متوفی ۸۰۴ ھ اس حدیث (صحیح البخاری : ۳۶۱۱ ) کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں مذکور ہے : وہ لوگ خیر قول البریہ کو بیان کریں گے : یعنی ان کے اقوال بہت اچھے ہوں گے اور ان کے اعمال بہت خراب ہوں گے۔ اس حدیث میں مذکور ہے کہ ان کو قتل کرنا باعث اجر ہوگا کیونکہ وہ لوگ زمین پر فساد کریں گے اور مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے کی کوشش کریں گے۔ اس حدیث میں مذکور ہے : ان کا ایمان ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا: کیونکہ وہ مومن نہیں گے‘‘۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح :ج ۲۰ ص ۱۹۴ ، وزارۃ الاوقاف ، قطر ، ۱۴۲۹ھ، نعمۃ الباری فی شرح البخاری للعلامہ غلام رسول سعیدی : ج ۹ ص ۳۱۱)
لیکن اس حدیث پر اشکال عظیم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم ظاہر پر عمل کریں اور ہم اس کے مکلف نہیں کہ ہم باطن کی کھوج کریں ، پس جو لوگ خیر البریہ کے قول کو پڑھتے ہوں گے ہمیں ان کے حال پر کیسے واقفیت ہوگی کہ ہم ان کو واجب القتل قرار دیں۔
شیخ عثیمین اس کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’ان لوگوں کی علامات ہیں اور سب سے اہم علامت یہ ہے کہ یہ مومنین کو کافر قرار دیں گے کیونکہ ان کا ایک مخصوص طریقہ ہے اور جو ان کے طریقہ کے مخالف ہو وہ اس کو کافر کہتے ہیں، سو ان لوگوں کو قتل کرنا واجب ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا عام لوگوں کے لئے ان کو قتل کرنا جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حدود کو قائم کرنا اور مرتدین کو قتل کرنا سربراہ ملک کی طرف مفوض ہے کیونکہ اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو ہر شخص مباح الدم کو قتل کر دے گا۔ اور اگر بالفرض سربراہ ملک اس حکم پر عمل نہ کرے تو عام مسلمان کے لئے بھی ان کو قتل کرنا جائز ہے بہ شرطیکہ اس کو اس سے ضرر نہ ہو‘‘۔
شیخ عبد اللہ بن باز حنبلی نے اس حدیث کی تعلیق میں لکھا ہے کہ یہ لوگ خوارج ہیں اور یہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور بت پرستوں کو چھوڑتے ہیں‘‘۔ (شرح صحیح بخاری :ج ۴ ص ۴۰۶ ، مکتبہ الطبری ، ۱۴۲۹ ھ)
یہاں علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ شیخ عثیمین کی مذکورہ بالا شرح پر تبصرہ کرتے ہوئے اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کے کفر پر علماء4 عرب و عجم کے اتفاق کا حوالہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں کہ جن لوگوں کو شیخ عثیمین نے واجب القتل قرار دیا ہے ان کے اولین مصداق شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار ہیں اور ان میں شیخ عبد اللہ بن باز اور شیخ عثیمین بھی داخل ہیں، دیکھئے:
شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی متوفی ۱۲۰۶ ھ لکھتے ہیں: "وعرفت أن اقرارھم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلھم فی الاسلام،وقصدھم الملائکۃ والأنبیاء یریدون شفاعتھم وتقرب الی اللہ بذالک،ھو الذی احل دماءھم وأموالھم" ترجمہ: ’’تم جان چکے ہو کہ ان لوگوں کا توحید ربوبیت کا اقرار کرنا ان کو اسلام میں داخل نہیں کرتا ، اور یہ جو ملائکہ اور انبیاء کا قصد کرتے ہیں اور ان کی شفاعت کا ارادہ کرتے ہیں اور اس سے اللہ کے تقرب کا ارادہ کرتے ہیں اس چیز نے ان کے قتل کرنے اور ان کے مال لوٹنے کو مباح کر دیا ہے‘‘۔ (کشف الشبہات : ص ۹ ، مکتبہ السلفیہ بالمدینہ المنورۃ ، ۱۳۸۹ھ)
اس عبارت میں شیخ عبد الوہاب نجدی نے تصریح کردی ہے کہ جو ان کے عقیدہ کا مخالف ہے وہ جائز القتل ہے۔
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بھائی صحیح العقیدہ مسلمان تھے ، وہ شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی تکفیر کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کی تکفیر کے بارے میں تمہارا موقف اس لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا اور نذر و نیاز قطعا کفر نہیں حتی کہ اس کے مرتکب مسلمان کو ملت اسلامیہ سے خارج کر دیاجائے،کیونکہ حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شبہات کی بنا پر حدود ساقط کردو‘‘۔(تاریخ بغداد ج ۹ ص ۳۰۳)۔ اور حاکم نے اپنی صحیح میں اور ابو عوانہ نے البزار میں سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کسی شخص کی سواری کسی بے آب و گیاہ صحراء میں گم ہو جائے تو وہ تین بار کہے: اے عباد اللہ ! مجھ کو اپنی حفاظت میں لے لو تو اللہ تعالی کے کچھ بندے ہیں جو اس کو اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں‘‘۔ (مسند البزار : ۳۱۲۸ ، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی : ۵۵۸) اور طبرانی کی روایت ہے کہ ’’اگر وہ شخص مدد چاہتا ہو تو یوں کہے کہ اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو‘‘۔ (المعجم الکبیر : ۱۰۵۱۸)۔ اس حدیث کو فقہائے اسلام نے کتب جلیلہ میں ذکر کیا ہے اور اس کی اشاعت کی ہے اور معتمد فقہائے کرام میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا ہے۔ چنانچہ امام نووی شافعی متوفی ۶۷۶ھ نے ’’کتاب الاذکار : ۸۰۷‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے، اور ابن القیم نے اپنی کتاب ’’الکلم الطیب ‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے اور ابن مفلح نے ’’کتاب الآداب‘‘ میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’حضرت امام بن حنبل کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد (یعنی امام احمد بن حنبل المتوفی ۲۴۱ھ) سے سنا ، وہ فرماتے تھے : ’’میں نے پانچ بار حج کئے ہیں ، ایک بار میں پیدل جا رہا تھا اور راستہ بھول گیا ، میں نے کہا : اے عباد اللہ ! مجھے راستہ دکھاؤ ، میں یوں ہی کہتا رہا حتی کہ میں صحیح راستہ پر آلگا‘‘۔ اب میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص کسی غائب یا فوت شدہ بزرگ کو پکارتا ہے اور تم اسے کافر کہتے ہو بلکہ تم محض اپنے قیاس فاسد سے یہ کہتے ہو کہ اس شخص کا شرک ان مشرکین کے شرک سے بھی بڑھ کر ہے جو بحر و بر میں عبادت کی غرض سے غیر اللہ کو پکارتے تھے، اور اس کے رسول کی برملا تکذیب کرتے تھے ، کیا تم اس حدیث یا اس کے مقتضاء پر علماء اور ائمہ کے عمل کو اس شخص کے لئے اصل نہیں قرار دیتے جو بزرگوں کو پکارتا ہے اور محض اپنے فاسد قیاس سے اس کو شرک قرار دیتے ہو۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جب کی شبہات سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں تو اس مضبوط اصل کی بنا پر ایسے شخص سے تکفیر کیونکر نہ ساقط ہو گی۔ نیز مختصر الروضہ میں کہا ہے : جو شخص توحید اور رسالت کی گواہی دیتا ہو اس کو کسی بدعت کی بنا پر کافر نہیں کہا جائے گا‘‘۔ (الصواعق الالہیہ : ص ۳۴ ، ۳۵ ، مکتبہ ایشیق ، استنبول)
شیخ حسین احمد مدنی صدر المدرسین دار العلوم دیوبند متوفی ۱۳۷۷ ھ ، محمد بن عبد الوہاب متوفی ۱۲۰۶ ھ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’صاحبو! محمد بن عبد الوہاب نجدی تیرہویں صدی میں نجد عرب سے ظاہر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اہل سنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا ، ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکذیب دیتا رہا ، ان کے اموال کوغنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ، ان کے قتل کو باعث ثواب اور رحمت شمار کرتا رہا ، اہل حرمین کو خصوصا اور اہل حجاز کو عموما تکلیف شاقہ پہنچائیں، سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کیے، بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کے فوج کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ الحاصل وہ ایک ظالم اور باغی ، خونخوار ، فاسق شخص تھا، اسی وجہ سے اہل عرب کو خصوصا اس کے اور اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے، اور اس قدر ہے کہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے اور نہ ہنود سے‘‘۔ (الشہاب الثاقب : ص ۴۲ ، میر محمد کتب خانہ ، کراچی)
علامہ محمد امین بن عمر بن عبد العزیز الدمشقی متوفی ۱۲۵۲ ھ لکھتے ہیں: ’’جس طرح ہمارے زمانے میں محمد بن عبد الوہاب کے متبعین ہیں ، جو نجد سے نکلے اور حرمین پر غالب ہو گئے اور وہ خود کو مذہب حنابلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن ان کا اعتقاد ہے کہ وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے اعتقاد میں مخالف ہو وہ مشرک ہے اور اس وجہ سے انہوں نے اہل سنت کے قتل کو اور علماء کے قتل کو جائز قرار دیا‘‘۔ (رد المحتار للشامی : ج ۶ ص۳۱۷ ، دار الاحیاء التراث العربی ، بیروت ، ۱۴۱۹ھ)
بعد ازاں علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’سعودی حکومت نے اپنی مملکت میں علامہ شامی کی ’’رد المحتار‘‘ کا اس عبارت کی وجہ سے سعودی حکومت میں داخلہ ممنوع قرار دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ : انہوں نے ’’رد المحتار‘‘ کا داخلہ تو اپنی حکومت میں بند کر دیا ہے لیکن وہ اس حدیث کا کیا کریں گے: ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ، صحابہ نے عرض کیا : اور ہمارے نجد میں؟ آپ نے دعا کی : اے اللہ ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما ، صحابہ نے عرض کیا : اور ہمارے نجد میں؟ آپ نے فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔ (صحیح البخاری : ۱۰۷۳ ، ۷۰۹۴ ، صحیح ابن حبان : ۶۶۴۸ ، شرح السنہ : ۴۰۰۴ ، مسند احمد : ج ۲ ص ۵ ، جامع المسانید لابن الجوزی : ۳۵۱۹)۔ نجد کی جنوبی وادی حنیفہ کے ایک مقام عیینہ میں مسیلمہ کذاب پیدا ہو ا تھا ، اور اسی جگہ محمد بن عبد الوہاب نجدی پیدا ہو ، اور اس کی پھیلائی ہوئی بدعقیدگیوں سے مسلمانوں کے عقائد میں زلزلہ اور زبردست فتنہ پیدا ہوا‘‘
پھر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کیا ہی عمدہ نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں کہ: شیخ عبد اللہ بن باز متوفی ۱۴۲۰ ھ اور شیخ عثیمین متوفی ۱۴۲۱ ھ تو دینا سے رخصت ہو گئے اور ان کا معاملہ اور حساب و کتاب اللہ تعالی کے اختیار میں ہے لیکن ان کے متبعین اور ان کے حامیوں کو چاہئے کہ وہ اس بحث کو بغور پڑھیں ہو سکتا ہے کہ وہ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی پیروی چھوڑ دیں اور مسلک اہل سنت و جماعت کو اختیار کر لیں۔ اللہ تعالی ہمیں ہدایت پر قائم رکھے اور ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین)‘‘ (نعمۃ الباری فی شرح صحیح البخاری : ج ۹ ص ۳۱۶ ، ۳۱۷)
(بقیہ آئندہ)
URL to read its short version in English: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/ghulam-ghaus,-new-age-islam/isis,-taliban,-al-qaeda-and-other-islamist-terrorists-are-kharijites?-an-analysis-of-40-major-characteristics-of-kharijites/d/106173
غلام غوث صدیقی دہلوی اسلامی صحافی ، انگریزی،عربی ،اردو زبانوں کے مترجم اور نیو ایج اسلام کے ریگولر کالم نگار ہیں۔ ای میل:ghlmghaus@gmail.com
URL for Part 1: https://newageislam.com/urdu-section/are-isis,-taliban-al-qaeda/d/109905
URL for Part 2: https://newageislam.com/urdu-section/are-isis,-taliban-al-qaeda/d/109918
URL for Part 3: https://newageislam.com/urdu-section/are-isis,-taliban-al-qaeda/d/109933
URL for Part 4: https://newageislam.com/urdu-section/are-isis,-taliban-al-qaeda/d/109947
URL for Part 5: https://newageislam.com/urdu-section/are-isis,-taliban-al-qaeda/d/109962
URL: https://newageislam.com/urdu-section/are-isis,-taliban-al-qaeda/d/109977
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism